قرآن کا نزول

اللہ رب العالمین نے اپنی کتاب قرآن اس لیے اتاری کہ وہ سارے عالم کے لیے انذار کا ذریعہ بنے۔ اس حقیقت کا اعلان سورہ الفرقان میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔

قرآن خالق کائنات کے تخلیقی منصوبے کا مستند اعلان ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس خدائی اعلان کو پڑھے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ قرآن کی ایک اور آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (14:4)۔ یعنی اور ہم نے جو پیغمبر بھی بھیجا، اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، تاکہ وہ ان سے بیان کردے۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انذار کا یہ کام ہر قوم کی اپنی قابل فہم زبان (understandable language) میں انجام پائے۔ جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کسی بین اقوامی زبان (lingua franca) میں نہیں ہے۔ بلکہ پورا قرآن عربی زبان میں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کا ترجمہ ہر قوم کی اپنی معروف زبان (understandable language) میں کیا جائے۔ اور پھر کمیونی کیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے اس کو تمام قوموں کے لیے قابلِ حصول بنایا جائے۔

ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن اترا تو اس زمانے میں پرنٹنگ پریس وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس زمانے میں رسول اور اصحابِ رسول قرآن کے عربی متن (Arabic text) کے لیے مقری (reciter)بن گئے۔ بعد کے زمانے میں جب کہ دنیا میں ایج آف کمیونی کیشن آچکا ہے، تو اب قرآن کو عالمی سطح پر پہنچانے کے لیے یہ کرنا ہوگا کہ قرآن کے متبعین، یعنی امت محمدی اس کی عالمی اشاعت کےلیے ڈسٹری بیوٹر بن جائیں۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے، جس کو اگر امتِ محمدی انجام نہ دے، تو اس کا امت محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom