حق کی طاقت
ابرہہ (Abrames) قدیم یمن ( جنوبی عرب) کا حبشی عیسائی حکمراں تھا۔ اس نے یمن کے دار السلطنت صنعاء میں ایک بہت بڑا مسیحی کلیسا (Ekklesia) بنایا ۔ چونکہ جزیرۂ عرب کا سب سے زیادہ مقدس عبادت خانہ کعبہ کو سمجھا جاتا تھا اور زیادہ تر لوگ اسی کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے، ابر ہہ نے چاہا کہ وہ کعبہ کو ڈھا دے تاکہ تمام لوگ اس کے بنائے ہوئے عبادت خانہ میں آئیں ، اوراس طرح عرب کا مذہبی مرکز مکہ سے صنعاء کی طرف منتقل ہو جائے ۔
اس منصوبے کے مطابق ، ابر ہہ 570 ء میں یمن سے مکہ کے لیے روانہ ہوا۔ اس کا لشکر 60 ہزار مسلح آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس کے ساتھ ایک درجن ہاتھی تھے جو آگے آگے چل رہے تھے۔ اس واقعہ کی تفصیلات بہت لمبی ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ مکہ کے سردار عبد المطلب کو جب معلوم ہوا کہ اس قسم کا بے پناہ لشکر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ کی طرف بڑھ رہا ہے تو انھوں نے محسوس کیا کہ وہ خود اس سے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ انھوں نے بیت اللہ میں داخل ہو کر اللہ سے دعائیں کیں۔ اس سلسلے میں ان کے بہت سے اشعار کتابوں میں آئے ہیں، ان کا ایک شعر یہ تھا :
ياربّ لا أرجو لهم سِواكا يا رب فَامنَعْ مِنْهُم حماكا
(اے میرے رب ، ان کے مقابلے میں تیرے سوا میں کسی سے امید نہیں رکھتا ، اے میرے رب، تو ان سے اپنے حرم کی حفاظت کر) اس طرح عبد المطلب نے کعبہ کو اللہ کے حوالے کیا اور قبیلہ کے دوسر ے لوگوں کے ساتھ بستی سے نکل کر پہاڑوں میں چلے گئے اور وہاں چھپ کر بیٹھ گئے ۔
ابرہہ اپنے لشکر کے ساتھ بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ جب وہ حدود حرم پر پہنچا تو اس کے ہاتھی نےآگے بڑھنے سے انکار کر دیا ۔ اس کو مار مار کر زخمی کر دیا گیا مگر وہ آگے نہ بڑھا ۔ اسی دوران بے شمار چڑیوں کے جھنڈ فضا میں ظاہر ہوئے۔ ان کے چونچ اور ان کے پنجوں میں کنکریاں تھیں۔ انھوں یہ کنکریاں ابرہہ کے لشکر پر گرائیں تو وہ گولیوں کی بارش کی مانند ان پر برسنے لگیں ۔ ابرہہ سمیت پورا لشکر بھس کی طرح چورا چورا ہو کر رہ گیا۔ یہ واقعہ مکہ کے قریب وادی محسّر میں پیش آیا۔
اس واقعہ کے بعد عربوں نے قدیم رواج کے مطابق بہت سے اشعار لکھے اور ان میں اپنے جذبات اور مشاہدات کا اظہار کیا ۔ ابو قیس بن الاسلت کا ایک شعر یہ ہے :
فَلَمَّا أَتَاكُم نَصْرُ ذِي الْعَرْشِ رَدَّهُم جُنودُ المليك بين ساف وحاصب
پھر جب تمہارے پاس عرش والے کی مدد آگئی تو اس بادشاہ کے لشکر (پرندوں) نے ان کو مٹی اوراور پتھر سے مار کر پسپا کر دیا (سیرۃ ابن ہشام ، الجزء الاول- صفحہ 62)
ابر ہہ کا مذکورہ واقعہ 570 ء میں پیش آیا تھا۔ اس کے ٹھیک 58 سال بعد 628 ء میں اسی مکہ کی سرحد پر ایک اور واقعہ اس سے مختلف صورت میں پیش آیا ۔ یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ ہے جو اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے ۔
اس وقت رسول اللہ علیہ وسلم اپنے دار ہجرت (مدینہ) میں تھے۔ ایک خواب کے مطابق آپ اپنے تقریبا ً ڈیڑھ ہزار اصحاب کے ساتھ عمرہ کے ارادےسے مکہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ آپ مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تھے کہ مکہ کے قریش نے آگے بڑھ کر آپ کو روکا۔ انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ آپ عمرہ کیے بغیر مدینہ واپس جائیں ۔
قریش کا آپ کو عمرہ سے روکنا یقینی طور پر ظلم اور سرکشی کا واقعہ تھا۔ بظاہر دیکھئے تو یہاں قریشِ مکہ بدلی ہوئی صورت میں وہی کردار ادا کر رہے تھے جو 58 سال پہلے ابرہہ نے ادا کیا تھا۔ اب بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ جس طرح ابرہہ کے اوپر خدا نے آسمانی سز ابھیجی اسی طرح دوبارہ قریش کے اوپر آسمانی سزا آتی اور انھیں تباہ کر دیتی تاکہ وہ رسول اور اصحاب رسول کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
مگر ایسا نہیں ہوا۔ پھر اس فرق کا سبب کیا ہے ۔ اس فرق کا کم از کم ایک سبب یہ ہے کہ ابر ہہ کے حملے کے وقت فریق ثانی کے پاس وہ نظریاتی ہتھیار موجود نہ تھا جو پیغمبر اسلام کے ساتھ حدیبیہ کے واقعہ کے وقت موجود تھا۔
ابرہہ کے حملہ کے وقت ابھی قرآن کا نزول نہیں ہوا تھا۔ مگر اس کے 58 سال بعد جب حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا ، اس وقت پیغمبر آخر الزماں مبعوث ہو چکے تھے۔ اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنا سچا دین قرآن کی صورت میں بھیج دیا تھا ۔
ا للہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ دین کی اور اہل دین کی حفاظت فرمائے گا۔ تاہم ابر ہہ کے زمانے میں اللہ تعالٰی نے دین کی حفاظت کا انتظام اس طرح کیا کہ حق کے دشمنوں پر آسمان سے پتھر برسائے۔ مگر پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کے بعد اب صورت حال بدل چکی تھی۔ اب اہل حق کے پاس دین فطرت کی صورت میں وہ طاقت ور ہتھیار موجود ہے جس کے آگے کوئی مخالفانہ ہتھیار کارگر نہیں ہو سکتا۔ یہ دین لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر حملہ کرتا ہے ۔ وہ دشمن کو دوست کے روپ میں بدل دیتا ہے ۔ وہ انسان کو اندر سے مسخر کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ یہ دین بلاشبہ سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔ اور جب آدمی کے پاس بڑا ہتھیار ہو تو چھوٹا ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حدیبیہ میں قریش سے دس سال کا نا جنگ معاہدہ کر کے لوٹے تو قر آن میں یہ آیت اتری کہ خدا نے تم کو کھلی فتح دے دی اور تم کو نصر عزیز سے سرفراز فرمایا (الفتح) چنانچہ اس کے صرف دو برس بعد لوگوں نے دیکھا کہ جولوگ اسلام کے دشمن بنے ہوئے تھے، وہ اسلام کے دوست اور اس کے دست و بازو بن گئے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے خلاف جو لوگ سرکشی کر رہے تھے ، ان کے بارے میں قرآن میں کہا گیا –––– بلکہ ہم حق کو باطل پر ماریں گے تو وہ اس کا سر توڑ دے گا اور دفعتاً وہ جاتا رہے گا (الانبیا ء: 18) چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ عبد المطلب کے زمانہ یا میں ابرہہ کے لشکر کو پتھروں سے مارکر ہلاک کیا گیا تھا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سرکشی کرنے والوں کو خود حق کی ضرب سے مفتوح اور مغلوب کر دیا گیا ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ فکری اور نظریاتی شکست ، فوجی شکست سے کہیں زیادہ سخت ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ایک جاری نبوت ہے۔ وہ قیامت تک باقی رہے گی۔اس دوسرے دور میں حق کے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے انھیں کنکر پتھرمارنے کی ضرورت نہیں۔ اہل حق کو چاہیے کہ وہ حق لیکر اٹھیں جس طرح پیغمبر اسلام حق لے کر اٹھےاور پھر تمام مخالفینِ حق ان کے سامنے سے بھاگتے ہوئے نظر آئیں گے : وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا ۔حق آیا اور باطل مٹ گیا ، اور باطل تھا ہی مٹنے والا۔(17:81)