زندہ قوم، زوال یافتہ قوم

عبد المحیط خان (1932-2010)میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ انھوں نے 1955 میں بنارس ہندو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے بنارس ہندو یونیوسٹی کا اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا۔

ہندویونیورسٹی میں ان کو لمڈی ہاسٹل (LIMDI Hostel) میں رکھاگیا۔ اس ہاسٹل کے ہر کمرے میں دو طالب علم کے رہنے کا انتظام تھا۔ ہمارے بھائی کا داخلہ ہوا، تو وہاں کے وارڈن مسٹر وی۔ پی پانڈے (V.P. Panday) نے کہا کہ تم مسلمان ہو۔ تم کو نماز اور قرآن پڑھنا ہوگا، اس لیے میں تم کو ایک غیر مشترک کمرہ دیتا ہوں، تاکہ تم کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ یونیورسٹی کے قاعدہ کے مطابق، صرف مانیٹر کو تنہا اورغیر مشترک کمرہ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مسٹر پانڈے نے ہمارے بھائی کو مانیٹر بنا دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تو پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں، مانیٹری میں کیسے کروں گا۔ مسٹر پانڈے نے کہا تم کچھ مت کرنا،صرف رجسٹر پر دستخط کر دینا، اور بس۔ بقیہ کام دوسرے لوگ کردیں گے۔چنانچہ ہمارے بھائی تعلیم کی پور ی مدت میں اس کمرہ میں غیر مشترک طورپر رہے۔

میرے بھائی نے بتایا کہ اس واقعہ کا ذکر انہوں نے یوپی کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے کیا۔ انہوں نے یہ بات سن کر میرے بھائی سے کہا کہ’’مسٹر خان، پانڈے نے نہایت ہوشیاری سے آپ کواچھوت بنا دیا۔‘‘ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا عام مزاج ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر منفی مزاج (negative mentality) کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کو ہر واقعہ میں صرف منفی پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ مثبت واقعات میں بھی وہ کوئی نہ کوئی منفی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اوپر کا واقعہ ہے۔

یہ زوال یافتہ قوم کا حال ہے۔ مگر جب کوئی قوم عروج کی حالت میں ہو تو اس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کو ہر واقعہ میں مثبت پہلو دکھائی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ایجابی مزاج کی بنا پر اس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ منفی واقعہ میں بھی مثبت پہلو دریافت کرلے۔

دور اول کے مسلمانوں کے اندر یہ صفت کامل طورپر موجود تھی۔ اس کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ خلیفہ ٔ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں مسلم فوجیں ایران میں داخل ہوئیں۔ ان کے اقدامات اتنے کامیاب تھے کہ ایرانی فوجی اپنا حوصلہ کھو بیٹھے۔ وہ ان کے بارے میں کہنے لگے: دیواں آمدند، دیواں آمدند (دیو آگئے، دیو آگئے)الأخبار الطوال للدینوری، صفحہ126۔ اس وقت ایرانی حکومت نے جنگ کو روک کر گفت وشنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران مسلم فوج کے کئی وفد ایرانیوں سے ملے۔ آخری وفد عاصم بن عمرو کا تھا۔ انہوں نے شاہ ایران یزدگرد کے دربار میں پہنچ کر جس بے باکی کا مظاہرہ کیا اس سے شاہ ایران غصہ ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ مٹی کاایک ٹوکرا لایا جائے۔ اس کے بعد اس نے صحابی کے سرپر مٹی کا یہ ٹوکرا رکھوایا اور حکم دیا کہ ان کو اسی حال میں شہر کے باہر نکال دو۔صحابی اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر واپس روانہ ہوئے۔ وہ اسلامی فوج کے سردار سعد بن ابی وقاص کے خیمہ میں پہنچے اور مٹی کا ٹوکرا ان کے سامنے رکھ کر پورا قصہ بتایا۔

شاہ ایران کا یہ سلوک بلاشبہ سخت اشتعال انگیز تھا۔ مگر حضرت سعد غصہ نہیں ہوئے۔ اس کے بجائے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کو خوش خبری ہو کیوں کہ خدا کی قسم انہوں نے اپنے ملک کی کنجیاں ہمارے حوالے کر دیں۔مٹی کا ٹوکرا دینے سے انہوں نے یہ فال لیا کہ ایرانیوں نے خود ہی اپنا ملک ہمارے حوالہ کردیا ہے۔(أَبْشِرُوا فَقَدْ وَاللَّہِ أَعْطَانَا اللَّہُ أَقَالِیدَ مُلْکِہِمْ. وَتَفَاءَلُوا بِذَلِکَ أَخْذَ بِلَادِہِمْ) البدایۃ والنہا یۃ، جلد 9، صفحہ628۔

اس تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ زوال کی نفسیات اور عروج کی نفسیات میں کیا فرق ہے۔ زوال کی نفسیات میں مبتلا لوگ محرومی کے احساس میں جیتے ہیں، چنانچہ وہ ہر واقعہ سے منفی غذا لینے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ عروج کی نفسیات میں جیتے ہوں، وہ ہر واقعہ سے مثبت غذ۱ لیتے ہیں۔ وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ انتہائی ناموافق حالات میں بھی موافق پہلو تلاش کرلیں، حتیٰ کہ اپنے minus کو بھی اپنے plus میں تبدیل کرلیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom