قرآن و سنت کی رہنمائی
اسلام کے نزدیک تمام مسجدیں یکساں ہیں، خواہ کوئی چھوٹی مسجد ہو یا کوئی بڑی مسجد، خواہ وہ کسی معمولی آدمی کی بنوائی ہوئی ہو یا کسی بادشاہ کی بنوائی ہوئی۔ اس میں صرف تین مسجدوں کا استثناء ہے ۔ بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف تین مسجدیں ہیں جن کے لیے سفر کرنا درست ہے۔ مکہ کی مسجد حرام ، مدینہ کی مسجد نبوی ، اور فلسطین کی مسجد اقصیٰ ۔
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صلى الله عليه وسلم، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى (صحیح البخاری،حدیث نمبر1132۔صحیح مسلم،حدیث نمبر،1397)
وفي رواية : إِنَّمَا يُسَافَرُ إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ إِيلِيَاءَ (صحیح مسلم،حدیث نمبر، 1397)
اس حدیث کی تشریح محدثین نے یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے تقرّب کی نیت سے کسی مقام کا قصد نہیں کیا جائے گا ، سوا ان تین مقامات کے ، ان کی عظمت اور شرف کی وجہ سے ( المراد لا يُقصد موضع من المواضع بِنيّة العبادة والتقرب إلى الله تعالى الا إلى هذه الاماكن الثلاثة تعظيما لشأنها وتشريفا )
معلوم ہوا کہ مذکورہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کے لیے اسلام میں شدِّر حال کی اجازت نہیں ہے ۔ یہ امتیازی حیثیت صرف تین مسجدوں کو حاصل ہے کہ خاص اس میں عبادت کرنے کے مقصد سے آدمی وہاں کا سفر اختیار کر سکتا ہے ۔ دوسری تمام مسجدوں میں عبادت کا ثواب یکساں ہے، جیسا ایک مسجد میں ویسا ہی دوسری مسجد میں۔ البتہ مذکورہ تین مسجدوں میں عبادت کا ثواب استثنائی طور پر زیادہ ہے ۔ ان تین مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی نہ کوئی امتیازی حیثیت ہے اور نہ ان کےعلاوہ کسی اور مسجد کے لیے خصوصی طور پر عبادتی سفر کرنا جائز ہے ۔
مذکورہ شرعی حکم "عبادتی سفر" کے لیے ہے ۔ اب اگر کچھ مسلمان ایک عام مسجد کی طرف کفن بر دوش ہو کر سفر کریں۔ وہ کہیں کہ ہم جو مارچ کر رہے ہیں وہ عبادتی مارچ نہیں ہے۔ ہم تو مسجد کے غاصبوں سے مسجد کو واگزار کرنے کے لیے ان کے اوپر پر امن جمہوری چڑھائی کر رہے ہیں، تو یہ اور بھی زیادہ غلط ہو گا ۔ کیوں کہ ایک مسجد کے لیے عبادتی شدِّ حال اگر بدعت ہو، تو غیر مسلح مسلمانوں کا اس کے مسلح غاصبوں سے ٹکرانے کے لیے اقدام کرنا سراسر حرام ہے ۔
اگر نارمل حالات ہوں اور سفر کے ساتھ جان و مال کے نقصان کا اندیشہ وابستہ نہ ہو تب بھی تین مسجدوں کے سوا کسی مسجد کے لیے شدر حال جائز نہیں۔ لیکن اگر غیر معمولی حالات ہوں اور سفر کر کے مسجد تک پہنچنے میں مسلمانوں کی جان و مال کا خطرہ پیدا ہو گیا ہو تو اس وقت معاملہ مزید نازک ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں فضیلت والی مسجدوں کے لیے سفر کرنا بھی غیرمطلوب بن جائے گا،اور دوسری مسجدوں کی طرف پُر خطر مارچ کرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ۔
جہاں تک اس دوسرے معاملہ کی نوعیت کا سوال ہے ، اس کی مثال ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے۔ 6 ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تقریباً ڈیڑھ ہزار اصحاب کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تاکہ وہاں پہنچ کرعمرہ ادا کریں۔ آج کل کی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے مکہ کی طرف پُر امن مارچ کیا۔ یہ مقدس قافلہ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام تک پہنچا تھا کہ مکہ کے منکرین نے آپ کو آگے بڑھنے سے روکا۔ وہ آپ سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے آپ کی سواری حدیبیہ کے مقام پر روک دی (حبسهاحابس الفيل) اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے اعراض فرمایا اور قریش کی شرط کے مطابق ، عمرہ ادا کیے بغیر درمیان ہی سے مدینہ کی طرف واپس چلے گئے ۔
قدیم عرب میں "غیر تحریری" دستور یہ تھا کہ کسی کو زیارت کعبہ سے روکا نہ جائے ۔ مگر قریش اس کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کو زیارت کعبہ سے روکنے پرتل گئے ۔ اب ایک طرف صورتِ دستوری تھی جو آپ کے موافق تھی اور دوسری طرف صورتِ واقعی تھی جو آپ کے خلاف ہو گئی تھی۔ آپ نے صورت دستوری کا کوئی حوالہ نہیں دیا بلکہ صورتِ واقعی کو اصل سمجھتے ہوئے اس کے مطابق عمل فرمایا ––––– پیغمبرانہ حکمت حقیقت واقعہ کو اپنے موافق بنانا ہے نہ کہ "دستور"کےنام پر بے فائدہ لفظی جنگ لڑنا ۔
جس وقت مذکورہ واقعہ پیش آیا اس وقت حرم کعبہ میں 360 بُت رکھے ہوئے تھے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم نہیں دیا کہ تم توحید کے گھر کو بتوں سے پاک کرنے کے لیے ہر قیمت پر مکہ میں داخل ہو جاؤ۔ اگر اس وقت تم خاموش ہو گئے تو کافروں کے حوصلےبڑھ جائیں گے۔ اس کے بعد وہ دوسری تمام مسجدوں کو بھی اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کریں گے اور ان کو اپنے بتوں سے بھر دیں گے۔ اس نازک موقع پر اس قسم کا "مجاہدانہ "حکم نہ آنا ثابت کرتا ہے کہ اس قسم کی مصلحت اللہ تعالیٰ کی نظر میں غیر معتبر ہے ۔ وہ کوئی حقیقی اور معتبر مصلحت نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی مصلحتوں کا لحاظ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ۔
مکہ کی طرف مارچ سے روکنے کی حکمت کیا تھی ، وہ واضح طور پر قرآن کی 48 ویں سورۃ الفتح میں بیان کی گئی ہے ۔ متعلقہ آیتوں کا ترجمہ یہ ہے :
اور اللہ ہی ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا ، مکہ کی وادی میں۔ بعد اس کے کہ تم کو ان پر قا بودید یا تھا۔ اور اللہ دیکھ رہا تھا جو کچھ تم کر رہے تھے۔ وہی ہیں جنھوں نے انکار کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی کہ وہ اپنی جگہ تک نہ پہنچیں۔ اور اگر ایسے مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں جن کو تم لاعلمی میں روند ڈالتے، پھر ان کے باعث تم پر بے خبری میں الزام آتا( تو ہم جنگ کی اجازت دیدیتے) تاکہ اللہ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرے ۔ اور اگر وہ لوگ الگ ہو گئے ہوتے تو ان میں جو منکر تھے ، ان کوہم دردناک سزا دیتے (الفتح: 24-25)
مولانا شبیر احمد عثمانی سورہ فتح کی مذکورہ آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یعنی ان کی شرارتیں اور تمہارا عفو و تحمل سب کچھ اللہ دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔ کچھ مسلمان مرد و عورت جو مکہ میں مظلوم و مقہور تھے اور مسلمان ان کو پوری طرح جانتے نہ تھے ، وہ لڑائی میں بے خبری سے پیس دیے جائیں گے۔ اگر یہ خطرہ نہ ہوتاتوفی الحال لڑائی کا اورمکہ میں داخلے کا حکم دیدیا جاتا۔ لیکن ایسا ہوتا تو تم خود (مسلمانوں کی ہلاکت کے) اس قومی نقصان پر متأسف ہوتے۔ اس خرابی کے باعث لڑائی (اور مکہ میں داخلہ ) موقوف رکھا گیا تا کہ وہ مسلمان محفوظ رہیں اور تم پر اس بے مثال صبر و تحمل کی بدولت خدا اپنی رحمت نازل فرمائے۔ نیز کافروں میں سے جن لوگوں کا اسلام لانا مقدّر ہے، ان کو بھی لڑائی کی خطرناک گڑ بڑ سے بچا کر اپنی رحمت میں داخل کرے"۔ صفحہ 667
حدیبیہ (6 ھ) کا واقعہ اور اس کے بارے میں قرآن کا مذکورہ ارشاد بتا رہا ہے کہ مسجد حرام میں بتوں کی موجودگی اور اس پر کافروں کے ناجائز قبضہ کے باوجود، اللہ تعالٰی نےاس کی طرف" مارچ "کرنے کا حکم نہیں دیا۔ مذکورہ آیت میں اس کی دو خاص وجہ بتائی گئی ہے۔
1۔مکہ کی طرف عمرہ کی ادائیگی کے لیے" مارچ" کرنا اگر چہ بظاہر ایک سادہ واقعہ تھا مگر اس وقت اہل مکہ کے درمیان اشتعال کی جو فضا عملاً بن گئی تھی ، اس کو دیکھتے ہوئے یہ یقینی تھا کہ" مارچ "کو جاری رکھنے میں مسلمانوں کا اہل مکہ سے غیر ضروری ٹکراؤ ہو گا اور اس کے نتیجے میں بہت سے بے قصور مسلمان ناحق مارے جائیں گے۔ مسلمان کا خون بے حد قیمتی ہے ۔ اس کو بچانا ہر دوسری مصلحت پر فوقیت رکھتا ہے۔
2۔ٹکراؤ سے بچنے کی دوسری مصلحت یہ بتائی کہ جن لوگوں سے تمہارا جنگی ٹکراؤ ہوتا وہ اگر چہ بظاہر تمہارے اور اسلام کے دشمن تھے مگران میں بہت سے ایسے افراد تھے جن کے اندر قبولیتِ حق کی فطری استعداد موجود تھی ۔ ان کے متعلق امید تھی کہ آیندہ جب ضد کی فضا ختم ہوگی تو وہ اپنے معاملہ پر نظر ثانی کریں گے اور ایمان قبول کر کے تمہارے ساتھی اور حمایتی بن جائیں گے۔ ایسے لوگوں کی اشتعال انگیزی پر ان سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اشتعال کو نظر انداز کر کے ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ ان پر دعوتی عمل جاری کیا جاسکے ۔ جن لوگوں کو دعوت کے ذریعہ مسخر کرنے کا موقع ہو ان کو دشمن کے خانہ میں ڈال کر ان کے خلاف لڑائی چھیڑنا اسلام میں ہر گز جائز نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت دو قسم کے مسئلے تھے۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ موحد اعظم حضرت ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجد میں سیکڑوں بت رکھ دیے گئے تھے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لیے اس میں داخلہ پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس دستوری حق کو حاصل کرنے اور مسجد کو بتوں سے پاک کرنے کی مہم چلانے میں بیک وقت دو نقصان تھا ––––– مسلمانوں کا قتل و خون اور متوقع مومنین سے محرومی ۔ آپ نے اس وقت یہ کیا کہ پہلے مسئلہ کو دوسرے مسئلہ کے تابع کر دیا۔ آپ نے دوسرے مسئلہ کی فوری رعایت فرمائی اور پہلے مسئلہ کو مستقبل کے خانے میں ڈال دیا ۔
یہ تدبیر نہایت موثر ثابت ہوئی ۔ 6 ھ میں دوسرا مسئلہ حل ہوا ، اور 8 ھ میں پہلا مسئلہ۔ آپ حال کے بھی مالک بن گئے اور مستقبل کے مالک بھی ۔ یہ پیغمبر کا طریقہ ہے۔ اور پیغمبر کے طریقہ کے سوا کسی اور طریقہ میں کامیابی اور نجات نہیں۔