فراہی اسکول کا کنٹری بیوشن

مولانا حمیدالدین فراہی (1863-1930)قرآن کی تفسیر میں ایک تفسیری اسکول کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔اگر چہ مولانا حمید الدین فراہی اپنی فکر کی بنیاد پر کوئی مکمل تفسیر قرآن نہ لکھ سکے۔ لیکن ان کے انقلابی فکر سے بہت سے اہل علم کو ذہنی تحریک ملی، اور انھوں نے قرآن کی تفسیر میں بہت سے قیمتی نکتے دریافت کیے۔

مولانا حمید الدین فراہی کے منہج کو اختیارکرنے والوں میں سے ایک مولانا جلیل احسن ندوی اصلاحی (1914-1981) تھے۔ انھوں نے قرآن کی ایک آیت کی تفسیر میں ایک اشکال کو نہایت خوبی کے ساتھ دور کیا ہے۔ اس نکتے کو میں نے اپنی تفسیر تذکیر القرآن میں اس طرح درج کیا ہے:

برادران یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے ازراہ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں ادھر ادھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ برادرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعتِ ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔

اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسبِ فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرار داد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیونکہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے، اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔

نوٹ : بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا، جس کی ضمیر ھا ہے۔ مگر شاہی کارندہ صواع تلاش کر رہا تھا جس کی ضمیر “ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر “ھا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیہِ )۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا نہ کہ صواع۔ (تذکیر القرآن، سورہ یوسف: 69-76)

اسی طرح مولانا فراہی کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی (1904-1997) نے مولانا فراہی کے منہج تفسیر پر چلتے ہوئے قرآن کے کئی تفسیری نکتے نہایت خوبی کے ساتھ واضح کیے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے:

لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ، عام طور پر مفسرین نے وَمَنْ بَلَغَ کو ضمیر منصوب پر معطوف مانا ہے یعنی یہ قرآن اس لیے مجھ پر وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تم کو اور ان سب کو بیدار و ہوشیار کروں جن تک یہ پہنچے۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ ضمیر متکلم پر معطوف ہے یعنی میں اس کے ذریعے سے تم کو خبردار کروں اور جن کو یہ پہنچے وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر دوسروں کو اس کے ذریعے سے خبردار کریں۔ یہ گویا اس ذمہ داری کی یاد دہانی ہے جس کا ذکر دوسرے مقام میں یوں ہوا ہے فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنْذِرُوا قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْہِمْ (توبہ:122) پس ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اٹھتی اور تاکہ وہ اپنی قوم کو خبردارکرتی جب کہ ان کی طرف واپس آتی۔ یہی حقیقت احادیث میں بھی واضح کی گئی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ پر انذار و تبلیغ کی ذمہ داری ڈالی اور فرمایا فلیبلغ الشاھد الغائب۔ پس چاہیے کہ جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا میں اس امت کا جو فریضہ منصبی بیان ہوا ہے اور جس کی وضاحت ہم اس کے مقام میں کرچکے ہیں، اس سے بھی اسی مفہوم کی تائید نکلتی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ (تدبر قرآن، سورہ الانعام19:)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom