دنیاانتظار میں ہے
جولائی 1976 کی چھ تاریخ تھی اور شام 6بجے کا وقت۔ میں شہر کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا۔ اتنے میں ایک اجنبی دکان دار نے آواز دے کر مجھے روکا۔
“مرنے کے بعد کیا آدمی پھر اسی جیون میں واپس آتا ہے‘‘ اس نے پنجابی زبان میں سوال کیا۔
“نہیں”
“پھر کہاں جاتاہے”
“اپنے مالک کے پاس چلا جاتا ہے حساب دینے کے لیے”۔
“اور اس کے بعد”
“اس کے بعد نرک میں جاتا ہے یا سورگ میں “۔یہ جواب سن کر بوڑھے دکان دار نے اپنی سیٹ پر پہلو بدلا اور خاموش ہوگیا۔ اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گیا ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اب کچھ اور بولنا اس کی سوچ میں خلل ڈالنا ہوگا۔ میں چند منٹ تک اس کے اگلے سوال کا منتظر رہا اور اس کے بعد آگے بڑھ گیا۔
اسی قسم کا ایک واقعہ مشہور امریکی مشنری بلی گراہم نے لکھا ہے۔ وہ اپنی کتاب “ دی سیکرٹ آف ہیپی نس” میں لکھتا ہے کہ دنیا کے ایک عظیم سیاست داں نے ایک بار اس سے کہا:
I am an old man. Life has lost all meaning. I am ready to take a fateful leap into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope.
“میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ زندگی نے اپنی تمام معنویت کھو دی ہے۔ عنقریب میں نا معلوم دنیا کی طرف ایک فیصلہ کن چھلانگ لگانے والا ہوں۔ اے نوجوان شخص!کیا تم مجھے امید کی کوئی کرن دے سکتے ہو۔”
یہ موت ہر آدمی کا پیچھا کررہی ہے۔ بچپن اور جوانی کی عمر میں آدمی اسے بھولا رہتا ہے۔ مگر بالآخر تقدیری فیصلہ غالب آتا ہے۔ بڑھاپے میں جب اس کی طاقتیں گھٹ جاتی ہیں، تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب بہر حال کچھ دنوں کے بعد وہ مرجائے گا۔ اس وقت وہ مجبور ہوتا ہے کہ سوچے کہ “مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے”۔ اسے تلاش ہوتی ہے کہ وہ کوئی امید کی کرن پالے جو موت کے بعد آنے والے حالات میں اس کو روشنی دے سکے۔
یہ زندگی کا اہم ترین سوال ہے، اس سے باخبر کرنے کے لیے اللہ نے اپنے تمام پیغمبر بھیجے۔ مگر آج جو لوگ پیغمبر کے وارث ہیں، وہ خود بھی شاید اس حقیقت کو بھول چکے ہیں۔ پھر ان سے کیا امید کی جائے کہ وہ دوسروں کو اس حقیقت سے باخبر کرسکیں گے۔
موت کے بعد انسان کے ساتھ کیا پیش آنا ہے، اسی کو بتانے کے لیے قرآن بھیجا گیا ہے۔ حاملینِ قرآن کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ دنیا کو اس حقیقت سے باخبر کریں۔ اگر وہ اس کام کو نہ کریں تو قیامت کے دن جب قوموں کا حساب ہوگا وہ اس بات کے مجرم قرار پائیں گے کہ ان کے پاس انسانیت کے لیے اہم ترین خبر تھی مگر انھوں نے لوگوں کو اس سے آگاہ نہ کیا۔
حدیث میں آیا ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو۔ آسمان والا تم پر رحم کرے گا (ارْحَمُوا مَنْ فِی الأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ)سنن الترمذی، حدیث نمبر 1924۔ اس رحمت کا تعلق صرف اخلاقی معاملات سے نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کا تعلق دعوت الی اللہ سے ہے، یعنی لوگوں کو بتانا کہ وہ کون سی تدبیر ہے، جس کو اختیار کر کے وہ آخرت کی پکڑ سے بچ سکتے ہیں اور اللہ کی ابدی نعمتوں میں اپنا حصہ پا سکتے ہیں۔ اس واقعہ کی خبر بلا شبہ لوگوں کے حق میں رحمت وشفقت کا سب سے بڑا معاملہ ہے۔