پیغمبرانہ ماڈل سے انحراف

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 570 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ پر پہلی وحی 610 ء میں اُتری۔ یہ قرآن کی سورہ نمبر 96 کی ابتدائی آیتیں تھیں۔ اِس کے بعد دوسری وحی المدثّر کی صورت میں اُتری، جو مصحف کی موجودہ ترتیب میں سورہ نمبر 74 کی حیثیت سے شامل ہے۔

سورہ المدثر میں آپ کو آپ کا دعوتی مشن بتاتے ہوئے کہاگیا:قُمْ فَأَنْذِرْ (74:2)۔یعنی تم لوگوں کو بتادو کہ ان کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور جلد ہی یوم الدین (Day of Judgement) آنے والا ہے، جب کہ سارے انسان حساب کے لیے خداوندِ ذوالجلال کے سامنے حاضر کیے جائیں گے اور اُن کے دنیوی ریکارڈ کے مطابق، اُن کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔سورہ المدثر میں یہ دعوتی حکم دیتے ہوئے مزید یہ کہاگیا تھا:وَلِرَبِّکَ فَاصْبِر (74:7)۔ یعنی تم پوری یکسوئی کے ساتھ اِس دعوتی مشن میں لگ جاؤ اور تمام غیر دعوتی مسائل سے اپنے آپ کو پوری طرح دور رکھتے ہوئے دعوت الی اللہ کا یہ کام انجام دو۔

دعوتِ حق کا یہی ابدی اصول ہے۔ یعنی دعوتی کام میں مکمل یکسوئی، اور غیر دعوتی چیزوں سے مکمل اعراض۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی اصول کا عملی نمونہ ہے۔ مثال کے طورپر مکہ کے تیرہ سالہ دور میں عرب کے سرداروں کی طرف سے آپ کو اقتدار کی پیش کش کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ:وَإِنْ کُنْتَ تُرِیدُ بِہِ مُلْکًا مَلَّکْنَاکَ عَلَیْنَا۔یعنی اگر تم اقتدار چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنے اوپر بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے اِس پیش کش کو نا منظور کرتے ہوئے فرمایا:مَا جِئْتُ بِمَا جِئْتُکُمْ بِہِ أَطْلُبُ أَمْوَالَکُمْ، وَلَا الشَّرَفَ فِیکُمْ، وَلَا الْمُلْکَ عَلَیْکُمْ، وَلَکِنَّ اللَّہَ بَعَثَنِی إلَیْکُمْ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَیَّ کِتَابًا، وَأَمَرَنِی أَنْ أَکُونَ لَکُمْ بَشِیرًا وَنَذِیرًا(سیرۃ ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 295-96) یعنی میں جو کچھ لے کرتمھارے پاس آیا ہوں، میں اس کو اس لیے نہیں لایا ہوں کہ میں تمھارا مال طلب کروں، یا تمھارے درمیان فوقیت حاصل کروں، یا تمھارے اوپر بادشاہ بنوں (I seek not sovereignty over you.)، لیکن اللہ نے مجھے تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، میرے اوپر کتاب نازل کی ہے، اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھارے لیے بشیر و نذیر بن جاؤں۔

دعوت (اِنذار و تبشیر) کا کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا زیادہ اہم ہے کہ داعیوں کے لیے یہ ضروری قرار دیاگیا ہے کہ وہ ہر مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تمام توانائی صرف اِس ایک کام میں لگائیں۔ اور قیامت تک نسل در نسل یہی کام انجام دیتے رہیں۔ پیغمبر نے اپنے زمانے میں اِس اصول کے مطابق، اپنی دعوتی ذمّے داری ادا کی اور آپ کے بعد آپ کی امت کو ہر دور میں اِسی اصول کا اتباع کرتے ہوئے دعوتی کام انجام دینا ہے۔

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس معاملے میں اپنی امت کو واضح ہدایات دی ہیں۔ خاص طورپر آپ نے امت کو شدت کے ساتھ تلقین فرمائی کہ تم لوگ سیاسی نزاعات سے دور رہو۔ کیوں کہ سیاسی نزاعات میں الجھنا صرف اِس قیمت پر ہوگا کہ دعوت الی اللہ کا کام رُک جائے گا۔ اِس بارے میں کتبِ احادیث میں کتاب الفتن کے تحت کثرت سے روایتیں موجود ہیں، اِن روایتوں کا خلاصہ اس حدیثِ رسول میں پایا جاتا ہے:أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی ان کا حق ان کو ادا کرو، اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کے حقوق بلا اختلاف ادا کرتے رہو، اور خدا کی طرف سے تم پر جو ذمّے داری ڈالی گئی ہے، اُس کو پوری یکسوئی کے ساتھ انجام دیتے رہو، اور اپنے حقوق کے معاملے میں ٹکراؤ کے راستے پر جانے کے بجائے خدا سے دعا کرو۔ اِس معاملے میں احادیث اتنی زیادہ واضح ہیں کہ علمائے امت نے اِجماعی طورپر، حکمرانوں سے ٹکراؤ (خروج) کو فعل ِ حرام قرار دے دیا ہے۔

اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک اِس اصول پر عمل جاری رہا۔ بعض انفرادی مثالوں کو چھوڑ کر برابر ایسا ہی ہوتا رہا کہ امت کی عظیم اکثریت نے اِس اصول کا التزام کیا، تاکہ اسلام کا مثبت دعوتی عمل بلا توقف جاری رہے۔

خلافتِ راشدہ کے آخری زمانے میں بنو ہاشم اور بنو اُمیّہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اُس وقت اصحابِ رسول بڑی تعداد میں موجود تھے، لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ اس ٹکراؤ سے اصحابِ رسول تقریباً مکمل طورپر علاحدہ رہے۔ یہ جنگ عملاً دو قبیلوں کی جنگ تک محدود رہی، اصحابِ رسول اُس میں شریک نہیں ہوئے۔

اِس کے بعد بنو امیہ کا دور آیا۔ اُس زمانے میں سیاسی بگاڑ بڑے پیمانے پر پیدا ہو چکا تھا، لیکن صحابہ اور تابعین نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ سیاسی اصلاح کے نام پر بنو امیہ سے جنگ چھیڑ دیں۔صحابہ اور تابعین کی پوری جماعت اِس زمانے میں اُسی اصول پر قائم رہی جو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا، یعنی سیاسی ٹکراؤ سے اعراض اور تعلیم اور دعوت کے میدان میں اسلام کی خدمت انجام دیتے رہنا۔

اِس کے بعد مسلم تاریخ کا وہ دور آیا جس کو بنو عباس کا دور کہا جاتا ہے۔ اِس دور میں بھی مبیّنہ طورپر حکم رانوں میں ہر قسم کے سیاسی بگاڑ موجود تھے۔ مثلاً انھوں نے اسلامی خلافت کو خاندانی ملوکیت میں تبدیل کردیا، وغیرہ۔ اُس زمانے میں علمائے امت کی بڑی تعداد موجود تھی، جن کو عام طور پر محدثین اور فقہاکہاجاتا ہے۔ محدثین اُس زمانے میں خواص امت کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے آپ کو مکمل طورپر سیاسی نزاعات سے دور رکھا۔ انھوں نے اپنی ساری طاقت حدیث کی جمع وتدوین میں لگادی۔ اِس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج حدیث کا ذخیرہ محفوظ حالت میں ہمارے پاس موجود ہے۔

بنو عباس کے اِس عہد میں علما کا دوسراگروہ پیدا ہوا، جس کو عام طورپر فقہائے اسلام کا گروہ کہاجاتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، فقہا کے زمانے میں ہرقسم کے سیاسی بگاڑ پائے جارہے تھے، لیکن اِن فقہا نے سیاسی بگاڑ میں اصلاح کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ مثلاً انھوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ ملوکیت کو ختم کرکے دوبارہ خلافت کا نظام قائم کریں۔ فقہا کی جماعت نے یا تو اپنے زمانے کے حکم رانوں سے موافقت کا طریقہ اختیار کیا، یا اُن سے الگ رہ کر وہ یکسوئی کے ساتھ اسلام کی خدمت کے کام میں لگے رہے۔ اِسی پالیسی کا یہ نتیجہ تھا کہ فقہ کی تدوین کا عظیم کام انجام پایا۔

اِس کے بعد وہ دور آتا ہے جس کو صوفیا کا دور کہاجاتا ہے۔ یہ دور بنوعباس کے آخری زمانے میں شر وع ہوا، اور مغل کے خاتمے تک پوری طاقت کے ساتھ جاری رہا۔ اِس زمانے میں بھی وہ حالات مسلسل طور پر جاری رہے، جن کو سیاسی بگاڑ کہاجاتا ہے۔ لیکن صوفیا نے کبھی اپنے آپ کو سیاسی معاملات یا سیاسی نزاعات میں نہیں الجھایا۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ دعوت اور اصلاح کے غیر سیاسی کام میں مصروف رہے۔ اِس کے نتیجے میں ایک طرف یہ ہوا کہ امت کی اخلاقی تربیت ہوتی رہی اور دوسری طرف، اسلام کی دعوتی توسیع عالمی سطح پر جاری رہی۔

یہ عمل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک جاری رہا۔ یہ ایک عظیم ربّانی حکمت تھی۔ یہ حکمت اِس بات کی ضامن بن گئی کہ سیاسی بگاڑ، یا دُنیوی مسائل کے باوجود دعوت الی اللہ کا بنیادی کام بلا توقف تاریخ میں جاری رہے۔

یہ دعوتی تسلسل پہلی بار انیسویں صدی میں ٹوٹتا ہے، جب کہ مغربی استعمار کا وہ دور آیا جس کو نوآبادیاتی نظام (colonialism) کہا جاتا ہے۔ اِس دور سے پہلے مسلم تاریخ کا وہ دور چلا آرہا تھا جس کو ایک اعتبار سے سیاسی ایمپائر کا دور کہا جاسکتا ہے۔ مغربی نوآبادیات کے دور میں مسلمانوں کا یہ سیاسی ایمپائر عملاً ٹوٹ گیا۔ یہ ایک قسم کے سیاسی بُحران (political crisis) کا معاملہ تھا، اُس وقت اُس رہنمایانہ صلاحیت کی ضرورت تھی، جس کو کرائسس مینج منٹ(crisis management) کہاجاتا ہے۔ اگر چہ اُس وقت عالمی سطح پر مسلمانوں کے اندر بڑے بڑے دماغ موجود تھے، لیکن یہ لوگ اِس بحران میں مطلوب رہ نمائی کا ثبوت نہ دے سکے۔ وہ اِس کے مقابلے میں مثبت عمل کے بجائے منفی ردّ عمل کا شکار ہو کر رہ گئے۔

اِس معاملے میں غالباً پہلا نمایاں نام سید جمال الدین افغانی (وفات1897ء) کا ہے۔ اُن کے زمانے میں ترکی اور ایران اور ہندستان میں ابھی تک مسلم سلطنتیں موجود تھیں۔ اِن سلطنتوں نے سید جمال الدین افغانی کے ساتھ غیر معمولی تعاون کا معاملہ کیا۔ لیکن سید جمال الدین افغانی پر سیاسی طرز فکر اتنا غالب تھا کہ وہ مسلم حکمرانوں کے تعاون اور امت کے درمیان اپنی مقبولیت کا مثبت استعمال نہ کرسکے۔ وہ آخر وقت تک منفی سیاست میں مبتلا رہے، یہاں کہ اِس راہ میں اُن کا خاتمہ ہوگیا۔

اِسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد (1888-1958) ہندستان کے ایک بڑے مسلم رہ نما تھے۔ ان کو اپنے زمانے میں غیر معمولی مواقع ملے۔ وہ اِن مواقع کو استعمال کرکے دعوت اور اصلاح کا کام بڑے پیمانے پر کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے اپنی بہترین صلاحیت کو برٹش ایمپائر کے خلاف لڑنے میں ضائع کردیا، اور اُن کے زمانے کے بہترین مواقع برباد ہوکر رہ گئے۔

اِسی طرح عرب دنیا میں سید قُطب (1906-1966) کو غیر معمولی مواقع ملے، حتی کہ ان کے ہم عصر مصری حکمراں جمال عبدالناصر (1918-1970) نے اُنھیں یہ پیش کش کی کہ وہ تعلیم (education) کی وزارت کو لے لیں، اور قوم کو اسلامی اصولوں پر ایجوکیٹ کرنے کا بنیادی کام کریں۔ لیکن دوبارہ یہی ہوا کہ سید قطب اپنے سیاسی ذہن کی بنا پر تعلیم کی اہمیت کو نہ سمجھ سکے اور نزاعی سیاست میں الجھ گئے۔ وہ اسی بے فائدہ کام میں مشغول رہے، یہاں تک کہ اُن کا آخری وقت آگیا۔

یہی معاملہ سید ابو الأعلیٰ مودودی (1903-1979)کے ساتھ پیش آیا۔ انھوں نے اسلام کی سیاسی تشریح کی تھی، اِس لیے اُن کو کرنے کا سب سے بڑا کام یہ نظر آتا تھا کہ ’’سیاسی انقلاب‘‘ برپا کرنے کی کوشش کی جائے۔ صدر محمد ایوب خاں (1907-1974) پاکستان میں اُن کے ہم عصر حکمراں تھے۔ انھوں نے سید ابوالأعلیٰ مودودی کو یہ پیش کش کی کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر ایک نیشنل یونیورسٹی بنائی جائے۔ وہ اس کا مکمل چارج سید ابوالأعلیٰ مودودی کو دینے کے لیے تیار تھے۔ صدر محمد ایوب خاں کا ماننا یہ تھا کہ پاکستان کے نام سے ایک ملک بن گیا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو اسلامی اصولوں پر تعلیم و تربیت دے کر اُنھیں مستقبل کی تعمیر کے لیے تیار کیا جائے۔ لیکن سید ابوالأعلیٰ مودودی کو اِس کام کی اہمیت سمجھ میں نہ آئی۔ وہ صدر محمد ایوب خاں کو حکمرانی کے مقام سے ہٹانے کی مہم میں لگ گئے۔ اِس کا نتیجہ صرف ناکامی کی صورت میں نکلا۔ سید ابو الأعلیٰ مودودی کی سیاسی سرگرمیوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا،یہاں تک کہ 1979 میں وہ وفات پاگئے۔

اِس فہرست میں ایک اور نام میرے نزدیک، بے نظیر بھٹو (1953-2007)کا بھی ہے۔ بے نظیر بھٹو اگر چہ مذہبی شخصیت نہ تھی، لیکن انھیں اِس میدان میں کام کا نہایت اعلیٰ موقع ملا۔ بے نظیر بھٹو کی تعلیم یورپ اور امریکا میں ہوئی تھی۔ انگریزی زبان پر انھیں پوری قدرت حاصل تھی۔ وہ دوبار پاکستان کی پرائم منسٹر بنیں۔ اِس طرح کے مختلف اسباب سے انھیں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ آخری زمانے میں جب کہ وہ لندن میں مقیم ہوگئی تھیں، ان کو مغرب کے اداروں اور یونیورسٹیوں کی طرف سے اسلام پر لیکچر دینے کے لیے بلایا جانے لگا۔

موجودہ زمانے میں اسلام کی ایک بہت بڑی ضرورت وہ ہے، جس کو امیج بلڈنگ (image building) کہا جاتا ہے، یعنی اسلام کی بگڑی ہوئی تصویر کی تصحیح کرنا۔ بے نظیر بھٹو اپنی خصوصی حیثیت کی بنا پر یہ کام اعلیٰ درجے پر کرسکتی تھیں۔ لیکن یہ کام شاید ان کو ایک کمتر کام نظرآیا۔ وہ غالباً سیاسی قیادت کے شوق میں پاکستان دوبارہ لوٹ آئیں، مگر نتیجہ صرف یہ نکلا کہ چند دن کے سیاسی ہنگامے کے بعد 28 دسمبر 2007 کو اُنھیں گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ بوقت وفات ان کی عمر صرف 54 سال تھی۔

یہی معاملہ عراق کے حکمراں صدام حسین (1937-2006)کے ساتھ پیش آیا۔ صدام حسین کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ عرب حکمرانوں میں سب سے زیادہ ذی علم آدمی تھے۔ ان کے حالات نے اُن کو موقع دیا کہ وہ عراق میں مطلق حکم راں کی حیثیت حاصل کرلیں۔ اِس طرح انھوں نے عراق میں تقریباً 25 سال تک حکمرانی کی۔انھوں نے انتہائی غیر حقیقت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے، وہ جنگ چھیڑ دی جس کو وہ امّ المعارک (mother of battles) کہتے ـتھے۔ اِس مفروضہ جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے انھوں نے ناعاقبت اندیشانہ اقدامات کیے۔ انھوں نے غیر ضروری طورپر امریکا سے جنگ چھیڑ دی۔ جس کا متوقع انجام صرف یہ ہوا کہ اُن کو 30 دسمبر 2006 کو خود اپنے ملک عراق میں پھانسی دے دی گئی۔

اُس وقت صدام حسین کے پاس عراق کے مختلف مقامات پر بڑے بڑے محل تھے۔ اِس کے علاوہ، ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں کئی بلین ڈالر موجود تھے۔ اُن کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ اقتدار کے بجائے ایجوکیشن کو اپنا نشانہ بنائیں۔ اگر وہ اِس طرح تعمیری انداز میں سوچتے تو وہ یقینی طورپر عراق میں کم از کم 8 بڑے بڑے تعلیمی سنٹر قائم کرسکتے تھے۔ یہ اُن کے لیے اپنی زندگی کا بہترین استعمال ہوتا، اور وہ اُن کے بعد اُن کے لیے ایک عظیم صدقۂ جاریہ بن جاتا، لیکن وہ ایسا نہ کرسکے، اور صرف ناکامی کی موت مرکر اِس دنیا سے چلے گئے۔

مسلمانوں کے خطیب پُر جوش الفاظ کے ذریعے مسلمانوں کے ہر فعل کو کم از کم الفاظ کی دنیا میں جائز ثابت کر رہے ہیں۔ مثلاً آج کل مسلمان اپنی منفی سوچ اشتعال کی بنا پر مختلف مقامات پر گن کلچر چلا رہے ہیں، حتی کہ وہ خود کُش بم باری کرتے ہیں۔ اِس بنا پر دوسرے لوگ اُنھیں ٹررسٹ (terrorist) کہنے لگے ہیں۔ اب ایک خطیب اسٹیج پر آتا ہے اور پُرجوش انداز میں کہتا ہے — ہاں، ہم ٹررسٹ ہیں، لیکن ہم ٹررسٹ کس کے لیے ہیں۔ ہم مجرموں کے لیے ٹررسٹ ہیں، جیسا کہ پولس ہوتی ہے:

Every Muslim should be a terrorist. A terrorist is a person, who causes terror. The moment a robber sees a policeman, he is terrified. A policeman is a terrorist for the robber. Similarly, every Muslim should be a terrorist for the anti-social elements of society, such as thiefs, dacoits, and rapists. Whenever, such an anti-social element sees a Muslim, he should be terrified.

اِن باتوں کو سن کر مسلمان خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، حالاں کہ یہ سر تاسر ایک لغو بات ہے۔ مجرموں کے خلاف کارروائی کرنا پولس اور عدالت کا کام ہے، وہ عوام کا کام نہیں۔ عام مسلمان کا کام پُرامن نصیحت کرنا ہے، نہ کہ انھیں ٹررائز (terrorize) کرنا۔ اِس قسم کی بات اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے، اور سیکولر قانون کے بھی خلاف۔ حیرت یہ ہے کہ مسلمان اِس قسم کی باتیں سن کر صرف تالیاں بجاـتے ہیں۔ اگر وہ مجرمین کے خلاف ٹررسٹ بن جائیں تو وہ خود قانون کی نظر میں مجرم قرار پائیں گے، اور سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom