مبنی بر مواقع پلاننگ

اجتماعی زندگی میں کام کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک ہےغیر نزاعی طریقہ (non-confrontational approach)،اور دوسرا ہے نزاعی طریقہ (confrontational approach)۔ موجودہ زمانے میں جو سیاسی طریقہ عام طورپر رائج ہوا ہے، وہ زیادہ تر نزاعی طریقہ ہوتا ہے، یعنی برسرِ اقتدار پارٹی سے نزاع کرتے ہوئے اپنا طریقِ کار متعین کرنا۔ اس معاملے میں دوسرا طریقہ تعمیری طریقہ ہے۔ تعمیری طریقہ غیر نزاعی بنیاد پر بنایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجود صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش نہ کرنا، بلکہ غیر نزاعی انداز اختیارکرنا۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزادی کے اصول پر بنی ہے۔ ہر انسان کو مکمل آزادی ہے۔ ایسی حالت میں جب بھی ایک شخص کوئی کام کرتا ہے، تو اس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اس کے کام اور دوسرے کے کام میں ٹکراؤ ہے۔ ایسی حالت میں طریقِ کار کیا ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں جب پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی سنتوں میں سے ایک سنت وہ ہے، جس کو غیر نزاعی طریقہ کہا جاسکتا ہے۔ اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا، تو اس وقت جو لوگ وہاں آباد تھے، ان کی اکثریت بت پرستی یا عبادت اصنام کے کلچر کو مانتی تھی۔ ایسی حالت میں رسول اللہ کے لیے اپنے مشن کو اختیار کرنا، فوری طور پر ٹکراؤ پیدا کرنے والا تھا۔ پیغمبر اسلام نے اس موقع پر وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو حضرت عائشہ نے اپنی زبان میں اس طرح بیان کیا ہے:مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ، أَحَدُہُمَا أَیْسَرُ مِنَ الْآخَرِ، إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2327)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملے میں سے ایک کا اختیار دیاگیا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہو، تو آپ نے دونوں میں سے آسان تر کا انتخاب کیا۔

اختیار ایسر کا مطلب ہے، کنفرنٹیشنل میتھڈ کے بجائے نان کنفرنٹیشنل میتھڈ کو اختیارکرنا۔ رسول اللہ نے قدیم مکہ میں اسی اصول کو منطبق (apply)کیا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ٹکراؤ کے بغیر جو پہلو آپ کے لیے ممکن تھا، اس کو اختیار کیا۔ اس وقت کے ماحول میں اس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ نے بت پرستی کے کلچر سے براہ راست ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ آپ نے دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔ ایک پہلو تھا بت پرستی کا عمل۔ اور اس کا دوسرا پہلو تھا، بت پرستی کلچر کی وجہ سے لوگوں کا وہاں جمع ہونا۔

آپ نے لوگوں کے جمع ہونے کے پہلو کو لیا، اور ان کو اپنے مشن کے لیے بطور آڈینس استعمال کیا۔ سیرت کی کتابوں میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً مکہ کا ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ أَشْیَاخٍ مِنْ قَوْمِہِ، قَالُوا:لَمَّا لَقِیَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَہُمْ:مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا:نَفَرٌ مِنْ الْخَزْرَجِ، ... قَالَ:أَفَلَا تَجْلِسُونَ أُکَلِّمُکُمْ؟ قَالُوا:بَلَى. فَجَلَسُوا مَعَہُ، فَدَعَاہُمْ إلَى اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَرَضَ عَلَیْہِمْ الْإِسْلَامَ، وَتَلَا عَلَیْہِمْ الْقُرْآنَ...وَکَانُوا ہُمْ أَہْلَ شِرْکٍ وَأَصْحَابَ أَوْثَان(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ428)۔ یعنی عاصم بن عمر بن قتادہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو خزرج کے کچھ لوگوں سے ملے، تو آپ نے ان سے کہا کہ تم کون ہو، انھوں نے جواب دیا کہ ہم خزرج کے لوگ ہیں۔ آپ نے کہا: کیا تم لوگ بیٹھوگےتاکہ میں تم لوگوں سے بات کروں ؟ انھوں نے کہا:کیوں نہیں۔ وہ لوگ آپ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تو آپ نے ان کو اللہ کی طرف دعوت دی، اور ان کے سامنے اسلام پیش کیا، اور ان کو قرآن پڑھ کر سنایا۔ اور وہ لوگ اہل شرک تھے، اور بت پوجنے والے۔

 

احیائے اسلام کا مطلب ہے، تبدیلیٔ زمانہ کے اعتبار سے اسلام کا مطالعہ کرکے اسلام کو سمجھنا، اور اپلائی کرنا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom