ایک سفر
17 مئی 1988 کو رمضان کے مہینہ کی آخری تاریخ تھی اور 2 بجے دن کا وقت۔ میں دہلی میں اپنے دفترمیں تھاکہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ رسیور اٹھا یا تومعلوم ہوا کہ حیدر آباد سے جناب احمد بختیار الدین صاحب بول رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ساتھیوں کے مشورہ سے حیدر آباد کے اجتماع کے لیے 3 - 4 - 5 جون 1988 کی تاریخ طے ہوئی ہے۔ میں نے اپنی ڈائری دیکھ کر ان تاریخوں سے اتفاق کیا ، اور دو منٹ کے بعد گفتگو ختم ہو گئی۔
یہ مواصلات(Communication)کاایک معاملہ تھا۔ موجودہ زمانہ میں مواصلات کی بے حد اہمیت ہو گئی ہے۔ قدیم زمانہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام پہنچانے کے لیے ہفتوں اور مہینوں لگ جاتے تھے ۔ جدید مواصلاتی ذرائع کی دریافت نے اُس چیز کو ممکن بنا دیا ہے جس کو فوری انتقالِ خبر (Instantaneous transmission) کہا جاتا ہے ۔ اور جس کے ذریعہ سے یہ ممکن ہو گیا ہے۔ کہ لکھے یا بولے ہوئے الفاظ کو بلا تاخیر دنیا کے کسی بھی حصے میں پہنچایا جاسکے (10/655)
یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی عجیب نعمت ہے۔ اس نے انسانی شخصیت کو آفاقی وسعت دیدی ہے۔ اس نعمت کا سب سے زیادہ استعمال دعوت کے لیے ہونا چاہیے تھا۔ مگر آج اس کا سب سے کم استعمال جہاں ہورہا ہے وہ دعوت ہی ہے۔ کچھ لوگ اپنے دعوے کے مطابق جدید ذرائع کو دعوت میں استعمال رہے ہیں۔ مگر یہ محض غلط فہمی ہے۔ یہ لوگ جس کام میں مشغول ہیں وہ مناظرہ بازی ، سیاسی جھگڑے اور دنیوی ہنگامے ہیں نہ کہ حقیقتاًدعوت الیٰ اللہ۔ مسلمانوں کی موجودہ سرگرمیاں در اصل ان کے قومی فخر کا اظہار ہیں۔ جب کہ دعوت الی اللہ وہ مقدس عمل ہے جو ایک طرف خوفِ خدا وندی اور دوسری طرف شفقت انسانی کے جذبہ کے تحت ظاہر ہوتا ہے۔
دہلی سے حیدر آباد کا سفر انڈین ایر لائنز کی فلائٹ نمبر 439 کے ذریعہ ہوا۔ 3 جون 1988 کی صبح کو حیدر آباد کے ہوائی اڈہ پر اترا تو وہاں 31 درجہ گرمی تھی اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ ہوائی جہاز سے ہوائی اڈہ کی عمارت تک پیدل سفر کرنا تھا۔ میں چل رہا تھا کہ میری دو پلی ٹوپی سر سے اڑ گئی اور وسیع پختہ میدان میں ہوا کے ساتھ تیزی سے بھاگنے لگی۔ میں چند قدم اس کی طرف بڑھا۔ مگر جس تیزی سے وہ مخالف سمت میں بھاگی جارہی تھی ، میں نے محسوس کیا کہ میرے جیسے کمزور آدمی کے لیے اس تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ ہوائی اڈہ کے اسٹاف کا ایک آدمی جو اپنے لباس سے کوئی افسر معلوم ہو رہا تھا، اس نے یہ منظر دیکھا تو وہ اس کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھا ، اور دوڑ کر ٹوپی کو اٹھا لایا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا نام ۔اس نے اپنا دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا : " گوئل پٹیل "
اس واقعہ کے بعد میں نے سوچا کہ اس دنیا میں ہر آدمی اچھا آدمی ہے ۔ وہ صرف اس وقت بُرا آدمی بن جاتا ہے جب کہ ہم اپنی نادانی سے اس کو چھیڑیں اور اس کی انا کو جگا دیں۔ انا کے جاگنے کے بعد اپنی قوم کا آدمی بھی اتنا ہی خونخوار ہو جاتا ہے جتنا کوئی غیر قوم کا آدمی ۔
جہاز کے اندر میں اخبار پڑھ رہا تھا۔ آج تمام اخبار میں مسٹر راج کپور کے انتقال کی خبر تھی جن کو ہندستان کا سب سے بڑا نمائشی انسان (Showman) کہا جاتا ہے ۔ ایک اخبار نے حسبِ ذیل الفاظ میں اس کی سرخی لگائی تھی :
The end of a living legend.
میں انھیں خیالات میں تھا کہ اناؤنسر نے اعلان کیا "اب سے کچھ سمے بعد ہمارا بمان حیدر آباد اترے گا"۔ میں نے سوچا کہ ایک کا جہاز اتر چکا ، دوسرے کا جہاز اتر نے والا ہے۔ اسی طرح تمام لوگوں کے" جہاز " خدا کی دنیا میں اتر جائیں گے۔ یہ لمحہ بہرحال ہر ایک پر آنے والا ہے ، کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا۔ تاہم کسی کے لیے اس کا اترنا محفوظ اترنا (Safe landing) ہوگا ، اور کسی کے لیے اس کا اتر نا تبا ہی کا اترنا(Crash landing) ۔
حیدر آباد میں میرا قیام جناب حبیب بھائی کی رہائش گاہ پر تھا۔ یہاں لوگ برابر آتے رہے اور ان سے دعوتی و تعمیری موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ اندازہ ہوا کہ حیدر آباد میں اسلامی مرکز کے پیغام کی اشاعت کا کام کافی بڑھا ہے اور دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ عام طور پر اس مشن سے واقف ہو چکا ہے۔ الرسالہ اکیڈمی اور دوسرے بہت سے انفرادی اشخاص الرسالہ اور اس کے مشن کو پھیلانے میں مسلسل مصروف ہیں۔
حیدر آباد کا ذکر ہوتا ہے تو لوگ عام طور پر نظام کی دولت کا ، چار مینار کا ، سالار جنگ میوزیم کا اور اس طرح کی دوسری چیزوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مگر میرا ذوق اس معاملہ میں بالکل مختلف ہے۔حیدر آباد کے تمام معلوم واقعات میں مجھ کو سب سے زیادہ جو واقعہ پسند ہے وہ تقریباً 80 سال پہلے پیش آنے والا واقعہ ہے۔ یہ ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیا کے قبول اسلام کا واقعہ ہے۔
پچھلی صدی میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے ۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے حالات زندگی میں نے پڑھے ہیں۔ مگر جس گہرے شعور کے ساتھ ڈاکٹر چٹوپادھیا نے اسلام قبول کیا ، اس کی مثال ، میرے علم کی حد تک کسی دوسرے کے یہاں نہیں ملتی۔
اگھورنا تھ چٹوپا دھیاایک بنگالی بر ہمن تھے۔ انھوں نے بنگال سے آکر حیدر آباد میں رہائش اختیار کی ۔ یہاں وہ نظام کالج کے پرنسپل تھے۔ سروجنی نائیڈو (1949 – 1879) انھیں کی بڑی صاحبزادی تھیں جنھوں نے اپنی مختلف خصوصیات کی بنا پر کافی شہرت حاصل کی ۔ بوقت انتقال وہ اتر پردیش کی گورنر تھیں ۔
ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیااسی خاندان کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد تھے۔ وہ مہاراجہ کالج میسورمیں تاریخ کے استاد تھے۔ اس کے بعد وہ حیدر آباد کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔ وہ بیک وقت کئی زبانیں جانتے تھے۔ ان کے اندر حق کی تلاش کا جذبہ ابھرا۔ انھوں نے مختلف ممالک کا سفر کیا ۔ فلسفہ اور مذہب کا نہایت تفصیلی مطالعہ کیا۔ آخر میں وہ اسلام کی صداقت پر مطمئن ہوئے اور اسلام قبول کر کے اپنا نام محمد عزیز الدین رکھا۔ ان کی دوکتا بیں برٹش میوزیم (لندن) میں موجود ہیں جن کو اسی زمانہ میں لوزاک (Luzac and Sons) نے چھاپا تھا۔ ان کتابوں کو جناب حسن الدین احمد صاحب نے دوبارہ چھپوا دیا ہے ۔ ان کے نام یہ ہیں:
1. Muhammad: The Prophet of Islam
2. Why Have I Accepted Islam
یہ دونوں در اصل دو لیکچر ہیں جو بالترتیب 25 نومبر 1904 اور 26 نومبر1904 کو حیدر آباد میں دیے گئے۔ ایک لیکچر میں انھوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ حیدر آباد میں اسلامی دعوت کا ایک سنٹر قائم کیا جائے (ملاحظہ ہو عظمت قرآن ، صفحہ 46 - 145 ) یہ بلا شبہ اہم ترین بات تھی جو ایک بندہ ٔخدا کی زبان سے ادا ہوئی۔ مگر اس تجویز پر 80 سال بیت گئے اور کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ راقم الحروف نے 1983 میں اس مقصد کے لیے حیدر آباد میں ایک دعوتی مرکز قائم کرنا چاہا۔ اس کی عملی صورتیں بھی پیدا ہوئیں ۔ مگر جلد ہی لوگوں کی بے حسی اور اخلاقی پستی نے اس قیمتی منصوبہ کو خاک میں ملا دیا۔
خلیفۂ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب حالات میں بگاڑ پیدا ہوا تو کچھ لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ عمر فاروق کے زمانےمیں حالات درست تھے اور آپ کے زمانےمیں حالات بگڑ گئے ۔ اس کے جواب میں حضرت علی نے فرمایا کہ "عمر کے ساتھی میرے جیسے لوگ تھے، میرے ساتھی تمہارے جیسے لوگ ہیں "۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر منصوبہ سب سے پہلے قابل اعتماد افراد چاہتا ہے ۔ اگر قابل اعتماد افراد حاصل نہ ہوں تو بہتر سے بہتر منصوبہ بھی زیر عمل نہیں لایا جاسکتا، حتیٰ کہ" خلیفہ ٔراشد"کی موجودگی میں بھی نہیں۔
1857 کی "جنگ آزادی" انگریزوں اور ہندستانیوں کے درمیان تھی۔ اس جنگ میں حیدر آبادکے مسلم حکمرانی (نظام ) نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ قومی اصطلاح میں یہ واضح طور پر "غداری "کا کیس تھا۔ مگر بعد کی تقریباً سو برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ "غدار نظام " سے ملت کو بے شمار فائدے پہنچے۔ جب کہ "مجاہد نظام " سے ملت کو کسی بھی قسم کا کوئی مثبت فائدہ نہ پہنچ سکا۔
موجودہ زمانے میں بیشتر اسلامی ادارے عربوں کے "پٹرو ڈالر" کی امداد پر چل رہے ہیں۔تمام مشہور شخصیتوں کے پیچھے یہی پٹرو ڈالر کی طاقت ہے۔ پٹرو ڈالر کے ظہور سے پہلے یہی حیثیت نظام حیدر آباد کو حاصل تھی ۔ اس زمانے میں برصغیر کے اکثر اسلامی ادارے نظام کے مالی تعاون کی بنیادپر چل رہے تھے۔ اسی طرح حیدر آباد کے نواب نے دوسرے بہت سے ملی مفاد والے کام کیے ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
پچھلے ڈیڑھ سو برس کی تاریخ ہنگامہ خیز مسلم تحریکوں کی تاریخ ہے۔ ان تحریکوں نے مسلمانوں کے جان و مال کو بر باد توضرور کیا جس کو بطور خود انھوں نے قربانی کا شاندار نام دیا ہے۔ مگر ان میں کوئی بھی قابل ذکر مسلم تحریک نہیں جس نے مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں کوئی مثبت فائدہ پہنچایا ہو۔ اس کا کم از کم ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ ان تحریکوں کے قائدین نے ممکن اور نا ممکن کے فرق کو نہیں سمجھا۔ وہ ممکن کو چھوڑ کر نا ممکن کے پیچھے دوڑتےرہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ممکن کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ۔
اس کی ایک مثال "ریاست حیدر آباد " کا معاملہ ہے جو 1947 کے انقلاب کے دوران طوفان کی طرح اٹھا اور گردو غبار کی طرح ختم ہو گیا۔ اس کی وجہ ہمارے قائدین کی یہی غیر حقیقت پسندانہ سیاست تھی۔ انھوں نے اس راز کو نہیں جانا جس کو ایک مفکر نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ سیاست ممکن کا فن ہے:
(Politics is the art of possible).
یہاں میں سابق پاکستانی وزیر اعظم چودھری محمد علی (56 - 1955) کا ایک اقتباس نقل کروں گا ۔ اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ خود پاکستانی لیڈر کے اپنے بیان کے مطابق 40 سال پہلے حیدر آباد اور کشمیر کا مسئلہ میز پر حل ہورہا تھا۔ مگر مسلم لیڈروں نے حقائق کو نہیں سمجھا۔ وہ بیک وقت دو خر گوشوں کے پیچھے دوڑتے رہے ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان میں سے ایک کو بھی نہ پکڑ سکے۔
قدیم حیدر آباد میں چھوٹی سطح پر علم کا وہی چر چا تھا جو زیادہ بڑی سطح پر قدیم بغدادمیں پایا جاتا تھا۔ مفتی محمد سعید صاحب (1895 - 1831) ریاست حیدرآباد میں عدالت العالیہ کے مفتی تھے ۔ ان کو کتابوں کا اس قدر شوق تھا کہ اپنی آمدنی کا چوتھائی حصہ مستقل طور پر کتابوں کے حصول میں صرف کیا کرتے تھے۔ انھوں نے مکہ ، مدینہ ، بغداد ، دمشق ، قاہرہ وغیرہ کے کتب خانوں سے نایاب علمی کتابوں کی نقلیں منگوائیں۔ ہندستان میں اور عالم اسلام کے بڑے بڑے شہروں میں ان کے کا تب مقرر تھے جو نایاب کتا بیں
Sardar Patel, although a bitter enemy of Pakistan, was a greater realist than Nehru. In one of the discussions between the two Prime Ministers, at which Patel and I were also present, Liaquat Ali Khan dwelt at length on the inconsistency of the Indian stand with regard to Junagadh and Kashmir. If Junagadh, despite its Muslim ruler's accession to Pakistan belonged to India because of its Hindu majority, how could Kashmir, with its Muslim majority, be a part of India simply by virtue of its Hindu ruler having signed a conditional instrument of accession to India? If the instrument of accession signed by the Muslim ruler of Junagarh was of no validity, the instrument of accession signed by the Hindu ruler of Kashmir was also invalid. If the will of the people was to prevail in Junagadh, it must prevail in Kashmir as well. India could not claim both Junagadh and Kashmir. When Liaquat Ali Khan made these incontrovertible points, Patel could not contain himself and burst out: "Why do you compare Junagadh with Kashmir? Talk of Hyderabad and Kashmir, and we could reach an agreement." Patel's view at this time and even later was that India's effort to retain Muslim majority areas against the will of the people was a source not of strength but of weakness to India. He felt that if India and Pakistan agreed to let Kashmir go to Pakistan and Hyderabad to India, the problems of Kashmir and of Hyderabad could be solved peacefully and to the mutual advantage of India and Pakistan.
