عبرت ناک

ہندستان کی آزادی کے ذیل میں ہندستانی علماء کی تقریریں سنئے یا ان کی تحریریں پڑھیے تو اس میں ہمیشہ علماء کی زبر دست قربانیوں کا تذکرہ ہوگا۔ اور پُر جوش طور پر یہ کہا جائے گا کہ ہندستان کو آزادی ہم نے دلائی ۔ علماء اور مسلم عوام لاکھوں کی تعداد میں قربان نہ ہو گئے ہوتے تو انگریز ہندستان کے مطالبۂ آزادی کو تسلیم نہیں کر سکتا تھا ۔

یہ بات اگرچہ کلی طور پر نہیں تاہم جزئی طور پر یقیناً صحیح ہے ۔ مگر حیرت ناک بات یہ ہے کہ علماء کے دعووں کے باہر اس کا اعتراف کہیں موجود نہیں۔ ہندستان میں قومی سطح پر آزادی کی جو تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں علماء ہند کا یہ" شاندار باب" بالکل حذف ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندستان سے باہر عالمی سطح پر ہندستان کی آزادی کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے۔ اس میں بھی اس کا تذکرہ موجود نہیں ۔

اس کی ایک مثال انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا وہ مضمون ہے جو سبھاش چندر بوس(1945-1897)کے عنوان کے تحت درج کیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپانیوں نے سنگا پور پر قبضہ کر لیا تو سبھاش چندر بوس جاپان پہنچے۔ وہاں انھوں نے اکتوبر 1943  میں" آزاد ہند حکومت"  کی بنیاد ڈالی۔ اور اس کے تحت ایک آزاد ہند فوجIndian National Army) )بنائی۔ اس فوج کے افراد زیادہ تر وہ ہندستانی فوجی تھے جو انگریزی فوج میں شامل تھے اور جنھوں نے جاپان کی فتح کے بعد ہتھیار ڈال دیے تھے ۔

سبھاش چندر بوس اس فوج کو لے کر رنگون پہنچے تاکہ وہاں سے ہندستان کی طرف مارچ کر سکیں ۔ یہاں ان کا مقابلہ انگریزی فوج سے ہوا جس میں انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بعد ان کا دل ٹوٹ گیا۔ ایک حادثہ کا شکار ہو کر وہ کچھ دن جاپان کے اسپتال میں رہے اور وہیں 19 اگست 1945  کو انتقال کر گئے۔

 سبھاش چندر بوس کے تذکرے کے تحت انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں لکھا گیا ہے کہ سبھاش چندر بوس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ برطانی فوج کے ہندستانی سپاہیوں میں بھی حب وطن کا جوش پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اس عمل سے انھوں نے وہ اثرات ڈالے جو بالآخر ہندستان کی آزادی تک پہنچے :

By his actions, Bose proved that Indians in the British Indian army could also be inspired by patriotic fervour, and by his work he influenced the conference that led to Indian independence (3/53).

اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جس واقعہ کو ہندستانی علماء  اپنے خانے میں درج کیے ہوئے ہیں وہ عالمی ریکارڈ میں "سبھاش چندر بوس" کے خانے میں لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سوال کا جواب مجھے اس وقت ملا جب کہ میں نے انسائیکلو پیڈیا میں سبھاش چندر بوس کے مذکورہ مضمون کے نیچے اس کی کتابیات (Bibliography) دیکھی۔ اس کتابیات میں انگریزی کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو سبھاش چندر بوس کی زندگی اور ان کی جد و جہد کے بارے میں لکھی گئی ہیں اور جن سے معلومات اخذ کرتے ہوئے یہ مضمون تیار کیا گیا ہے ۔ ہمارے علماء دنیا کو اس قسم کی" کتابیات " نہ دے سکے۔ اس لیے دنیا نے نہ ان کو جانا اور نہ ان کا تذکرہ کیا۔

 موجودہ زمانہ میں جو مسلم علماء قیادت کے لیے اٹھے ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ انگریزی زبان یا اور کسی مغربی زبان سے ناواقف تھے ۔ مزید یہ کہ انھوں نے انگریزی تعلیم کا مسلسل اس طرح استخفاف کیا کہ قوم کے دوسرے لوگ بھی بہت کم انگریزی تعلیم کی طرف مائل ہو سکے ۔ اور جو شخص انگریزی تعلیم کی طرف گیا وہ بھی سمجھ گیا کہ وہ علماء سے اور ان کے مذہب سے باغی ہو کر انگریزی تعلیم کی طرف جا رہا ہے ۔ اس انحراف کے بعد وہ علماء کے کام نہیں آسکتا تھا اور نہ وہ ان کے کام آیا۔

 انسائیکلوپیڈیا یا دوسری مغربی کتابوں کے مذکورہ بیانات کو عام مسلمان اور خود ہمارے علماء "مستشرقین کے تعصب " کے خانہ میں ڈالتے ہیں۔ مگر میں اس کو خود علماء اور مسلمانوں کی اپنی کمی کے خانہ میں ڈالتا ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی کمی کو دور کر کے ہی اس تاریخی صورت حال کو بدل سکتے ہیں ، تعصب اور سازش کا الزام لگانے سے نہ اب تک کوئی فائدہ ہمیں ملا ہے اور نہ آیندہ اس سے کوئی فائدہ ہمیں مل سکتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom