عبرت ناک

عراق - ایران جنگ کو اب تقریباً آٹھ سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس تباہ کن جنگ کی خبریں اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ امریکی میگزین ٹائم (4 اپریل 1988)  نے اپنے صفحہ 11  پر بعض تصویریں چھاپی ہیں۔ اس تصویر میں ایک کُرد علاقہ کو دکھایا گیا ہے جہاں ایک وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں عورت اور مرد اور بچے انتہائی بے کسی کی حالت میں مرے ہوئے پڑے ہیں ۔

اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد ایک اسرائیلی شہری کیرول ڈیزنٹ (Carol Dezent) نے ٹائم کو ایک خط لکھا ہے جو اس کے شمارہ 9 مئی 1988  میں چھپا ہے۔ کیرول ڈیزنٹ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ میں نے اس سے پہلے اس قدر ہولناک جنگی تصویریں نہیں دیکھیں۔ اگر دنیا اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں کو اتنا غیر منصفانہ سمجھتی ہے تو معصوموں کے اس اجتماعی قتل کے خلاف اس کی چیخ پکار کہاں ہے :

If the world deems Israel's recent actions so unjust, where is the thunders outcry against this mass killing of innocents?

اس میں شک نہیں کہ عراق - ایران جنگ میں خود مسلمانوں کے ہاتھ سے مسلمان جس طرح مارےجا رہے ہیں وہ وحشت اور بربریت میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ مگر یہ صرف عراق اور ایران کا مسئلہ نہیں یہی تمام مسلم دنیا کا مسئلہ ہے ۔ آج مسلمان کو مسلمان کے ہاتھ سے جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو کافروں اور مشرکوں کے ذریعہ انھیں پہنچ رہا ہے۔ ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات میں "ہندو "کےہاتھ سے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچتا ہے اس سے ہزاروں گنا زیادہ نقصان خود مسلمان اپنے بھائیوں کو پہنچارہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہاں مسلمان دوسرے مسلمان کا ایک مکان ہڑپ کرتا ہے تو ایران اور عراق میں پوری پوری بستی کو بم سے اڑا دیا جاتا ہے۔ یہاں لوگوں کے بس میں کردار کشی ہے تو، وہ کردارکشی کر رہے ہیں۔ وہاں کے حکمراں جسم کشی پرقا در ہیں ، اس لیے وہ بمباری کر کے جسم کے چیتھڑےاڑا رہے ہیں ۔

کمی یہاں ہے

نیتا جی سبھاش چندر بوس نے 1943  میں آزاد ہند فوج (Indian National Army) بنائی تھی۔ اس کا مقصد انگریزوں سے لڑکر ہندستان کو آزاد کرانا تھا۔ یہ فوج رنگون میں بنائی گئی۔ مگر قبل اس کے کہ وہ ہندستان میں داخل ہو انگریزی فوج کے برمی دستہ نے اسے ختم کر دیا ۔

آزاد ہند فوج کے تین خاص کمانڈر تھے––––– ڈھلوں ، سہگل اور شاہ نواز ۔ ان لوگوں پر لال قلعہ کی ایک عدالت میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا جس کی وکالت مدعیٰ علیہ کی طرف سے جواہر لال نہرو نےکی تھی ۔ اسی زمانے میں ایک شاعر کا یہ شعر بہت مشہور ہوا تھا :

لال قلعہ سے آئی آواز ڈھلوں ، سہگل ، شاہ نواز

کرنل گور بخش سنگھ ڈھلوں (عمر 75 سال) اب شیو پوری (مدھیہ پردیش) میں رہتے ہیں ۔ اور کبھی کبھی دہلی آتے ہیں۔ پرومیلا کلہن نے ان سے ایک انٹرویو لیا جو ہندوستان ٹائمس (16 مئی 1988) میں چھپا ہے ۔ اس انٹرویو میں انھوں نے جو باتیں بتائیں ان میں سے ایک بات مطبوعہ انٹرویو کے مطابق یہ تھی کہ ہندستانیوں اور ایشیائیوں نے فیاضانہ طور پر نیتاجی سبھاش چندر بوس کی مالی مدد کی۔ رنگون کے ایک مسلمان تاجر نے تنہا ان کو ایک کرور روپیہ دیا :

A cosmetic manufacturer, a Muslim in Rangoon, gave a crore of rupees (p.10).

1944  کا ایک کرور روپیہ آج کے لحاظ سے 50  کرور روپیہ سے بھی زیادہ ہے ۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے سیاسی اور قومی کاموں میں بہت بڑا بڑا تعاون دیا ہے ۔ اور بے شمار سرمایہ خرچ کیا ہے ۔ مگر دور جدید کی پوری تاریخ میں کوئی ایک مثال نہیں جب کہ مسلمانوں نے دعوت الی اللہ کے کام میں کوئی بڑا تعاون کیا ہو ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ نفرت اقوام کے لیے اٹھے مگر وہ محبتِ اقوام کے لیے نہ اٹھ سکے۔ یہی واحد سب سے بڑا سبب ہے جس نے موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کےسارے معاملات کو برباد کر رکھا ہے ۔ جب تک وہ اپنے اس مزاج کو نہ بدلیں، کسی بھی دوسری تدبیر سےان کے حالات بدلنے والے نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom