ایک پروفیسر کا واقعہ
دہلی کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کا قصہ مجھے معلوم ہوا۔ وہ بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ان کے پاس سواری کے لیے ایک بائیسکل کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ ان کے بچے جب بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنے باپ سے کہا کہ اتنے دنوں سے آپ سروس کررہے ہیں اور آپ کے پاس سواری کے لیے ایک بائیسکل کے سواکچھ اور نہیں۔ حالاں کہ یہاں دوسرے لوگوں کے پاس کار ہے، جس پر وہ اور ان کی فیملی کے لوگ سواری کرتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ میری عمر تو بائیسکل پر گزر گئی، اب اگر تم لوگ کار چاہتے ہو، تو خود کما کر کار خرید لو۔ میں تو اپنے لائف اسٹائل کو بدلنے والا نہیں ہوں۔
اس واقعے میں یہ سبق ہے کہ باپ کو اپنے بیٹے کے حق میں کیسا ہونا چاہیے۔ باپ کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ سادہ زندگی گزارے، وہ قناعت کے اصول پر قائم رہے، اور بیٹوں کو یہ موقع دے کہ وہ خود محنت کرکے اپنی آمدنی بڑھائیں۔ وہ اپنی کمائی سے کار خریدیں، اور گھر بنائیں۔ باپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بیٹے کے لیے کمائی کرے۔ بیٹے کی ترقی خود اپنی محنت کی کمائی سے ہوگی، نہ کہ باپ کی کمائی سے۔
جو باپ اپنے بیٹے کے ساتھ ایسا سلوک کرے، اس کے بیٹے کے اندر اپنے آپ اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا ہوگا۔ اس کے اندر محنت کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے اندر خود اعتمادی کی صفت پیدا ہوگی۔ وہ سادہ زندگی کی اہمیت کو سمجھے گا۔ وہ سماج کو دینے والے (giver) ممبر بنے گا، نہ کہ لینے والا(taker)۔ اس کے اندر شکایت کی نفسیات نہیں پیدا ہوگی، بلکہ وہ مثبت نفسیات کا حامل انسان بن کر تیار ہوگا۔ اس کے اندر سادگی کی نفسیات پرورش پائے گی، جو کہ اعلیٰ اخلاقیات کی اصل ہے۔ ایسا انسان حقیقت پسند انسان بنے گا۔ ایسا انسان اپنے سماج کا پرابلم ممبر نہیں بنے گا، بلکہ وہ اپنے سماج کا مفید ممبر بنے گا۔اچھا انسان اچھی تربیت سے بنتا ہے، نہ کہ لاڈ پیار (pampering) کی کثرت سے۔