دعوتی عمل
کسی اجتماعی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے منظم عمل لازمی طور پر ضروری ہے ۔ جب بھی ایک شخص کوئی اجتماعی نشانہ تجویز کرتا ہے تو اپنے مزاج کے مطابق ، اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچنے کے لیے وہ ایک عمل بھی ضرور مقرر کرتا ہے ۔ اس عمل کی مختلف صورتیں ہیں ۔
عمل کی ایک صورت وہ ہے جس کو متشددانہ عمل (Violent activism) کہا جاتا ہے۔ ماضی اور حال کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ اس کی ایک تازہ اور قریبی مثال آزاد سکھ ریاست (خالصتان) کے حامیوں کی ہے ۔ 88-1987 میں انھوں نے پنجاب میں اسی کے مطابق عمل کیا ، اگر چہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے ۔
عمل کی دوسری صورت وہ ہے جس کو غیر متشددانہ عمل (Non-violent activism) کہا جاتا ہے ۔ اس میں ہتھیار استعمال کیے بغیر عوامی مظاہرہ اور عوامی ایجی ٹیشن کے ذریعہ فریق ِثانی پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تا کہ وہ فریق اول کے مطالبات کو مان لے۔ مہاتما گاندھی نے 1947 سے پہلے انگریزوں کے خلاف اسی طریقہ کو استعمال کیا ، اور کامیابی حاصل کی ۔
عمل کی تیسری صورت وہ ہے جس کو سیاسی عمل (Political activism) کہا جا سکتا ہے ۔ اس کی ایک واضح مثال الکشنی سیاست ہے ۔ الکشن کے موقع پر مخالف پارٹیاں اسی طریقہ کواستعمال کر کے حکمراں پارٹی کو گراتی ہیں۔ اور حکومت کے ایوان پر قبضہ حاصل کرتی ہیں ۔
عمل کے ان طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اسلام کے مزاج کے مطابق نہیں ۔ اسلام کا طریقۂ عمل جو قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے وہ دعوت ہے۔ آج کل کی زبان میں اس کو دعوتی عمل (Dawah activism) کہا جا سکتا ہے۔ اس طریقہ میں سارا انحصار سنجیدہ ذرائع پر کیا جاتا ہے۔ منوانے کے بجائے متأثر کرنا۔ ہرانے کے بجائے دل جیتنا ۔ حریف اور رقیب بننے کے بجائے ہمدرد اور ناصح بن کر سامنے آنا۔ فریق ثانی سے نفرت کرنے کے بجائے اس سے محبت کرنا ، یہاں تک کہ اس کے حق میں دعائیں نکلنے لگیں ۔
یہ دعوتی عمل ہی صحیح اسلامی عمل ہے ۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کو اختیار کر کے مسلمان کامیاب ہو سکتےہیں، موجودہ دنیا میں بھی اور آئندہ آنے والی ابدی جنتوں کی دنیا میں بھی ۔