رحمت، سیف
قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمة للعالمین (الانبیاء، 21:107) کہاگیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ آپ نےکہا: وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2355) یعنی میں رحمت والا نبی ہوں۔ ایک طرف پیغمبر اسلام کی حیثیت کے بارے میں اس قسم کے کھلے بیانات ہیں۔ دوسری طرف حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:إِنَّ اللَّہَ بَعَثَنِی بِسَیْفِی بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَةِ، وَجَعَلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی (سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 2370)یعنی بےشک اللہ نے قیامت سے پہلے مجھے میری تلوار کے ساتھ بھیجاہے، اور میرا رزق میرے نیزے کے سایے کے نیچے رکھ دیاہے۔
یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے مختلف نظر آتی ہیں۔ مگر ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ در حقیقت دو الگ الگ پہلو ہیں۔ رحمت کی بات ایک پہلو سے کہی ہے،اور سیف کی بات دوسرے پہلو سے۔اصل یہ ہے کہ صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی رحمت کے پیغمبر نہ تھے، بلکہ خدا نے جتنے پیغمبر بھیجے وہ سب پیغمبر رحمت ہی تھے۔ سب کے سب دینِ رحمت ہی لے کر آئے۔ مثال کے طورپر قرآن میں حضرت موسی کی کتاب کو رحمت فرمایا گیا ہے (سورہ ھود، 11:17)۔ مگر فرق یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کے ساتھ کوئی طاقت ور ٹیم تیار نہ ہوسکی، جو پیغمبروں کے مشن کے حق میں موثر طورپر حمایت اور دفاع کا کام کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلے پیغمبروں کے مشن کو مخالفین نے عملی طورپر آگے بڑھنے نہیں دیا۔پچھلے پیغمبروں کے زمانہ میں خدا کا دین صرف فکری تحریک کے مرحلہ میں رہا، وہ فکری انقلاب کے مرحلہ تک نہیں پہنچا۔
اس کے برعکس پیغمبر اسلام کو خدا کی مدد سے ’’اصحابِ سیف‘‘ بالفاظ دیگر، طاقت ورحمایتی گروہ حاصل ہوگیا۔ چنانچہ مخالفین نے جب جارحیت کرکے آپ کے پر امن مشن کو دبانا، اور مٹانا چاہا، تو آپ بھی اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس پوزیشن میں تھے کہ ان کی جارحیت کا موثر جواب دے کر ان کے مخالفانہ عزائم کو ناکام بنا دیں۔مذکورہ قسم کی احادیث میں نیزہ اور تلوار کا لفظ آپ کی دفاعی طاقت کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ آپ کی اصل پیغمبرانہ حیثیت کو بتانے کے لیے۔