جاننے والوں کا نہ جاننا
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ الیکشن سے پہلے ہمارے اسکول کے تمام اسٹودنٹ، ایک کمیونٹی والے اور دوسری کمیونٹی والے،دونوں مل جل کر رہتے تھے۔ لیکن الیکشن کے بعد ان کے اندر دوری آگئی۔ ہر کمیونٹی کا اسٹودنٹ دوسری کمیونٹی کے اسٹوڈنٹ کو اپنا غیر سمجھنے لگا۔
اس صورتِ حال کا الزام وہ پوری طرح دوسری کمیونٹی کو دے رہے تھے۔ یہی تمام لوگوں کا حال ہے۔ تمام لوگ صورتِ حال کی ذمے داری تمامتر دوسری کمیونٹی پر ڈالے ہوئے ہے۔ وہ اپنی کمیونٹی کو مکمل طور پر معصوم، اور دوسری کمیونٹی کو مکمل طور پر ذمے دار سمجھتے ہیں۔ یہ سراسر بے خبری کی بات ہے۔ نیوٹن (1643-1727)کا مشہور فارمولاہے— ہر عمل کا برابر مگر مخالف ردعمل ہوتا ہے:
For every action, there is an equal and opposite reaction.
یہ ایک فطرت کا قانون ہےجس کو نیوٹن نے دریافت کیا تھا، اس لیے اس کو نیوٹن سے منسوب کردیا گیا۔ نیوٹن نے یہ فارمولا مٹیریل ورلڈ کے بارے میں دریافت کیا تھا، لیکن یہی فارمولا خود انسانی دنیا پر بھی منطبق (apply) ہوتا ہے۔ مادی دنیا میں یہ فارمولا غیر شعوری انداز میں منطبق ہوتا ہے، اور انسانی دنیا میں یہ فارمولا شعور کے ساتھ منطبق ہوتا ہے۔
پچھلے دو الیکشن میں ایک کمیونٹی نے سارے ملک میں اس پالیسی پر عمل کیا کہ مخالف پارٹی کو ہراؤ۔ اس نشانے کے لیے پورے ملک میں ایک ملک گیر تحریک چلائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری پارٹی میں اس کا ری ایکشن ہوا۔ ایک کمیونٹی نے جب دوسری کمیونٹی کے بارے میں یہ ایجنڈا اختیار کیا کہ ہمیں دوسری کمیونٹی کو ہرانا ہے، تو دوسری کمیونٹی کے لوگوں میں اس کے رد عمل کے طور پر یہ ذہن عام ہوگیا کہ ہم کو اپنی کمیونٹی کو جتانا ہے۔ غیریَّت(Otherness ) کے اس ماحول میں فطری طور پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ ہارنے والی کمیونٹی کے بس میں صرف نفرت تھی، اس نے نفرت کی بات کا چرچا کیا۔ جیتنے والی کمیونٹی کے پاس طاقت تھی، اس نے ہارنے والی کمیونٹی کو اپنے انتقام کا شکار بنایا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں جیتنے والی کمیونٹی کے حصے میں تو صرف نفرت آئی۔ لیکن ہارنے والی کمیونٹی کے حصے میں فطری طور پر انتقام آیا۔ اب ہارنے والی کمیونٹی اس انتقام کا شکار ہورہی ہے۔ یہ غیریَّت(otherness) کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔
اب دوسری کمیونٹی کو دشمن بتاکر اس کو بُرا بھلا کہنا، یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ طریقہ صرف نقصان میں اضافہ کرنے والا ہے۔ اس طریقے کا نقصان یہ ہوگا کہ ہر موڑ پر، ہر معاملے میں ہارنے والی کمیونٹی کو جیتنے والی کمیونٹی کی انتقامی کارروائی کا تجربہ ہوگا۔ نفرت کے جواب میں مزید نفرت پیدا ہوگی۔ مسائل بڑھیں گے۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ ہارنے والی کمیونٹی کو پہلے جو کچھ ملا ہوا تھا، وہ بھی اس سے چھن جائے گا۔ قدیم روایتیں سب کی سب ٹوٹ جائیں گی۔ مغایرانہ پراسس (othering process) اتنا زیادہ بڑھے گا کہ راستے میں، بازار میں، اسکول اور کالج میں، ہر جگہ ہارنے والی پارٹی کو اس کا انجام بھگتنا پڑے گا۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے ہارنے والی کمیونٹی کو اس بات کا دل سے اعتراف کرنا ہوگا کہ اس کی پالیسی غلط تھی۔ وہ اپنے لیڈروں کی جذباتی باتوں کا شکار ہوگئے۔ اب ہارنے والی پارٹی کو یہ کرنا ہوگا کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر بدلے۔ وہ غیریت کے بجائےاپنا پن کا طریقہ اختیار کرے، وہ نفرت کے بجائے انسانوں سے محبت کرنا سیکھے۔ وہ دوسرے کی شکایت کرنے کے بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے والی کمیونٹی بنے۔
وہ قرآن کی ان آیات کی حکمت کو سمجھے، اور ان کو دل سے اپنی زندگی میں اپنائے:(ترجمہ) اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔ اور اگر شیطان تمہارے دل میں کچھ وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ بیشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (41:34-36)