خبر نامہ اسلامی مرکز 42
1۔نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا کی طرف سے ہمیں ایک کتابچہ موصول ہوا ہے جس کا نام ہے (Books from India اس میں بتایا گیا ہے کہ صوفیا (بلغاریہ ) کی 18 ویں انٹرنیشنل بک فیر 2 جون سے 7 جون 1988 تک ہوئی ۔ اس موقع پر نیشنل بک ٹرسٹ کی طرف سے مختلف موضوعات پر تین سو انگلش کتا بیں نمائش اور تعارف کے لیے رکھی گئیں ۔ ان کتابوں میں مرکز کی حسبِ ذیل چار کتابیں بھی شامل تھیں :
God Arises, Muhammad: The Prophet of Revolution, Religion and Science, Tabligh Movement.
2۔وائس آف القرآن (حیدر آباد) نے اپنے خط (12 مئی 1988 ) میں اطلاع دی ہے کہ انھوں نے الرسالہ اپریل 1988 کے صفحہ اول کے مضمون کی جلی کتابت کروا کر اس کا اسٹیکر تیار کرایا اور اس کو شہر کے مختلف مقامات پر لگوایا۔ یہ طریقہ دوسرے لوگ بھی اختیار کر سکتے ہیں ۔
3۔خدا کے فضل سے الرسالہ کا فکر مختلف شکلوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ مثلاً بمبئی کا ماہنامہ نقش ِکو کن ہر ماہ الرسالہ کے بعض مضامین کو اہتمام کے ساتھ شائع کرتا ہے۔
4۔ بمبئی کے روزنامہ انقلاب نے ایک مستقل سلسلہ شروع کیا ہے ۔ وہ ہ اپنے" تبصرے" کے کالم میں الرسالہ کے ہر شمارہ کا تذکرہ اور تعارف شائع کرتا ہے ۔ الرسالہ کے ہر شمارہ کی بعض باتوں کو لے کر لوگوں کو اس کی خصوصیات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک بے حد مفید سلسلہ ہے ۔ ان شاء اللہ اس سے الرسالہ کی توسیع اشاعت میں مزید مدد ملے گی ۔
5۔ سورت سے ایک گجراتی ماہنامہ "حیات "کے نام سے شائع ہوتا ہے ۔ یہ ماہنامہ الرسالہ کے مضامین کا گجراتی ترجمہ اپنے صفحات میں شائع کر رہا ہے ۔ اسی طرح دوسرے بہت سے جرائد الرسالہ کے مضامین کو بلا حوالہ اپنے کالموں میں نقل کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی کم از کم فکری طور پر الرسالہ کے پیغام کی اہمیت کا اعتراف کر رہے ہیں ۔
6۔ ایک صاحب لکھتے ہیں : ایک قاری الرسالہ کو جون کا الرسالہ دینے کے لیے گیا۔ وہاں ان کے دو دوست بھی تھے وہ میرے لیے بالکل اجنبی تھے اور الرسالہ کے لیے بھی اجنبی ۔ وہ الرسالہ کو دیکھ کر بولے یہ کون سا پرچہ ہے ۔ میں نے اس کا مختصر تعارف کروایا اور یہ کہا کہ یہ عام نوعیت کا پرچہ نہیں ہے بلکہ اس پر چہ میں ایک خصوصیت ہے وہ یہ کہ اس میں تقریباً ایک ایک صفحہ کے مضامین ہوتے ہیں جس کو ہر شخص شوق سے اور جلدی پڑھ لیتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے۔ ان کو صفحہ نمبر 4 کا مضمون "حد کو پار نہ کیجئے" نکال کر دیا کہ اس کو پڑھ لیجئے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ انھوں نے پڑھا اور الرسالہ کے مستقل قاریوں میں اپنا نام لکھوا دیا ( محمد وحید الدین، حیدر آباد)
7۔الرسالہ 1976 سے یہ مہم چلا رہا ہے کہ مسلمان احتجاج اور مطالبہ کا طریقہ چھوڑیں اور مثبت انداز اختیار کریں ۔ خدا کے فضل سے اب اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اخبار ہجوم (29 اپریل - 5 مئی 1988) نے ایک مشہور جماعت کے اجلاس کی رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان ہے "مطالباتی سیاست کے گھروندے سے نکلنے کی کوشش" رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر صاحب نے "واضح طور پر کہا کہ ہماری جماعت اب تک مطالباتی سیاست پر عمل کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ انھوں نےتالیوں کی گونج میں کہا کہ اب ہم پٹری بدل رہے ہیں اور مطالباتی سیاست کے گھروندے سے نکل رہے ہیں ۔ اب ہم مانگنے کے بجائے یہ تلاش و جستجو کر رہے ہیں کہ اسلام اپنے دامن میں ملک کے انسانوں کو دینے کے لیے کیا رکھتا ہے " الرسالہ کی مہم اللہ کے فضل سے اس حد تک موثر ہوئی ہے کہ اب کچھ لوگ اعلان کے ساتھ اپنی پٹری بدل رہے ہیں اور کچھ لوگ اعلان کے بغیر ۔
8۔جون1988 کے پہلے ہفتہ میں صدر اسلامی مرکز نے حیدر آباد ، محبوب نگر اور بمبئی کا دورہ کیا ۔تینوں مقامات پر ملاقاتوں اور خطابات کے پروگرام ہوئے۔ تفصیلی روداد ان شاء اللہ سفرنامہ کے ساتھ شائع ہو گی ۔
9۔ڈاکٹر تھیوڈور رائٹ Dr. Theodore P. Wright Jr) )امریکہ کی اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک میں پولٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے مسلم اقلیت کے موضوعات پر کئی مقالے لکھے ہیں۔ صدر اسلامی مرکز کا مقالہ جو ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں ٹائمس آف انڈیا میں چھپا تھا ، اس کی نقل مسا چوسٹس کی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی لائبریری کی طرف سے ڈاکٹر رائٹ کو بھیجی گئی تھی۔ اس کو دیکھنے کے بعد ڈاکٹر رائٹ نے ایک خط (3 مئی 1988 ) صدر اسلامی مرکز کو بھیجا ہے اور الرسالہ انگریزی اور دوسری انگریزی کتابوں کو پڑھنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا کے فضل سے الرسالہ کی آواز کس طرح مختلف ذرائع سے پھیل کر دور دور تک پہنچ رہی ہے ۔
10۔ ایک مقام کے بارےمیں معلوم ہوا کہ وہاں فرقہ وارانہ فساد کی صورت پیدا ہوگئی۔ ایک فرقہ جلوس کی صورت میں سڑک سے گزرتا ہوا دوسرے فرقہ کے محلہ میں پہنچا اور نامناسب نعرے لگانے لگا ۔ اب دوسرے فرقہ کے لوگ مشتعل ہو کر چھتوں پر چڑھ گئے اور سنگباری کی صورت میں جواب دینا چاہتے تھے۔ اس موقع پر الرسالہ کے چند قاری سامنے آگئے ۔ انھوں نے اپنے فرقہ کے لوگوں کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم پتھر مارو گے تو مسئلہ تمہارا اور پولس کا بن جائے گا۔ لیکن اگر تم خاموش ہو جاؤ تو مسئلہ پولس کا اور جلوس والوں کا رہے گا۔ ان کی کوشش کامیاب ہو گئی اور لوگ چھتوں سے اتر گئے ۔ اس کے بعد مسئلہ واقعتاًپولس کا اور جلوس کا بن گیا۔ پولس نے جلوس سے آگے بڑھنے کے لیے کہا، جب وہ آگے نہیں بڑھے تو پولس نے لاٹھی چارج کر کے جلوس والوں کو منتشر کیا۔ الرسالہ کے قارئین کو اسی طرح نازک مواقع پر سامنے آنا چاہیے اور الرسالہ کے اسلامی فکر کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرنا چاہیے ۔
11۔ایک صاحب نے کہا کہ" الرسالہ کی ایک بہت انوکھی صفت ہے جو موجودہ زمانہ میں شاید ہی کسی پرچہ کو حاصل ہو ۔ وہ یہ کہ الرسالہ جس کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے وہ اس کو شروع سے آخر تک پڑھتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ آج کل انگریزی پرچہ India Today ٹاپ کا پرچہ سمجھا جاتا ہے ۔ مگر سروے سے پتہ چلا ہے کہ انڈیا ٹوڈے کے خریدار بمشکل اس کا 15 فی صد حصہ پڑھتے ہیں ۔ جب کہ الرسالہ کے جتنے قاری میں نے دیکھے سب کا یہ حال ہے کہ وہ اس کو پورا کا پورا پڑھتے ہیں۔ بلکہ بہت سے تو ایک رسالہ کو ایک سے زیادہ بار پڑھتےہیں "۔ یہ اللہ تعالی ٰکا فضل ہے کہ اس نے الرسالہ کو یہ مقبولیت عطا فرمائی ۔