دعوہ ایکسپلوزن

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوتِ توحید کا مشن تھا۔ آپ نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ یہ زمانہ پرنٹنگ پریس سے بہت پہلے کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے تھے، جو کسی لکھی ہوئی چیز کو پڑھ سکیں۔ مورخ بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں قریش میں صرف 17 لوگ ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے(عن أَبِی بکر بْن عَبْد اللَّہِ بْن أبى جہم العدوى قال:دخل الإسلام وفی قریش سبعة عشر رجلا کلہم یکتب) فتوح البلدان للبَلَاذری، ص 453، بیروت،1988

رسول اور اصحاب رسول اگر لکھی ہوئی کتاب کو پڑھوانے کے ذریعہ اپنا مشن پھیلاتے تو تیزی کے ساتھ اسلام کی اشاعت نہیں ہوسکتی تھی۔ اس وقت رسول اور اصحاب رسول نے جو فطری طریقہ اختیار کیا، وہ تھا پڑھ کر سنانا۔ عربوں کی زبان عربی تھی۔ سارے عرب کے لوگ عربی زبان سمجھتے، اور بولتےتھے۔اس کے مقابلے میں ایسے لوگ بہت کم تھے، جو کتاب کو خود سے پڑھ کر دعوت کو سمجھیں، اور اس کو اختیار کریں۔رسول اللہ نے اس زمانے میں عملی طریقہ اختیارکیا، اور وہ تھا قرآن کو پڑھ کر سنانا۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ عربوں کے چھوٹے اور بڑے اجتماعات میں جاتےاور لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے، اس طرح بہت جلد قرآن کا پیغام سارے عرب میں پھیل گیا۔

یہی صورت حال الرسالہ کے دعوتی مشن کی ہے۔ ماہنامہ الرسالہ کی زبان اردو ہے۔ اسی طرح اس مشن کے لیے جو کتابیں تیار کی گئی ہیں، وہ بھی زیادہ تر اردو زبان میں ہیں۔ موجودہ زمانے میں ایسے لوگ نسبتاً بہت کم ہیں، جو اردو زبان میں لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھ کر سمجھیں، لیکن دوسری طرف اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے اکثر ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو اگرچہ اردو کتاب نہیں پڑھ سکتے، لیکن وہ سن کر بخوبی طور پر اردو زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔

اس صورتِ حال میں الرسالہ مشن سے وابستہ لوگوں کے لیے دعوت کا ایک سنہری موقع موجود ہے، اور وہ ہے ماہنامہ الرسالہ یا اس سے متعلق اردو کتابوں کو پڑھ کر لوگوں کو سنانا۔ اس طرح وہ رسول اور اصحاب رسول کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا کریڈٹ پاسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹکنالوجی نے موجودہ زمانے میں اس کام کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ وہ یہ کہ وائس ریکارڈنگ کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے، الرسالہ اور اس سے متعلق کتابوں کے مضامین کا ریکارڈ تیار کیا جائے، اور ان کو وسیع طور پر لوگوں کے درمیان پھیلایا جائے۔ اس طرح لوگوں کو یہ موقع ہوگا کہ وہ سن کر الرسالہ مشن سے واقفیت حاصل کریں۔کار میں سفر کرتے ہوئے وہ آڈیو ریکارڈنگ کو سنیں۔

الرسالہ مشن سے جڑے ہوئے بہت سے لوگ عملاً اس طریقہ کو استعمال کررہے ہیں، وہ الرسالہ او ر اس سے متعلق کتابوں کا آڈیو تیار کرکے لوگوں کو پہنچارہے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر وقار عالم (امریکا)، مز شبانہ انصاری اور مسٹر سید خالد (پاکستان)، مولانا عبد الباسط عمری (قطر)،وغیرہ۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہر مشن میں ایک اس کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں مشن استحکام کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جس کو مشن کی توسیع عام کا زمانہ کہہ سکتے ہیں۔ الرسالہ مشن سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ماڈرن ٹکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے الرسالہ کی دعوت کو دعوہ ایکسپلوزن (Dawah Explosion) کے دور میں پہنچادیں۔

1979 میں ایران کا انقلاب اسی طرح پیش آیا۔ آیت اللہ خمینی اس زمانے میں یورپ میں تھے۔ وہاں سے وہ اپنی تقریروں کے کیسٹ ایران بھیجتے تھے۔ یہ کیسٹ پورے ایران میں سنے جانے لگیں۔ ایران کے اس انقلاب کو کیسٹ ریولیوشن کہا جاتا ہے:

A powerful and efficient network of opposition began to develop inside Iran, which smuggled cassette speeches by Khomeini, and used other means.

کیسٹ ریوولیوشن ‘‘کا یہ طریقہ بلاشبہ دعوت کے غیر سیاسی پر امن کام کے لیے کامیابی کے ساتھ دہرایا جاسکتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom