حج کا مقصد
حج کے سلسلے میں قرآن میں جو آیتیں آئی ہیں، اس کا ایک حصہ یہ ہے:لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:28)۔یعنی تاکہ وہ اپنے فائدے کے لیے حاضر ہوں۔قرآن کی اس آیت میں حج کی نسبت سے منافع کا ذکر آیا ہے۔منافع کا لفظی مطلب ہے فائدہ (benefit)۔ منافع منفعت کی جمع ہے، یعنی کئی قسم کے فائدے۔ قرآن کی اس آیت میں بظاہر کسی متعین فائدے کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ منافع کا تعلق غور و فکر سے ہے، نہ کہ کسی متعین حوالے سے۔ اگر حاجی اس معاملے میں ایک تیار ذہن (prepared mind) بنا ہوا ہو، اور اس تیار ذہن کو لے کر وہ حج کا سفر کرے تو حج کے مقامات کو دیکھ کر اس کا ذہن ٹریگر ہوگا، اور وہ اپنے لیے منافع کا پہلو دریافت کرے گا۔
میں نے 1982 میں ایک عرب شیخ سلیمان القائد کے ساتھ حج کا سفر کیا تھا۔ وہاں میرا وقت مراسم حج کے علاوہ صرف کعبہ کے پاس رہنے میں گزرتا تھا۔ میں کعبہ کو دیکھ کر اس کے بارے میں مسلسل غور کرتا تھا۔ اس غور و فکر کے دوران ایک بات میرے ذہن میں یہ آئی کہ قرآن کی آیت میں منافع کا لفظ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے سفر میں مختلف قسم کے منافع موجود ہیں۔ آدمی اپنے غور و فکر کے دوران ان منافع کو دریافت کرسکتا ہے۔ مثلا میں نے جب کعبہ کو دیکھا تو میں نے پایا کہ ابراہیمی کعبہ کی تعمیر ریکٹینگل شیپ کے مطابق تھی۔ لیکن بعد کو قدیم عمارت کے ٹوٹنے کے بعد کعبہ کی جو عمارت بنا ئی گئی، وہ ایک چوکورعمارت ہے۔ قدیم تعمیر کے لحاظ سے تقریباً ایک تہائی جگہ خالی چھوٹی ہوئی ہے، جس کو حطیم کہا جاتا ہے۔ اس سے میرے ذہن نے یہ مطلب نکالا کہ اگر کوئی قدیم عمارت ٹوٹ جائے، اور اس کی جگہ نئی عمارت بنانا ہو تو بہتر ہے کہ اس کو باقی ماندہ رقبے پر بنایا جائے۔ مثلاًامت مسلمہ پہلے ایک بڑی ایمپائر کی صورت میں تھی۔ اب وہ ایمپائر ٹوٹ چکی ہے۔ ایسی حالت میں اگر امت مسلمہ کی تشکیل نو کی جائے تو وہ باقی ماندہ حصہ پر کی جائے گی۔ یہ صحیح نہ ہوگا کہ قدیم ایمپائر کو دوبارہ کھڑا کرنے کی کوشش سے اس کی تعمیر ِ نو کا آغاز کیا جائے۔