اسوهٔ ابراہیمی
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ صبر اور اعراض کو کمتر درجہ کی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ مجاہدانہ جوش کے تحت فوراً میدان ِمقابلہ میں کود پڑے ۔ اس قسم کے اقدام کو وہ اسوۂ ابراہمی قرار دیتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھئے کہ اس جہا دیا اسوۂ ابراہیمی کا ماخذ کیا ہے تو وہ فوراً اقبال کا یہ شعر پڑھ دیں گے :
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شاعر کی خود ساختہ خیال آرائی ہے نہ کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا اسوہ ۔اس شعر میں حضرت ابراہیم کی جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ سراسر خلافِ واقعہ ہے۔ اس کا تعلق نہ قرآن وحدیث سے ہے اور نہ تاریخ سے ۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم بن آزر علیہ الصلوة والسلام عراق میں پیدا ہوئے ۔ اس وقت وہاں مکمل طور پر شرک کا غلبہ تھا۔ آپ نے ان کو توحید کی طرف بلایا ۔ اور اپنی طرف سے کسی بھی قسم کا ٹکراؤ پیدا کیے بغیر خالص پُر امن انداز میں اس کی دعوت دیتے رہے۔ قوم کے سردار جو بت پرستی کے اوپر اپنی سرداری قائم کیے ہوئے تھے ، وہ آپ کے دشمن ہو گئے۔ انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کو جلا کر ختم کر دیں ۔قَالُوْا حَرِّقُـوْهُ (الأنبياء: 68)
روایات بتاتی ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے ایک گڑھا کھودا۔ اس گڑھے میں لکڑیاں ڈال کر اس میں آگ لگا دی۔ جب آگ خوب بھڑکنے لگی، اس وقت انھوں نے حضرت ابراہیم کو پکڑ کر انھیں باندھا ، باندھ کر ان کو منجنیق میں رکھا۔ اور منجنیق کے ذریعہ آپ کو آگ میں پھینک دیا (ثم أوثقوا إبراهیم وجعلوه في منجنيق ورموه في النار ، صفوة التفاسير ( المجلد الثانی ، صفحہ 268)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے تھے نہ کہ آگ میں کو دپڑے تھے ۔ یہ جبر کا معاملہ تھانہ کہ اختیار کا۔ مذکورہ شعر حضرت ابراہیم کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ نہ صرف خلافِ واقعہ ہے بلکہ خلافِ اسلام بھی ہے ۔ یہ ہرگز اسلام یا پیغمبروں کا اسوہ نہیں کہ آدمی بے خطر آگ میں کود پڑے۔ پیغمبروں کا اسوہ لوگوں کو آگ سے نکالنے کی کوشش کرنا ہے نہ کہ خواہ مخواہ آگ میں کود پڑنا ۔