خبرنامہ اسلامی مرکز- 268

ڈاکٹر ریکو اوکاوا (Dr. Reiko Okawa) اسلامک اسٹڈیز، یونیورسٹی آف جاپان میں پروفیسر ہیں۔ وہ امن کے تعلق سے قرآن کی تفسیر پر ریسرچ کررہی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے 29 دسمبر 2018 کوصدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی، اور کافی دیر تک انٹریکشن کیا، جس میں اسلام، مسلمان اور حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کو بتایا کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن، بھائی چارہ اور صلحِ کل پر مبنی ہیں۔ اسلام کو اس کے اوریجنل سورس سے سمجھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ مسلمانوں کے عمل سے۔ آخر میں ان کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے اسلامی لٹریچر بطور تحفہ دیے گئے۔

4 جنوری 2019 کو جرمنی سے کرسچن مشنری کا ایک وفد صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آیا۔ اس گروپ کی آمد کا مقصد اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہونا تھا۔ ان سے صدراسلامی مرکز نے خطاب کیا۔ اس کے بعد مس ماریہ خان اور مس راضیہ صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ اس کے بعد سوال وجواب کا سیشن تھا۔ آخر میں تمام لوگوں کو قرآن کا جرمن ترجمہ اور جرمن زبان میں دعوتی لٹریچر دیئے گئے۔

5 جنوری 2019 کو امریکی طلبا کا ایک گروپ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آیا۔ اس کا مقصد اسلام کی مثبت اور بے آمیز تعلیمات سے تعارف حاصل کرنا تھا۔ اس گروپ سے صدر اسلامی مرکز نے خطاب کیا اس کے بعد ماریہ خان اور راضیہ صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ طلبا نے کافی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کو قرآن کا انگلش ترجمہ اور دوسرے لٹریچر دیے گئے۔

یکم جنوری 2019 سے 8 جنوری 2019 تک سہارنپور اور دہرادون سی پی ایس ٹیم نے مصر کی سیاحت کی۔ اس سیاحت کو سی پی ایس ٹیم نے دعوتی سیاحت میں تبدیل کیا، اور مختلف مقامات پر قرآن اور دعوتی لٹریچر تقسیم کیے گئے۔ مثلا جب یہ لوگ اہرام مصر کو دیکھنے گئے، اور ٹورسٹوں نے ان لوگوں کے ہاتھوں میں انگریزی ترجمہ قرآن دیکھا، تو سیاحوں نے ان سے مانگ کر ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ اس کے بعد 6 جنوری 2019 کو یہ لوگ جامعہ ازہر دیکھنے گئے، تو وہاں کی لائبریری کو انھوں نے ترجمۂ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی دوسری کتابیں بطور تحفہ دیں۔

سی پی ایس (دہلی) کی جانب سے ایک پروگرام ماسک اوپن ڈے(mosque open day) کے نام سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس کے تحت پارلیمنٹ اسٹریٹ کی مسجد میں 21 جنوری 2019 کو ایک انٹرایکشن رکھا گیا جس میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) کے اسٹوڈنٹس نے شرکت کی۔ مسجد کے امام مولانا محب اللہ ندوی صاحب اور سی پی ایس ممبر مس ماریہ نے سامعین سے خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا سیشن تھا۔ اس میں طلبہ نے کافی دلچسپی دکھائی اور انھوں نے کافی خوشی اوراطمینان کا اظہار کیا۔ آخر میں طلبہ کے درمیان انگریزی ترجمۂ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔

مسٹرخرم قریشی صاحب (سی پی ایس،دہلی، موبائل نمبر0091 9350212002) ایر انڈیا کے کیپٹن پائلٹ ہیں۔ ان کی دعوت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں مقامی لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں، اور ان کو دعوت کے کام پر ابھارتے ہیں، یا دعوتی کام کرنے والوں کے ساتھ ملتے ہیں، اور دعوت کی پلاننگ کرتے ہیں۔ جنوری 2019 میں جب وہ ایر انڈیا کے ذریعے اسرائیل گئے، تو وہاں انھوں نے 21 جنوری 2019 کویروشلم میں موجود سی پی ایس ٹیم کے ممبران سے ملاقات کی۔ ان سے ملنے کے بعد انھوں نےاپنا تاثر ان الفاظ میں لکھا ہے:

I met the team in Jerusalem. They are very hard working and passionate. They give a lot of time to dawah work. I shared a few ideas with them about which they were very excited. I will meet them again with more concrete plans.

ساجد احمد خان (سی پی ایس، کامٹی- ناگپور ) نے خبر دی ہے کہ ٹیم کے ایک ممبرنے Reliance Polyester کمپنی کےایک ملازم مسٹر دلیپ کو ہندی قران کا ترجمہ جیون کا ادیشیہ اور ستیہ کی کھوج پیش کیا توانہوں نے بڑے ادب کے ساتھ اسے قبول کیا اور کہا کہ میں انہیں ضرور پڑھوں گا۔ آپ لوگ بہت اچھا کام کررہے ہو۔ لیکن یہ پَوِتر کتابیں میں بغیر پیسہ دیے نہیں لے سکتا۔ ہمارے ساتھی نے اصرار کیا کہ سی پی ایس کی طرف سے یہ پیغام سبھی لوگوں کو بغیر کسی قیمت کے دیا جاتا ہے۔ اس کےباوجود مسٹر دلیپ نے انہیں 200 روپےدیے اور کہا کہ میں چاہتاہوں کہ آپ اس پیسے سے مزید کتابیں تقسیم کریں۔

مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریروں سے میرا روایتی شاکلہ ٹوٹا اور اسلام اور دین کو عصری اور سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی توفیق ملی۔ میں ماہنامہ الرسالہ کا 2006 سے قاری ہوں اور مولانا کی اکثر کتابیں پڑھ چکا ہوں۔مثلاً مذہب اور جدید چیلنج، مذہب اور سائنس، فکر اسلامی، مسائل اجتہاد، اسلام دور جدید کا خالق، عقلیات اسلام، وغیرہ۔ اللہ انھیں عمر دراز عطا کرے۔ (محمد قاسم، بلوچستان)

ہم لوگ مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ہمیں مدرسے کے ایک استادنےمشورہ دیا کہ ہم انڈیا کے ایک مفکر مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا کریں۔ چنانچہ ہم نے راز ِحیات کا مطالعہ کیا،اس سے ہم لوگوں کوبہت زیادہ motivation ملا۔اسی طرح ہم لوگوں نے پایا کہ مولانا نےاسلام کوجدید سائنٹفک انداز میں پیش کیا ہے، جسے پڑھ کر ہمارا ذہن کھلا اور ہم کو روایت پرستی سے ہٹ کر دین کی صحیح کرن اور اس کی حقیقی تعلیمات سے آگاہی ہوئی۔ ( محمد حمزہ عبد اللہ، محبوب الرحمن، عبد اللطیف، لقمان حکیم، جامعہ ستاریہ اسلامیہ، کراچی)

My mother is a member of CPS international (Pakistan). On 15 January 2019 she received Al-Risala in Lahore, Pakistan. She was quite excited about it, but I, as a hobby reader, started reading the magazine unintentionally. I am writing this message to express my feelings and thoughts after reading the whole magazine. I belong to a Muslim family and my family background is religious as well. Due to my parents’ encouragement and also my willingness to receive higher education, I spent most of the time of my life in educational institutes. Right now I am an electrical engineer. I am part of a circle that is oriented towards technology, and sometimes I came across arguments from people of my religious community who would express a bad image about technology, and then I would see the same people drawing benefits from the technology they would speak badly about. So this scenario confused me: I thought do real teachings of Islam refrain us from becoming part of the ongoing advancements in technology? . Also, I saw many of my colleagues and friends far from the teachings of Islam. Now, from various religious groups we often get pamphlets to spread among common people to teach them about Islam. But the content of these pamphlets is too tough and I myself get confused and question how the other person will understand the beauty of the Islamic message?. When the other person is not a religious scholar or is not a frequent reader of Islamic studies, so how will he or she understand the content properly?. Writing styles have changed during the past several years. Researchers have been trying to figure out appropriate size of a book, the length of a message and how much time a reader should spend on a specific topic. But many of our Islamic books were written years ago. Those books were the golden heritage for that period of time and for people of that age. The writers of these books wrote taking into consideration the scenarios of that time and the mentality of the people of their time. Today we face a problem when we force our young generation to study the same content that was written many years back to understand Islam. This has been my way of thinking, although I felt that I may be wrong since I have expertise in technology and not in Islamic studies. But today after reading Al-Risala, my thoughts have gained more clarity. Each and every topic, every page, every passage of Al-Risala has answered to my questions. Some of my questions were such that I did not have words to express the confusion of my mind. But this magazine not only gave me the right answers but also made my questions clearer. I started reading the first page, then second and I was not able to stop myself from continuing to read. I was so excited and happy. Whenever I find some answer to my vague thought, I would rush to my parents and repeat the line from the magazine that Maulana Sahab had written. One line that I would like to specifically mention here which I liked the most in the above context: “Islam ki talimat ko asri zehn kay liyay qabile fehm banana.” Maulana sahab has precisely described each topic. I am really thankful to him. I request Maulana Sahab and everyone in this group to pray to Allah to show me the right path and give me the strength to make significant contribution in spreading Islam all around the world. (Syeda Amtul Gilani, Pakistan)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom