مینج کرنا سیکھیے
معاملات میں لوگ عام طور پر دو طریقے کو جانتے ہیں۔ ایک ہے، فریقِ مخالف سے ٹکرانا، اور دوسرا ہے، فریقِ ثانی کے مقابلے میں سرینڈر کرنا۔ عام طور پر لوگ ٹکرانے کو بہادری سمجھتے ہیں، اور سرینڈر کرنے کو بزدلی۔ یہ دونوں طریقے غیر حکیمانہ ہیں۔ حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ آپ معاملے کو مینج کرنا سیکھیں۔ یعنی براہ راست مقابلہ کیے بغیر بالواسطہ انداز میں مسئلے کو حل کرنا۔
مثال کے طور پر رسول اللہ ایک بار سفر میں تھے۔ آپ کو خبر ملی کہ فریقِ مخالف کا ایک دستہ آپ کی طرف چلا آرہا ہے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: مَنْ رَجُلٌ یَخْرَجُ بِنَا عَلَى طَرِیقٍ غَیْرِ طَرِیقِہِمْ الَّتِی ہُمْ بِہَا؟ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ قَالَ:أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ، قَالَ:فَسَلَکَ بِہِمْ طَرِیقًا وَعْرًا أَجْرَلَ بَیْنَ شِعَابٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا مِنْہُ، وَقَدْ شَقَّ ذَلِکَ عَلَى الْمُسْلِمِینَ وَأَفْضَوْا إلَى أَرْضٍ سَہْلَةٍ عِنْدَ مُنْقَطِعِ الْوَادِی (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 309)۔ یعنی آپ نے کہا: کون ہے جو ہم کو اس راستے سے لے کر چلے، جو ان سے الگ راستہ ہو۔ قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے کہا: میں، اے خدا کے رسول۔ پھر وہ ان کو لے کر ایک دشور راستے سے چلا۔ یہ ایک مشکل بھراراستہ تھا۔ جب وہ اس دشوار راستے سے نکلے، اور یہ راستہ مسلمانوں کے لیے بہت مشقت والا تھا، وہ لوگ وادی کے خاتمے پر کھلے میدان میں پہنچ گئے۔
اس سنت رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹکراؤ کا اندیشہ ہو تو اپنا راستہ بدل دیجیے۔ ٹکراؤ کا اندیشہ ہوتو آپ ہرگز ایسا نہ کریں کہ اپنے راستے پر چلتے رہیں، یہاں تک کہ ٹکراؤ کی نوبت آجائے۔ بلکہ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے راستے کو بدلیں۔ اپنے منصوبے کو نئے انداز سے مرتب کریں۔ اس طریقے کو ری پلاننگ (replanning)کہا جاتا ہے۔ ری پلاننگ کا یہ طریقہ ہر جگہ مطلوب ہے۔ گھر کے اندر بھی، اور گھر کے باہر بھی۔ چھوٹے معاملے میں بھی اور بڑے معاملے میں بھی۔ گھریلو معاملے میں بھی اور بڑے بڑے اجتماعی معاملات میں بھی۔