الخیر فیما وقع
ایک مشہور عربی قول ان الفاظ میں آیا ہے:الخیر فیما وقع۔ یعنی جو ہوا، وہی بہتر ہے:
What happens, happens for the good.
یہ قول غالباً امید خیر کے معنی میں ہے۔ یعنی معاملے کا سرا سب کا سب اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے یہ امید رکھو کہ جو ہوا، اس میں خداوند رحمٰن و رحیم نے ہمارے لیے کوئی خیر رکھا ہوگا۔ اس طرح یہ قول گویا دعا کے معنی میں ہے۔ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے : إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِیْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)۔ یعنی میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ جب بندوں کے بارے میں اللہ رب العالمین کا یہ فیصلہ ہے تو بندے کو ہر حال میں اپنے رب سے خیر کی امید کرنا چاہیے۔
لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے فیصلۂ رحمت کا نتیجہ فورا ًسامنے آجائے۔ نتیجے میں تاخیر ہوسکتی ہے، لیکن اصولی اعتبار سے اللہ کا فیصلہ بہرحال بندے کے لیے رحمت پر مبنی فیصلہ ہوگا۔ بندہ اپنی سوچ کے لحاظ سے رحمت کا طالب ہوتا ہے، لیکن اللہ کا فیصلہ رحمت کے عمومی مصلحت کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ بندہ جلدی کا طالب ہو، لیکن اللہ کا فیصلہ بندے تک تاخیر کے ساتھ پہنچے۔ ایسی حالت میں بندہ کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں امید پر قائم رہے۔ وہ ہر حال میں یقین رکھے کہ اللہ رب العالمین اس کے ساتھ رحمت کا معاملہ فرمائے گا، خواہ اس فیصلے کا ظہور تاخیر کے ساتھ ہو، یا جلد ہی اس کا ظہور سامنے آجائے۔
بندہ اپنی خواہش کے مطابق طالب بن جاتا ہے، لیکن اللہ کا فیصلہ اپنے مقرر منصوبہ کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔اللہ کو زیادہ بہتر طور پر معلوم ہے کہ بندہ کےلیے خیر کس چیز میں ہے۔ اللہ کا فیصلہ خود اپنے فیصلے کے مطابق ظاہر ہوتا ہے، نہ کہ بندے کی خواہش کے مطابق۔ بندہ کو یقین رکھنا چاہیے کہ اس کے حق میں اللہ کا جو فیصلہ بھی ہو، بہر حال وہ اس کے لیے خیر پر مبنی ہوگا۔