Choudhry Mohammad Ali, Emergence of Pakistan, pp. 299-300
نقل کر کے برابر ان کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ یہ تمام ذخیرہ اب بھی کتب خانہ سعیدیہ کی صورت میں موجود ہے۔
اس خاندان کے ایک فرد ڈاکٹر یوسف الدین صاحب ایک بار دمشق گئے ۔ پروفیسر صلاح الدين المنجد نے وہاں کا مشہور کتب خانہ ظاہر یہ کا معائنہ کراتے ہوئے ان سے کہا :ہندستان کے مسلمان جب ہمارے ملک میں آتے ہیں تو وہ یہاں کی قبروں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، وہ ہماری کتابوں سے نہیں ملتے۔ دیکھئے ، اس کتب خانہ میں دس ہزار نایاب کتا بیں ہیں۔
ڈاکٹر یوسف الدین نے ان سے خاص خاص نایاب کتابوں کو دکھانے کی فرمائش کی۔ پروفیسرصلاح الدین المنجد نے ابن عساکر کی تاریخ ِدمشق منگوائی اور کہا کہ یہ ہمارے اس کتب خانہ کی سب سے زیادہ قدیم کتاب ہے۔ مگر یہ نامکمل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے بقیہ اجزاء کہاں مل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف الدین نے کتاب کو دیکھ کر فور اً کہا : "حیدر آباد کے کتب خانہ سعیدیہ میں اس نایاب کتاب کے بقیہ اجزاء موجود ہیں" (انجمن ، از ڈاکٹر حسن الدین احمد ، صفحہ 115)
یہ قدیم حیدر آباد کا حال تھا۔ آج حیدر آباد کے مسلمانوں کے پاس پہلے سے بھی زیادہ دولت موجود ہے مگر آج ان کی دولت کا مصرف علم نہیں۔ آج وہ اپنی دولت کو ایسی بے معنی مدوں میں ضائع کر رہے ہیں جن کا نہ علم سے کوئی تعلق ہے اور نہ عقل سے ۔
حیدر آباد کی سڑکوں پر چلتے ہوئے ایک جگہ آپ کو ایک اونچے مینار پر اقبال کے شاہین کی تصویر بنی ہوئی دکھائی دے گی۔ یہ" مینا راقبال" ہے۔ اقبال کی 50 ویں برسی کے موقع پر اپریل 1988 میں اس کی نقاب کشائی چیف منسٹر مسٹر این ٹی ر اما راؤ نے کی۔ اس کے چاروں طرف اقبال کے تین شعر اردوہندی ، انگریزی اور تلگو زبان میں لکھے ہوئے ہیں ۔
اقبال کو مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں ہندستان میں اقبال کی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندستان میں اختلافات کے باوجود اعتراف کا ماحول ہے۔ یہاں مسلمانوں کومسلمان رہتے ہوئے وہ تمام مواقع حاصل ہیں جو کسی دوسرے فرقہ کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ تا ہم مواقع کو استعمال کرنے کے لیے آدمی کو خود بھی ایک قیمت دینی پڑتی ہے۔ مسلمان اگر یہ ضروری قیمت ادانہ کریں تو ان کے لیے نہ ہندستان میں کوئی موقع ہے اور نہ پاکستان میں ۔ حتیٰ کہ مکہ مدینہ میں بھی نہیں۔
حیدر آباد میں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں سے ایک مسٹر مدھو سدن ریڈی (پیدائش 1926) ہیں وہ 1983 میں ڈپٹی ڈائرکٹر (پلاننگ )کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں اور اکثر کتا بیں بھی پڑھ چکے ہیں۔
مسٹر ریڈی نے بتایا کہ راقم الحروف کے حیدر آباد پہنچنے سے ایک دن پہلے انھوں نے خواب دیکھا کہ مسز اندرا گاندھی ان کے یہاں آئی ہیں۔ وہ مسٹر ریڈی سے کہہ رہیں کہ" مجھے معلوم ہوا ہے کہ مولاناوحید الدین خاں یہاں آئے ہیں۔ میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ مجھ کو لے جا کر ان سے ملا دو "۔ اس خواب کی حقیقت کے بارے میں مزید مجھے کچھ نہیں معلوم ۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ 3 جون کومسٹرریڈی نے حبیب بھائی کی قیام گاہ پر کئی لوگوں کے سامنے اپنا یہ خواب بیان کیا ۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ کی بہت سی باتوں سے مجھے اتفاق ہے ۔ مگر آپ کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ مسلمانوں کو بس صبروا عراض ہی کا سبق دیتے رہتے ہیں ۔ حالاں کہ اسلام میں سب سے بڑی چیز جہا دو قتال ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جہاد و قتال کو منسوخ ہی کر دیا ہے۔
میں نے کہا کہ جہاد کو میں نے منسوخ نہیں کیا، بلکہ مشروط کیا ہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں غور کیجئے تو معلوم ہو گا جہاد (بمعنی قتال ) کچھ لازمی شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ پہلی بات یہ کہ نزاع کو یک طرفہ طور پر اوائڈ کرتے ہوئے دعوت دینا اور اس وقت تک صرف صبروبرداشت پر قائم رہنا جب تک دعوت پوری طرح مدعو تک پہنچ نہ جائے ۔ اس کے بعد مد عوسے علاحدگی جس کو ہجرت کہا گیا ہےمدعو کے ساتھ مخلوط آبادی میں جہاد نہیں۔ تیسری چیز یہ کہ قوت کی فراہمی، یہاں تک کہ وہ درجۂ ارہاب تک پہنچ جائے۔ چوتھی چیز ہے باہمی اختلاف کا خاتمہ ، کیوں کہ مسلمانوں کے درمیان اگر اختلاف کی حالت ہو تو پیغمبر کی موجودگی میں بھی شکست ہو جائے گی ، جیسا کہ احد کے موقع پر ہوا۔ میں نے کہا کہ یہ سب جہاد کی ناگزیر شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کی تکمیل کے بغیر جو جہاد کیا جائے وہ محض قومی لڑائی ہے نہ کہ اسلامی جہاد۔
حیدر آباد میں مولانا محمد رضوان القاسمی سے ملاقات ہوئی ۔ وہ یہاں کامیابی کے ساتھ ایک دینی ادارہ چلا رہے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ حال میں انھوں نے عرب امارات کا سفر کیا تھا۔ وہاں ان کی ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جنھوں نے ہمارے یہاں کی کتاب " خاتون اسلام " پڑھی تھی ۔انھوں نے کہا کہ اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں خاتون اسلام سب سے بہترکتاب ہے۔
حیدر آباد کے قریبی مقامات سے بھی کئی لوگ آگئے تھے مثلاً ر ا ئچور ، ناندیڑ، میدک ، وغیرہ ۔ عبد اللہ صاحب پر بھنی نے بتایا کہ ایک صاحب نے ان سے کہنا کہ "مولانا ہماری جو خرابیاں بتا رہے ہیں ، وہ ہم سے کہیں۔ اس کو الرسالہ میں کیوں چھاپتے ہیں کہ مشرکین کو اس کی خبر ہو جائے "۔ عبد الله صاحب نے جواب دیا کہ" آپ کو مشرکین کا خوف ہے، مگر فرشتوں کا خوف نہیں۔ مشرکین تو بتانے کے بعدجانیں گے ۔ مگر ہمارے دونوں کندھوں پر جو فرشتے بیٹھے ہوئے ہیں وہ تو بتائے بغیر ہر بات جانتے ہیں اور ان کو مسلسل لکھ رہے ہیں"۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ اپنے پڑھنے والوں کے اندرکس قسم کا ذہن بنا رہا ہے۔
اس سفر میں کچھ باتیں بہت غیر معمولی ہوئیں جو اس سے پہلے کسی سفر میں پیش نہیں آئی تھیں۔ 3 جون کو ملے پلی کی بڑی مسجد میں جمعہ سے پہلے میرا خطاب تھا۔ میں نے اپنی تقریر اس جملہ سے شروع کی کہ" نماز انسانی زندگی کا حسن ہے" ۔ اور پھر آدھ گھنٹہ تک قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کرتا رہا۔
میں اپنی بات پوری کر کے بیٹھ گیا۔ اس کے بعد دوسری اذان ہوئی اور خطیب صاحب نے منبر پر کھڑے ہو کرہ عربی زبان میں خطبہ دینا شروع کیا۔ اچانک آواز آئی "قال الشيخ وحید الدین " ایک سکنڈ کے لیے میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس کے بعد ان کا مزید خطبہ سننے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ میری اردو تقریر کا خلاصہ اپنے عربی خطبہ میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ الرسالہ کی بات کی تائید مساجد کے منبر سے بھی ہونے لگے۔
دوسرا تجربہ اس کے برعکس 5 جون کی دوپہر کو ہوا ۔ اردو گھر میں تقریر تھی۔ عنوان تھا " ایمان کی حقیقت " میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ایمان کی حقیقت اور اس کے تقاضوں کو بیان کر رہا تھا کہ اچانک چند نوجوان اسٹیج پر آئے ۔ ان کے ہاتھ میں کاغذ پر لکھا ہوا کوئی سوال تھا۔ انھوں نے زورزورسے کہنا شروع کیا کہ پہلے اس کا جواب دو ۔ ہم اس وقت تک تقریر ہونے نہیں دیں گے جب تک ہمارے سوال کا جواب نہ دے دیا جائے۔ مولانا اکبر الدین قاسمی صاحب نے اعلان کیا کہ آپ اپنا سوال صدرِ جلسہ کو دیدیں ۔ تقریر پوری ہونے کے بعد اس کا جواب دیا جائے گا۔ مگر نوجوان مسلسل شور کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ پہلے سوال کا جواب دو، ورنہ ہم تقریر ہونے نہیں دیں گے۔
یہ نوجوان صرف تین یا چار تھے اور بھرے ہوئے ہال کے تمام لوگوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ وہ لوگ صرف راقم الحروف کی تقریر سننے سے دل چسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ سامعین نے چند منٹ میں ان لوگوں کو پکڑ کر باہر کر دیا۔ ایک صاحب نے بعد کو مجھے ایک چُھرا دکھایا اور بتایا کہ یہ ان شورش پسند نوجوانوں میں سے ایک شخص کے پاس سے ملا ہے۔ ایک سے زیادہ آدمیوں نے کہا کہ میں ان نوجوانوں کو جانتا ہوں ۔ یہ ایک اسلامی تحریک کی "یو تھ ونگ "سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض اصحاب نے کہا کہ پچھلے دن گاندھی بھون میں آپ کا جو اجتماع تھا، اس کی غیر معمولی کامیابی کو دیکھ کر آپ کے مخالفین بو کھلا اٹھے ، ان کا یہ اقدام در اصل ان کے احساس ِشکست کا اظہار تھا جو الرسالہ کے بڑھتے ہوئے مشن کے حق میں زبردست اعتراف کی حیثیت رکھتا ہے۔
آج کل ایک بہت بڑافتنہ پیدا ہوا ہے۔ یہ وہی ہے جس کو عام طور پر نوجوان دستہ یا یوتھ ونگ (Youth wing) کہا جاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ہنگامہ پسند نوجوانوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے ۔ وہ ہر طرح ان کی سر پرستی کرتی ہیں۔ اور مختلف مواقع پر اپنے مخالفین کو گرانے کے لیے انہیں استعمال کرتی ہیں۔
موجودہ زمانہ کی نام نہاد اسلامی جماعتوں کو پیغمبر کی زندگی میں کوئی اسوہ نہیں ملا۔ البتہ انھوں نے سیاسی جماعتوں کی تقلید میں خود بھی یہی کام شروع کر رکھا ہے۔ یہ جماعتیں مسلم نوجوانوں کو منظم کرتی ہیں تا کہ توڑ پھوڑ اور ہڑ بھونگ کا جو کام وہ خود نہیں کر سکتیں ، اس کو ان نوجوانوں کے ذریعہ کرائیں ۔ یہ نوجوان بظا ہر اپنے آپ کو مسلم داعی کہتے ہیں، مگر حقیقتاًوہ مسلم دادا ہیں۔ وہ ہر جگہ صرف ایک کام کر رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر تخریب کاری ۔ یہ لوگ ہرمسلم ملک میں حکمرانوں کے خلاف وہی شورو غل اور تشدد کر رہے ہیں جو انھوں نے 4 جون کو راقم الحروف کے اجتماع میں کیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ میں نے اس ہنگامہ بازی پر صبر کر لیا۔ اور جن لوگوں کے پاس اقتدار ہے وہ ان کے" چھرے " کےجواب میں ان پر "تلوار" چلا رہے ہیں ۔ مختلف ملکوں میں آج اسلامی کام کرنے میں جو رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں ، اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ انھیں مسلم نوجوانوں پر ہے جو اسلامی جماعتوں کی سرپرستی میں ہر جگہ خود ساختہ جہاد کا جھنڈا اٹھائے ہوتے ہیں ۔ اس کی براہ راست ذمہ داری مسلم نوجوانوں پر ہے اور بالواسطہ ذمہ داری اسلامی جماعتوں پر۔
گاندھی بھون میں جو خطاب (4 جون) ہوا، اس کاعنوان تھا اسلام دور جدید کا خالق ۔وسیع ہال ، اخباری زبان میں "کھچا کھچ" بھرا ہوا تھا۔ جناب سید مکثر شاہ صاحب اس کے صدر تھے ۔ وہ نہ صرف حیدر آباد کی ممتاز شخصیت ہیں ، بلکہ ساتھ ہی دینی اور اسلامی مزاج رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ میں بمبئی میں تھا۔ مگر اس عنوان کی کشش کی بنا پر جلد ی کر کے حیدر آباد واپس آگیا تا کہ آج کی تقریر سن سکوں ۔
اس موضوع پر وہاں جو باتیں کہی گئیں ،ان کو مزید اضافہ کے ساتھ مرتب کیا جارہا ہے ۔ارادہ ہے کہ ان شاء اللہ اس کو الرسالہ کے خصوصی نمبر کے طور پر شائع کر دیا جائے۔
5 جون کو" اردو گھر" میں اجتماع تھا ۔ میں پہنچا تو ہال پوری طرح بھر چکا تھا۔ مجھ کو دیکھتے ہی ایک بزرگ چیخ کر اٹھے اور مجھ سے لپٹ کر رونے لگے ۔ وہ کہہ رہے تھے "میرے پیارے تم آگئے، خدا تمھیں بہت دن تک اس کام کے لیے زندہ رکھے" ۔ اس طرح آج خدا کے فضل سے بے شمار لوگ ہیں جو الرسالہ میں سچائی کی روشنی پارہے ہیں ۔
جناب سید مکثر شاہ صاحب (سابق چیرمین لیجسلیٹو کونسل) نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ میں برابر الرسالہ پڑھتا ہوں اور اس سے پوری طرح متفق ہوں۔ جناب عارف الدین صاحب (مدینہ ٹکنیکل کالج) نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ جناب ایم اے ستار یہاں فرنیچر کا کاروبار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں مذہبی کتابیں بالکل نہیں پڑھتا تھا۔ مگر جب سے الرسالہ ملا ہے ، میرا ذہن بدل گیا ہے۔میں پابندی سے الرسالہ اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔ وغیرہ تاہم بعض لوگ ایسے بھی ملے جن کو الرسالہ سے شکایت تھی ۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ میں ہمیشہ مسلمانوں ہی کو نصیحت کی جاتی ہے ۔ اس میں اکا بر قوم پر تنقیدیں ہوتی ہیں۔
میں نے پہلے ان کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ الرسالہ میں جو بات کہی جاتی ہے وہ قرآن و حدیث کے حوالے سے کہی جاتی ہے۔ اس لیے آپ الرسالہ کی بات کو قرآن و حدیث کے معیار پر جانچیں نہ کہ کسی اور معیار پر ۔ جب وہ اس ڈھنگ سے سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو میں نے ان کے سامنے دوسری بات رکھی ۔
میں نے کہا کہ دنیا میں دو قسم کے حیوانات ہیں ۔ ایک گائے جس کی خوراک گھاس ہے۔ اور دوسرے درندہ جس کی خوراک گوشت ہے ۔ آپ درندہ کو گھاس نہیں کھلا سکتے۔ اور اگر آپ گائے کے منھ میں گوشت ڈالیں تو وہ اس کو اگل دے گی یہی معاملہ انسانوں کا ہے۔ انسانوں میں مختلف قسم کے لوگ ہیں اور الرسالہ بہر حال ہر ایک کی غذا نہیں بن سکتا ۔
جو لوگ ذاتی فخر میں جیتے ہوں۔ جنھوں نے خدا کے بجائے انسانوں کو اپنا بڑا بنا رکھا ہو۔ جن کی روح کو اس سے تسکین ملتی ہو کہ وہ اپنی غلطی کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرائیں ۔ جن کو اعتراف کے بجائے سرکشی میں لذت ملتی ہو ۔ جو خیالی الفاظ میں لطف لیتے ہوں اور جن کو حقائق سے کوئی دلچسپی نہ ہو، ایسے لوگ الرسالہ سے مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ وہ الرسالہ کی باتوں میں اپنی خوراک نہیں پا سکتے۔
الرسالہ صرف سنجیدہ اور حقیقت پسند لوگوں کی غذا ہے۔ اور ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں اگر غیر سنجیدہ اور غیر حقیقت پسند لوگ الرسالہ میں اپنی غذا نہ پائیں۔
حیدر آباد میں "باغ عامہ" کی تقریر کے بعد ایک صاحب نے تحریری سوال کیا : " دعوت کا میدان کیا صرف نظریاتی وفکری میدان ہی ہے یا میدانِ جنگ بھی "۔میں نے کہا کہ دعوت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ لوگوں کے اوپر تلوار زنی کریں۔ دعوت کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اپنے ساتھ جنت کا ہم سفر بنا ئیں ۔ اس قسم کا کام ہمیشہ محبت کے ذریعہ ہوتا ہے نہ کہ نفرت اور تشددکے ذریعہ ۔
جناب احمد بختیار الدین صاحب نے اپنے ذاتی اہتمام کے تحت حیدر آباد کے تین پروگراموں کا ویڈیو کیسٹ تیار کرایا۔ موجودہ زمانہ میں ویڈیو کیسٹ کا طریقہ بہت عام ہو رہا ہے ۔ چنانچہ لوگ ہم سے بھی تقاضا کر رہے ہیں کہ جس طرح اس سے پہلے آڈیوکیسٹ تیار کرائے گئے تھے ، اسی طرح ویڈیو کیسٹ بھی تیار کرائے جائیں۔
مسجد سلطان جہاں بیگم سے ملا ہوا جناب حسام الدین صاحب کا کارخانہ ( پروین پر نٹنگ ورکس) ہے۔ مسجد میں خطاب کے بعد حسام الدین صاحب اپنے کارخانہ میں لے گئے۔ اس کارخانہ میں رنگین ساڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ بنی ہوئی ساڑی بھیونڈی وغیرہ سے آتی ہے ۔ ابتداء ً وہ صاف رنگ کی نہیں ہوتی۔ یہاں کارخانہ میں سب سے پہلے اسے سفید بنایا جاتا ہے۔ پھر مختلف مراحل سے گزارتے ہوئے وہ رنگین چھپی ہوئی ساڑی کے مرحلہ تک پہنچتی ہے۔ یہاں تک کہ تہ کر کے اس کو پلاسٹک کے تھیلے میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ بازار میں فروخت کے لیے بھیجا جاسکے۔
میں نے پوچھا کہ ابتداء سے آخر تک اس پر کتنے مراحل گزرتے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ تقریباً بارہ مرحلہ ۔ اس سے پہلے کپاس کے مرحلہ سے بنی ہوئی ساڑی کے مرحلہ تک پہنچنے کے لیے بھی تقریباً اتنے ہی مراحل گزرتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کپاس سے ساڑی بنانے کے لیے اس کو "24 مرحلوں" سے گزارنا ہوتا ہے۔ تب وہ اس کپڑے کی صورت اختیار کرتی ہے جو جسم کو ڈھانپنے اور انسان کی تزئین کا ذریعہ بنے۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہمارے درمیان ایسے رہنما اٹھے جو " ملت " کو بنانے کے لیے کسی مرحلہ اور تدریج کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال ہے کہ نعرہ لگاؤ اور ملت کی تعمیر کا گنبد اگلے دن کھڑا ہو ا نظر آئے گا۔
5 جون 1988 کو دو پہر بعد حیدر آباد سے محبوب نگر کے لیے روانگی ہوئی ۔ راستہ میں ایک جگہ سڑک کے کنارے بورڈ لگا ہوا تھا کہ حفاظت پہلے اور رفتار پیچھے :
Safety first, speed next.
اس کو دیکھ کر خیال آیا کہ آدمی اگر اپنے آپ میں گم ہو جائے تو وہ "اسپیڈ " کو اہمیت دے گا۔ اور اگر وہ جانے کہ سڑک پر وہ تنہا نہیں ہے ، بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی یہاں اپنی اپنی دوڑ لگا رہے ہیں تو وہ "سیفٹی "کو سب سے زیادہ اہم سمجھے گا۔ یہی وسیع تر زندگی کا اصول بھی ہےسڑک کا وہی مسافر حفاظت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچتا ہے جو دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری کرے۔ اسی طرح زندگی میں وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو دوسروں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھے اور دوسروں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر طے کرے ۔ یہاں دوسرے کو"فرسٹ " بنانا پڑتا ہے اور اپنے آپ کو "نکسٹ " اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اس دنیا میں اپنی مطلوبہ منزل پر بحفاظت پہنچ سکے۔
محبوب نگر میں دو پروگرام ہوئے۔ یہاں مدرسہ سراج العلوم مولانا امیر اللہ خان کی زیر نگرانی چل رہا ہے۔ مجھے اس کی لائبریری اور اسٹاف کو ارٹس کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے بلایا گیا تھا ۔ سنگ بنیاد رکھنے سے پہلے ایک جلسہ ہوا جس میں دینی تعلیم اور مدارس عربیہ کی اہمیت پر تقریر کی گئی۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ بعض لوگ نا سمجھی کی بنا پر عربی مدارس کا استخفاف کرتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ان مدارس میں تحفیظ قرآن کا شعبہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ پریس کے دور میں قرآن کے لاکھوں نسخے چھپ کر ہر جگہ پھیل چکے ہیں ۔ ایسی حالت میں قرآن کا حفظ غیر ضروری ہے۔
میں نے کہا کہ یہ حفاظت بالائے حفاظت کا معاملہ ہے ۔ جیسے مولانا آزاد کی کتاب کے تیس صفحے بیک وقت دو جگہ محفوظ کیے گئے ہیں ، کلکتہ میں اور دہلی میں ۔ تاکہ ایک نسخہ اگر کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو دوسرا نسخہ موجود ہے۔ قرآن کی کاغذی طباعت کے ساتھ قرآن کی صدری تحفیظ اسی قسم کی ایک تدبیر ہے ۔ یہ گویا ایک حفاظت کے اوپر دوسری حفاظت کا اضافہ ہے۔ یہ اہتمام مزید کی ایک صورت ہے جو ہر اہم دستاویز کے ساتھ ہمیشہ اختیار کی جاتی ہے۔
محبوب نگر میں کچھ لوگوں نے کریسنٹ پبلک اسکول (انگلش میڈیم ) کھولا ہے ۔ 5 جون کی شام کو اس کی افتتاحی تقریب تھی ۔ اس کے صدر شری رام چندر ریڈی ایڈوکیٹ تھے۔ مجھ کو اس موقع پر چیف گیسٹ کے طور پر بلایا گیا تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں خاص طور پر یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسلام علم کے حصول کو کتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
اس ملک میں میں نے تاریخ اسلام کا یہ واقعہ پیش کیا کہ بدر کے قیدیوں کے لیے یہ فدیہ مقرر کیا گیا کہ اگر وہ دس مسلم نوجوانوں کو پڑھا دیں تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ قیدی بد ترین قسم کے جنگی مجرم تھے۔ ان کو چھوڑنے میں واضح طور پر یہ اندیشہ تھا کہ وہ منظم ہوکر دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ اور فی الواقع انھوں نے غزوۂ احد کی شکل میں ایسا ہی کیا۔ تاہم اس واضح اندیشہ کے باوجود انہیں تعلیم کی خاطر چھوڑ دیا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں علم کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ہر خطرہ اور اندیشہ کو نظر انداز کر کے اس کو حاصل کیا جانا چاہیے ۔ جب علم اور دوسری مصلحتوں کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہوتو علم کا انتخاب کیا جائے نہ کہ دوسری مصلحتوں کا۔
محبوب نگر کے تعلیم یافتہ طبقہ میں الرسالہ کافی پھیل رہا ہے۔ اور اس کا ذریعہ ایجنسی ہے۔ اب خدا کے فضل سے ہر جگہ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ذاتی دلچسپی کے تحت الرسالہ کی ایجنسی چلاتے ہیں اور مخالفین کی مخالفت کے باوجود پورے عزم کے ساتھ اس تعمیری کام پر جمے ہوئے ہیں۔ انھیں میں سے ایک محبوب نگر کے محمد عقیل احمد خاں ہیں ۔ وہ ایک باہمت نوجوان ہیں اور مقصدی لگن کے تحت الرسالہ (اردو ، انگریزی) کی ایجنسی نہایت باقاعدگی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
اس قسم کے لوگ بلاشبہ الرسالہ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ میں نے ایک مجلس میں کہا کہ جس شخص نے الرسالہ کو ایک بار پڑھا اس نے الرسالہ کو نہیں پڑھا، جس نے الرسالہ کو دو بار پڑھا اس نے الرسالہ کو پڑھا۔ اسی طرح جو شخص زبانی طور پر الرسالہ سے اتفاق کرے اس نے الرسالہ سے اتفاق نہیں کیا ، الرسالہ سے اتفاق کرنے والا وہ ہے جو الرسالہ کی ایجنسی لے کر اس کو لوگوں کے درمیان پھیلائے ۔ الرسالہ ایک مشن ہے ، اور مشن سے اتفاق کبھی جامد ہو کر نہیں رہ سکتا۔ یہ اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک توسیعی جذبہ ہے۔ جو اتفاق توسیع نہ بنے وہ اتفاق نہیں ۔ جو شخص صاحب الرسالہ ہومگر وہ صاحب ایجنسی نہ بنے ، وہ صاحب الرسالہ بھی نہیں۔
6 جون کی صبح کو انڈین ائیر لائنز کی فلائٹ نمبر 120 کے ذریعہ حیدر آباد سے بمبئی کے لیے روانگی ہوئی ۔ یہ ایک گھنٹہ اور کچھ منٹ کا سفر تھا۔ اپنے بھتیجے اظفر میاں کے ساتھ ایئر پورٹ سے سیدھا ہندو جا اسپتال پہنچا جہاں میرے بڑے بھائی عبد العزیز خاں صاحب زیر علاج تھے ۔ ان کو 23 مئی کو برین ہیمور یج کا حملہ ہوا۔ اس کے بعد وہ مسلسل بے ہوشی (کوما )میں رہے۔ یہاں تک کہ 7 جون 1988 کی شام کوان کا انتقال ہو گیا۔
اسپتال میں آئی سی یو (ICU) کے کمرہ نمبر 14 میں داخل ہو اتو وہاں وہ شخصیت اسپتال کے مخصوص بیڈ پر لیٹی تھی جس کی عیادت کے لیے میں یہاں آیا تھا ۔ میں بھائی صاحب کو دیکھ رہا تھا، مگر میں ان سے ربط قائم نہیں کر سکتا تھا۔ کیوں کہ اس وقت ان کے دیکھنے اور بولنے اور سننے کی صلاحیت معطل ہو چکی تھی۔ وہ نہ مجھ کو دیکھ رہے تھے ، نہ میرے سلام کا جواب دے سکتے تھے۔ نہ کسی قسم کی گفتگو ان کے ساتھ ممکن تھی۔ اس وقت وہ مجھ سے دور ، مگر اپنے رب سے قریب تھے –––– یہ لمحہ جاننے والوں کے اوپر جیتے جی آجاتا ہے اور نہ جاننے والوں کے اوپر اس وقت آتا ہے جب کہ وہ موت کے دروازےپر پہنچ چکے ہوں : وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ ( الواقعہ: 85)
عبد العزیز خاں صاحب اعظم گڑھ میں غالباً 1919 میں پیدا ہوئے ۔ وہ غیر معمولی خصوصیات کےآدمی تھے اور انھوں نے معاشی میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ۔ 1942 میں انھوں نے اعظم گڑھ میں بزنس شروع کیا ۔ 1972 میں لائٹ اینڈ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ قائم کی جس کا صدر دفتر الہٰ آباد تھا۔ 1981 میں وہ خود بھی الٰہ آباد منتقل ہو گئے ۔ وہ لائٹ اینڈ کمپنی کے چیرمین تھے ۔ اس کمپنی نے اپنی غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر کئی بڑے بڑے انعامات حاصل کیے ہیں۔ اس کا کام ہے زیادہ طاقت کی بجلی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والے بڑے بڑے کھمبوں کی تنصیب :
Erection of extra high voltage transmission lines.
میری زندگی اور میرے مشن سے بھائی صاحب مرحوم کا نہایت گہرا تعلق تھا۔ میرے والد (فرید الدین خاں مرحوم ) کا انتقال ہوا تو اس وقت میری عمر تقریباً 5 سال تھی ۔ چنانچہ میرے بڑے بھائی ہی تمام عمر میرے سر پرست رہے۔ ہر آدمی جب بڑا ہوتا ہے تو اس کو معاشی جدوجہد میں لگنا پڑتا ہے۔ اپنے مزاج کی بنا پر میں نے اس کے برعکس یہ خطرناک راستہ اختیار کیا کہ میں نے حصول معاش کے بجائے حصول علم کو اپنانشانہ بنایا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد لمبا عرصہ ایسا گزرا ہے جب کہ میری ساری توجہ تلاش حق ، قرآن و حدیث کا مطالعہ اور دوسرے علوم کی تحقیق میں لگی رہی۔ معروف معنوں میں میں نے کمانے کا کوئی کام نہیں کیا۔
یہ طویل غیر معاشی زندگی زبر دست معاشی قیمت مانگتی تھی ۔ اس کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ کوئی شخص ہو جو میرے معاشی بوجھ کو اٹھائے ، جو میری علمی جد و جہد میں میرا عملی بدل بن جائے۔ میرے بڑے بھائی نے یہ مشکل قیمت ادا کی ۔ وہ مسلسل پچاس سال تک میرے سر پرست بنے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں تلاش وتحقیق اور مطالعہ و تجربہ کی طویل اور دشوار مہم کو اس کی آخری منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہوا ۔ اگر عبد العزیز خاں صاحب مرحوم میرا معاشی بوجھ نہ اٹھاتے توشاید میں، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ، صرف ایک حیوان کا سب بن کر رہ جاتا ، میں کبھی انکشاف حق کی منزل تک نہ پہنچتا۔
موجودہ دنیا میں کامیاب بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کے ساتھ مصالحت اور موافقت کی روش اختیار کرے ۔ غیر مصالحانہ رویہ(Uncompromising attitude )کسی انسان کے لیے سب سے بڑا قاتل ہے۔ میں اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر کسی بھی شخصیت یا کسی بھی گروہ یا حلقہ کے ساتھ مصالحانہ انداز اختیار نہ کر سکا۔ میں نے ہمیشہ سچائی کا لحاظ کیا نہ کہ شخصیتوں اور جماعتوں کا۔
بلا شبہ یہ ایک بے حد خطر ناک معاملہ تھا ۔ ہر ایک کے ساتھ غیر مصالحانہ روش اختیار کرنےکے بعد میرا زندہ رہنا بھی تھا۔ کجا کہ میں کوئی مشن کھڑاکرسکوں۔ خود بھائی صاحب مرحوم کو تمام تر برادرانہ محبت کے باوجود ، اس معاملہ میں مجھ سے شکایت رہی ۔ تاہم شکایت اور اختلاف کے باوجودانھوں نے کامل طور پر میری سر پرستی کی۔ اور میرا پورا بوجھ مسلسل اٹھاتے رہے۔
غیر مصالحانہ روش موجودہ امتحان کی دنیامیں اتنا بڑا جوکھم ہے جس کا تحمل کرنے کے لیے پہاڑ جیسی طاقت ور شخصیت درکار ہے۔ میرے جیسا عاجز اور کمزور آدمی ایک دن کے لیے بھی اس امتحان کو برداشت نہیں کر سکتا۔ تاہم یہ صرف بھائی صاحب مرحوم کی مسلسل سر پرستی تھی جس کی بنا پر میں اس انتہائی مشکل اور خطرناک وادی کو پار کرنے میں کامیاب ہو سکا۔
1976 میں ماہنا مہ الرسالہ جاری ہوا تو اس کا تمام ضروری سرمایہ بھائی صاحب مرحوم نے فراہم کیا۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر وہ برابر میری مدد کرتے رہتے تھے ۔ الرسالہ اور اسلامی مرکز کی صورت میں جو ڈھانچہ آج موجود ہے، وہ حقیقت کے اعتبار سے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے۔ مگر ظاہری اسباب کے اعتبار سے وہ سب کا سب ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر ، بھائی صاحب مرحوم کی ذات سے تعلق رکھا ہے۔ اپنی معلومات کے مطابق ، ماضی یا حال میں مجھے کوئی بھی دوسرا بھائی نہیں معلوم جس نے اپنے بھائی کی اتنی زیادہ مدد کی ہو جتنی عبد العزیر خاں صاحب نے میری کی ۔ان کی وفات ایک طرف میرے بھائی کی وفات تھی ، دوسری طرف میں نے عالم اسباب میں اپنے قیمتی سر پرست کو کھو دیا ۔ اللہ تعالیٰ بھائی صاحب مرحوم پر رحمتیں نازل فرمائے ، اور میرا مددگار ہو ۔ وہی ہر ایک کی مدد کرنے والا ہے ۔
7 جون کی صبح کو اچانک بھائی صاحب مرحوم کے دل کی حرکت بند ہوگئی ۔ تاہم بجلی کا شاک دینےسے چند منٹ بعد دل کی حرکت دوبارہ جاری ہوگئی۔ اس دوران نلکی کے ذریعہ ان کے اندر آکسیجن پہنچایا جاتا رہا۔ یہ حالت تقریباً 12 گھنٹے رہی ۔ اس کے بعد 7 جون کی شام کو ساڑھے نو بجے ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ مریض کی وفات ہو چکی ہے ۔ آخری ہچکی کے وقت ان کے صاحبزادہ جمیل احمد خاں انجینئران کےپاس موجود تھے ۔
موجودہ زمانہ میں ایک نئی سائنس وجود میں آئی ہے جس کو کرائیو جینکس (Cryogenics)کہتے ہیں۔ یعنی زندگی سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو کم ٹمپریچر پر رکھ کر انھیں محفوظ کرنا۔ اس سائنس کی ابتداء 1877 میں ہوئی۔ اس کے ذریعہ پودے ، غذائیں، اجزائے بدن مثلاً گردہ وغیرہ کومحفوظ کرنے میں کامیابی حاصل کی جاچکی ہے ۔ مگر پورے انسانی جسم کو موت کے بعد ایک لمبی مدت تک محفوظ رکھنا ابھی تک ایک نا ممکن چیز سمجھا جاتا ہے :
The prolonged viable preservation of whole animals, especially man, is now considered impossible, due to the complex and varied nature of the body (EB-5/322)
تاہم امریکہ میں ایسے ادارے کھل گئے ہیں جو بڑی بڑی فیس لے کر مردہ جسموں کو خاص طرح کے" کولڈ اسٹوریج " میں محفوظ رکھتے ہیں۔ جو دولت مند لوگ ایسی بیماریوں میں مرتے ہیں جن کا علاج ابھی تک دریافت نہ ہو سکا (مثلاً کینسر ) ان کی وصیت کے تحت ان کے جسموں کو مذکورہ قسم کے سرد خانوں میں محفوظ کر دیا جاتا ہے، اس امید میں کہ شاید کبھی ان بیماریوں کا علاج دریافت ہوا اور انھیں دوبارہ زندہ کیا جاسکے –––– انسان ابدی زندگی چاہتا ہے ، مگر آخرت کا تصور سامنے نہ ہونےکی وجہ سے وہ غلط طور پر موجودہ فانی دنیا میں غیر فانی زندگی کی تلاش کر رہا ہے۔
جون کی آٹھ تاریخ ہے اور صبح 9 بجے کا وقت کو کوئنزا پارٹمنٹ (پالی ہل ) کے نیچے بھائی صاحب کا جسم سفید کپڑوں میں لپٹا ہوا رکھا ہے۔ میں اس کو دیکھ رہا ہوں ۔ میرے ذہن میں یادوں کی ریل چل رہی ہے ۔ ایک زندگی جو 1919 میں شروع ہوئی اور 1988 میں ختم ہوگئی۔ یہی ہر ایک کے ساتھ پیش آنے والا ہے اور یہی خود میرے ساتھ بھی پیش آئے گا۔ موجودہ جسم انسانی روح کا دنیوی مکان ہے۔ موت وہ لمحہ ہے جب کہ روح اپنے دنیوی مکان کو چھوڑ کر ایک اور جسم میں داخل ہو جاتی ہے جو اس کا اخروی مکان ہے۔
بھائی صاحب کے مردہ جسم کو دیکھ کر مجھے خود اپنی موت یاد آگئی۔ ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوا گو یا خود میرا جسم کفن میں لپٹا ہوا پڑا ہے۔ یہ سوچ کر دل بے قرار ہو گیا ۔ میں نے کہا کہ خدایا، مجھےبلا حساب بخش دیجئے۔ کیوں کہ میرا عمل بھی اتنا ہی بے عمل ہے جتنا کہ میری بے عملی ۔
ڈاکٹر عبد الکریم نائک (پیدائش 1928 ) نفسیات کے ماہر ہیں ۔ بمبئی کے سفر میں میراقیام انھیں کے یہاں تھا۔ 7 جون 1988 کو ہم لوگ نماز فجر سے فراغت کے بعد قریب کی مجگاؤں ہِل پر ٹہلنے کے لیے گئے۔ یہ ایک پر فضا جگہ ہے۔ اس کے آس پاس زیادہ تر مسلمانوں کی آبادیاں ہیں ۔ مگر وہاں جو لوگ ورزش یا چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آئے وہ سب غیر مسلم تھے ۔ ہم تین آدمیوں کےسوا وہاں اس وقت غالباً کوئی مسلمان موجود نہ تھا۔
