قرآن، کتاب مہجور

قرآن کی سورہ الفرقان میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَقَالَ الرَّسُولُ یَارَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا(25:30)۔ یعنی رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو بالکل چھوڑ دیا تھا۔

اس آیت سے اولاً وہ لوگ مراد ہیں جن کے سامنے قرآن آتا ہے، مگر وہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔ جیسا کہ مکی دور میں قریش نے کیا۔ تاہم اس نفسیات کا عملی مظاہرہ کبھی ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتاہے جو بظاہر قرآن کو ماننے والوں کی فہرست میں داخل ہوں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر قرآن میں آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :

“آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے۔ تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا، ا س میں تدبر نہ کرنا، اس کی تلاوت نہ کرنا، اس کی تصحیح قرأت کی طرف توجہ نہ کرنا، اس سے اعراض کرکے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا، یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت داخل ہوسکتی ہیں ‘‘۔

قرآن کے ماننے والوں کے لیے قرآن کو “کتاب مہجور‘‘ بنانے کی یہ شکل کبھی نہیں ہوتی کہ اس کا احترام وتقدس لوگوں کے دلوں میں باقی نہ رہے۔ برکت اور تقدس کا نشان ہونے کی حیثیت سے وہ ہمیشہ اس کو اپنے طاق کی زینت بنائے رہتے ہیں۔ البتہ وہ اس سے فکری رہنمائی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ خدا کی کتاب میں ان کے لیے ذہنی غذا نہیں ہوتی۔ وہ ان کی حقیقی زندگی کا سرمایہ نہیں بنتی۔ وہ ان کی دنیا پرستانہ زندگی کے لیے “برکت کا تعویذ‘‘ تو ضرور ہوتی ہے مگر آخرت کی رہنما کتاب کی حیثیت سے ان کی زندگی میں اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا— یہ مطلب ہے خدا کی کتاب کو “کتاب مہجور‘‘ بنا دینے کا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom