اولاد کے لیے بہتر عطیہ
اولاد کی تربیت کے سلسلے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: أَیُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 1952)۔ یعنی ایوب بن موسیٰ اپنے والد موسیٰ اور دادا ابن سعید سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی باپ اپنے بیٹے کو نیک ادب اور صحیح تربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَأَنْ یُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَہُ، أَوْ أَحَدُکُمْ وَلَدَہُ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَتَصَدَّقَ کُلَّ یَوْمٍ بِنِصْفِ صَاعٍ(مسند احمد، حدیث نمبر 20900)۔ یعنی جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:کوئی آدمی اپنی اولاد کو ادب سکھا ئے، یا تم میں سے کوئی اپنی اولاد کو، وہ اس سے بہتر ہےکہ آدمی ہر روز نصف صاع صدقہ کرے۔
اس حدیث رسول میں در اصل فطرت کے ایک نظام کو بتایا گیا ہے۔ ہر انسان جو پیدا ہونے کے بعد اس دنیا سے کچھ سیکھتا ہے، وہ تجربہ (experience) ہے۔ اس کے بعد وہ دنیا سے چلا جاتا ہے، اور اس کی جگہ دوسرے لوگ آتے ہیں۔ فطرت کے اس نظام کا تقاضا ہے کہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا سے بہترین تجربات حاصل کرے، اور پھر ان تجربات کو اپنے بعد والوں کے لیے منتقل کرتا رہے۔ اس طرح ہر آنے والی نسل اپنی اگلی نسل سے بہتر زندگی کا سبق سیکھتی رہے گی، اور اس طرح پوری انسانیت تربیت یافتہ نسل کی صورت اختیار کرتی رہے گی۔
فطرت کے اسی نظام کی ایک منظم صورت وہ ہے، جس کو تعلیم کہا جاتا ہے۔ لوگوں نے اپنے تجربات کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لیے اس کو ادارے (organization)کی صورت دے دی۔ اسی ادارے کا نام تعلیمی نظام ہے۔ ہر گھر اس ادارے کا ایک ابتدائی حصہ ہے۔تربیتِ اولاد کا عمل ذمے داری کا ایک ظاہرہ ہے، نہ کہ محبتِ اولاد کا ظاہرہ۔