نظریۂ ارتقاء
چارلس ڈارون ( 1882 – 1809) نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ زندگی ارتقائی عمل کے ذریعے ظہورمیں آئی ہے یعنی ابتداء ً پانی اور کیچڑ کے تعامل سے زندگی کا پہلا جرثومہ بنا ۔پھر لمبی مدت تک وہ مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ نوع بن کر تیار ہوئی جس کو انسان کہا جاتا ہے ۔
یہ نظریہ لوگوں کو بہت پسند آیا اور ابتدا میں اس کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ مگر بعد کی بعض تحقیقات نے اس کو ناقابل فہم بنا دیا ۔ اس میں سے ایک زمین کی عمر تھی ۔ سائنسی طریقوں کو استعمال کر کے زمین کی عمر تقریباً متعین طور پر معلوم ہوگئی ۔مگر یہ عمر ارتقائی مفروضہ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی ۔ کیوں کہ سائنس نے زمین کی جو عمر بتائی وہ اتنی کم تھی کہ مفروضہ ارتقائی عمل کے لیے وہ کسی طرح کافی نہیں ہو سکتی ۔
اس دریافت کے بعد ارتقاء پسند علماء نے ایک اور دعویٰ کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ارتقاء کا نظریہ بذات خود صحیح ہے۔ البتہ ارتقاء کا ابتدائی عمل زمین پر نہیں ہوا بلکہ بالائی خلا میں ہوا۔ بالائی خلا میں ستاروں کے اوپر زندگی کا ابتدائی جرثومہ تیار ہوا۔ پھر وہ وائرس اور بیکٹیریا کی صورت میں دمدار ستارہ (Comet) کی دم پر سوار ہو کر زمین تک پہنچا ۔ اس نظریہ کے علم بردار خاص طور پر دو امریکی سائنس داں تھے ، ان کے نام یہ ہیں :
1. Fred Hoyle, 2. Carl Sagan
مگر اب یہ نظر یہ بھی بالکل بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔ روس کا ایک خلائی جہاز ویگا (1 Vega) ہر قسم کے آلات سے لیس ہو کر بالائی خلا میں گیا اور وہ ہیلی دمدار ستارہ (Halley's comet) کی دُم کے پاس سے گزرا۔ اس کے آلات نے جو معلومات ریکارڈ کی ہیں، ان سے معلوم ہوا ہے کہ اس کی دم کے اندر وہ ضروری اجزاء موجود نہیں جن سے زندہ خلیے (Living cells) ترکیب پاتے ہیں۔ چنانچہ ساگن(پروفیسر کارنیل یونیورسٹی ، نیو یارک) جنھوں نے 30 سال تک بالائی خلا زندگی کے موضوع پر تحقیق کی ہے ، انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ویگا کی دریافتوں نے خلائی زندگی (Life-from-space) کے نظریہ کو بے بنیاد ثابت کر دیا ہے ۔ (ٹائمس آف انڈیا 3 مئی 1988)