یہ ایک پہاڑی تفریح گاہ ہے ۔ سامنے دور تک سمندر کا منظر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں ہم لوگ پارک میں کچھ دیر کے لیے بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر نا ئک صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا : میرے نزدیک انسانی مسائل کا حل انصاف میں نہیں صلح میں ہے۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں اکثر حالات میں انصاف ممکن نہیں ہوتا ، جب کہ صلح ہر وقت ممکن ہوتی ہے۔
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے آبائی وطن (رتنا گیری ) میں ایک زمین پر دو آدمیوں کا جھگڑا تھا۔ ایک شخص نے زمین پر قبضہ کر رکھا تھا۔ دوسرا شخص جو اپنے آپ کو اس زمین کا مالک بتاتا تھا ، اس کا مطالبہ تھا کہ قابض شخص مجھ کو آٹھ ہزار روپے دے ، تب میں اپنے حق سے دستبردار ہوں گا۔ دوسرا شخص اس پر راضی نہ تھا۔ پہلے شخص کا کہنا تھا کہ میں آٹھ ہزار روپے سے ایک پیسہ کم نہیں لوں گا۔ دوسرے کا کہنا تھا کہ میں چھ ہزار سے ایک پیسہ زیادہ نہیں دوں گا۔
ڈاکٹر نا ئک صاحب کو معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ میں چند منٹ میں اس مسئلہ کو حل کر تا ہوں۔ انھوں نے دونوں کو بلایا اور دونوں سے بات کی ۔ دونوں نے وہی بات کہی جو وہ پہلے کہہ چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تمہارا مطالبہ آٹھ ہزار روپے کا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے ، تم کو آٹھ ہزار روپیہ مل جائے گا۔ اس کے بعد انھوں نے دوسرے شخص سے کہا کہ تم اپنے قول کے مطابق چھ ہزار روپے لے آؤ ۔ وہ لے آیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی طرف سے دو ہزار روپیہ شامل کرتے ہوئے کہا کہ یہ آٹھ ہزار روپیہ لو اور جھگڑا ختم کرو۔ ڈاکٹر صاحب نے جب ایسا کیا تو مالک زمین کو شرم آگئی ۔ وہ اپنا مطالبہ واپس لیتے ہوئے چھ ہزار روپیہ پر راضی ہوگیا۔
ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ بشرطیکہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو دل کو نرم کرنے والا ہے ۔ وہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو دل کے اندر سوئے ہوئے منفی جذبات کو بھڑ کا دیتا ہے اور عداوت کا طوفان برپا کر دیتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں اس دنیا میں مسئلہ کا یقینی حل صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے انصاف کا مطالبہ کرنے کے بجائے صلح پر راضی ہو جانا۔
مسٹر شکیل احمد خاں انجینئر سے بمبئی میں ملاقات ہوئی ۔ انھوں نے بتایا کہ 1978 میں وہ الٰہ آباد میں تھے ۔ ایک روز صبح کو اچانک انھیں معلوم ہوا کہ ان کے مکان کے پچھلے حصہ میں خنزیر کاٹ کر ڈالا ہوا ہے ۔ یہ خبر تیزی سے پھیل گئی اور بستی میں اشتعال پیدا ہونے لگا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت اگر میں ذرا بھی ہوش مندی کے خلاف کرتا تو الٰہ آباد میں فساد ہو جاتا۔ مگر میں نے فوراً پولیس افسر کو ٹیلی فون کیا۔ اس کے بعد پانچ منٹ میں پولیس اپنی گاڑی لے کر آگئی ۔ وہ خنزیر کو اٹھا لے گئی اور جگہ کو پوری طرح صاف کرا دیا۔ پولیس نے مجھ سے نام پوچھا۔ مگر میں نے کسی کا نام نہیں بتایا ۔
میں نے کہا کہ ہر فساد ہمیشہ جو ابی غلطی سے ہوتا ہے۔ اگر ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہ کی جائے تو ہمیشہ کے لیے فساد کی جڑ کٹ جائے گی۔ خنز یر کاٹ کر ڈالنا پہلی غلطی تھی ۔ اب اگر مسٹر شکیل احمد شور وغل کرتے تو یہ دوسری غلطی ہوتی مگر انھوں نے چوں کہ دوسری غلطی نہیں کی ، اس لیے فساد کی صورت پیدا ہونے کے باوجود فساد نہیں ہوا۔
اخبار کی اطلاع سے پونہ کے احباب کو میری بمبئی آمد کی خبر ہو گئی تھی ۔ چنانچہ وہاں سے کچھ لوگ بمبئی آگئے ۔ ان سے ملاقات اور گفتگور ہی ۔ یہ لوگ 7 جون کی تقریر میں شریک رہے۔ بمبئی کے بعض اخباروں کے نمائندے انٹرویو لینا چاہتے تھے ۔ ایک ہندی اخبار کے نمائندے کو وقت بھی دیا جا چکا تھا۔ مگر بھائی صاحب کے انتقال کی وجہ سے پروگرام کی ترتیب باقی نہ رہ سکی ۔ انٹرویو اور بعض دوسرے پروگرام منسوخ کر دینے پڑے۔
بمبئی میں عام ملاقاتوں کے علاوہ تین اجتماعی خطاب ہوئے ۔ دو دو خطاب جیسمین اپارٹمنٹ کی مسجد میں ، اور ایک ڈاکٹر عبد الکریم نا ئک صاحب کی رہائش گاہ پر۔ مسجد کے دونوں خطابات کا موضوع آخرت تھا ، تیسرا خطاب دعوت کے موضوع پر تھا۔ تینوں تقریروں کا ٹیپ بمبئی کے احباب کے پاس موجود ہے۔
بمبئی کے آخری خطاب میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ اس اعتراض کا جواب دیا گیا کہ "الرسالہ مسلمانوں کو اقدام سے روکتا ہے اور پسپائی کا سبق دیتا ہے"۔ میں نے بتایا کہ یہ ایک خود ساختہ الزام ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں اور دوسروں میں جو فرق ہے وہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگ اقدام کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ اور ہم انھیں پسپائی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اصل فرق اقدام کے میدان کے بارےمیں ہے نہ کہ نفسِ اقدام کے بارے میں ۔ دوسرے لوگ ٹکراؤ کے میدان میں اقدام کا سبق دے رہے ہیں، اور ہم مسلمانوں کو دعوت کے میدان میں اقدام کی طرف بلاتے ہیں ۔ قرآن وحدیث سے، نیز تاریخی واقعات سے اس کی وضاحت کی گئی۔
8 جون 1988 کی شام کو انڈین ایئر لائنز کی فلائٹ نمبر 183 کے ذریعہ بمبئی سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ بھائی صاحب مرحوم تین ہفتے سے بمبئی میں تھے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد اگلے ہی دن ان کی وفات ہو گئی تو ایسا معلوم ہوا جیسے اللہ تعالیٰ نے دونوں تاریخیں ایک ساتھ مقر رکر دی ہوں ۔ایک طرف بھائی صاحب اپنی آخرت کی منزل کی طرف روانہ ہوئے ، دوسری طرف میں ان کا آخری دیدار کر کے اپنی دنیوی منزل (دہلی) کے لیے روانہ ہوا۔ کیسی عجیب ہے یہ جدائی ، اور کیسی عجیب ہوگی وہ ملاقات جو دوبارہ آخرت کی دنیا میں تمام لوگوں کی ایک دوسرے کے ساتھ ہوگی۔
دہلی پہنچنے کے بعد الرسالہ اکیڈمی حیدر آباد کا خط ملا کہ اجتماعات کے موقع پر حیدر آباد میں جو اسٹال لگائے گئے تھے وہاں سے لوگوں نے بڑی تعداد میں کتا بیں حاصل کیں ۔ نیز الرسالہ کے خریداروں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا۔ چنانچہ انھوں نے کتابوں کے مزید آرڈر کے ساتھ لکھا تھا کہ تازہ الرسالہ (جون 1988) کے مزید 25 نسخے فوراً روانہ کیے جائیں تاکہ نئے شائقین کو فراہم کیا جاسکے ––––– جو لوگ الرسالہ کے مشن کو بد نام کرنے کی مہم چلا رہے ہیں ، انھیں جاننا چاہتے کہ الرسالہ ایک فکری سیلاب ہے ، اور جو چیز فکری سیلاب ہو اس کو جھوٹے الفاظ کے تنکوں سے روکا نہیں جاسکتا۔