دعوتی سیاحت
ایک دعوتی گفتگو
عرب امارات کے سفر(مئی 2004)میں جناب عاطف سید انور علی کاظم (38 سال) سے 9 مئی کی صبح کو ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ انوکھے واقعات بتائے۔ اپنا ایک تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا ملنا جلنا دبئی کے ایک عیسائی سے تھا۔ وہ کسی قدر اسلام کی طرف مائل تھا۔ پھرانھوں نے کہا کہ میں ایک عالم سے ملا اور ان سے کہا کہ آپ میرے ساتھ چل کر اس عیسائی سے ملیں، اور اس کی تالیفِ قلب کے طور پر آپ کی طرف سے اسے ایک تحفہ پیش کیا جائے۔ اس عالم نے کہا:إِنَّ الْعِلْمَ یُؤْتَى وَلَا یَأْتِی (المدخل إلى السنن الکبرى للبیہقی، اثر نمبر686)۔ یعنی علم کے پاس جایاجاتا ہے،علم خود نہیں آتا۔
یہ قول دراصل امام مالک کا ہے۔ ایک مرتبہ عباسی خلیفہ ہارون رشید نے چاہا تھا کہ امام مالک انھیں اپنی کتاب موطا سنانے کے لیے اس کے محل میں آئیں۔ مگرامام مالک نے کہا کہ آپ کو میرے پاس آنا چاہیے۔ کیوں کہ طالب کو چاہیے کہ وہ خود چل کر علم کے پاس جائے، نہ کہ علم اس کے پاس آئے۔عاطف صاحب نے مذکورہ جملے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصول مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ اصول غیر مسلموں کے لیے نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ غیر مسلم تک علم پہنچانا دراصل دعوت کا عمل ہے، اور دعوت ہمارا اپنا فریضہ ہے۔ جب ہم اسلام کا علم کسی غیر مسلم تک پہنچاتے ہیں، تو ہم خود اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں، اور فریضہ ادا کرنا خود اس کا کام ہے، جس پر وہ چیز فرض ہورہی ہو۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے مجھے نماز کا فرض ادا کرنا ہے، تو مجھے خود مسجد جانا پڑے گا۔ مسجد میرے پاس اٹھ کر نہیں چلی آئے گی۔
عاطف صاحب نے اس کے بعد تبلیغی جماعت کے بعض افراد سے رابطہ قائم کیا اور مذکورہ مسیحی کے بارے میں انہیں بتایا۔ وہ لوگ فوراً وہاں جانے کے لیے تیارہوگئے، کیوں کہ ان کے اندر پہلے ہی سے یہ مزاج تھا کہ دین کو چل کر پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ تبلیغی جماعت کے 3 آدمی وہاں گئے۔ انھوں نے کچھ تحفہ (عطر، دعا کی کتاب اور کیسٹ) اس عیسائی کو پیش کیا،اور اس سے نرمی اور محبت کے ساتھ بات کی اور اس کو دین کا ابتدائی پیغام پہنچایا۔
عاطف صاحب نے مزید بتایا کہ تبلیغی لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر کم از کم تین آدمی کی جماعت بناتے ہیں۔ ان میں سے ایک امیرہوتا ہے، اور دوسرا متکلم، اور تیسرا ذاکر۔ امیر گویا اس جماعت کا قائد ہوتا ہے۔ متکلم کا کام یہ ہے کہ وہ ضرورت کے وقت بات چیت کرے۔ ذاکر کا کام یہ ہے کہ وہ دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتا رہے اور دعا کرتا رہے کہ یہ مشن کامیاب ہو۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ یہ طریقہ نہایت فطری ہے۔ وہ اسلام کی اسپرٹ کے عین مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر مجلس میں یہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس طریقہ کو مسلم کلچر کا ایک جزبن جانا چاہیے۔
عاطف صاحب نے ایک اور بات بتائی۔ انھوں نے کہا کہ حق کے داعی کے اندر تین صفت ہونی چاہیے۔ یہ تین صفتیں انھوں نے قرآن کی ایک آیت سے اخذ کی ہیں۔ وہ آیت یہ ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ (41:33)۔ یعنی اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی، جس نے اللہ کی طرف بلایا، اور نیک عمل کیا، اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ داعی کے اندر پہلی مطلوب صفت یہ ہے کہ دعوتی کام پر مکمل یقین ہو، اور دوسرا یہ کہ جو چیز داعی دوسروں کو بتارہا ہے وہ خود بھی اس پر عمل کرنے والا ہو، تیسرا یہ کہ آدمی کے اندر تواضع (humbleness)کی صفت پائی جائے۔ ایک سچے داعی کے اندر یہ تین صفتیں ہونی چاہئیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہی مزاج پوری امت میں ہونا چاہیے۔
دعوت کا ایک طریقہ
ایک غیر مسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میں نے روحانیت کے انداز میں کچھ باتیں کہیں۔ وہ میری باتوں کو سن کر متاثر نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں سچائی کا متلاشی (seeker) ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ کو میں ایک دعا بتاتاہوں۔ آپ اس کو پابندی کے ساتھ روزانہ پڑھیں۔ پھر میں نے یہ قرآنی دعا ایک کاغذ پر لکھی اور اس کو انہیں دیا۔ میں نے کہا کہ آپ اس دعا کو روزانہ پڑھیں۔ وہ دعا یہ تھی:رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ (28:24)۔یعنیخدایا، جو خیر تو نے میری طرف اُتارا، میں اس کا محتاج ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں اس دعا کو روزانہ پڑھوں گا۔(عرب امارات کا سفر)
میڈیا رپورٹنگ
عرب امارات کے سفرمیں ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ جب بھی کوئی اصلاح کا کام کیا جائے، خاص طور پر جب کہ وہ گہری بنیادوں پر کیا جارہا ہو تو میڈیا میں اس کا چرچا یقینی ہے۔ میڈیا کے مزاج کے مطابق، یہ چرچا تقریباً ہمیشہ منفی انداز سے ہوتاہے۔ اصلاح و دعوت کے میدان میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ میڈیا کی اس منفی رپورٹنگ کی پروا نہ کریں۔ منفی رپورٹنگ کے اندیشہ کی بنا پر وہ ایسا نہ کریں کہ میڈیا سے اعراض کرنے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ کا ایک پلس پوائنٹ ہوتا ہے۔ یہی حال میڈیا کا بھی ہے۔ میڈیا کی ناقص رپورٹنگ پھر بھی ایک مفید کام کرتی ہے، اور وہ آپ کے کام کی پبلسٹی ہے۔ پبلسٹی کے بغیر کوئی بھی کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پبلسٹی لوگوں کے اندر تجسس پیدا کرتی ہے، اور تجسس پیغام کی اشاعت کا ذریعہ بنتا ہے۔
عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر
“عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر‘‘ کا مطلب ہے عصری ذہن کے لیے اسلام کو قابلِ فہم (understandable) بنانا۔ مثلاً بنگلور کے روزنامہ سالار کے شمارہ26جولائی 2005 میں پہلے صفحہ پر ایک خبر شائع ہوئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ مسلم علماء کے ایک وفد کو خطاب کرتے ہوئے یہاں کے پولیس کمشنر اَجے کمار نے کہا کہ: آپ کو چاہیے کہ جمعہ کے خطبے میں نئی نسل خصوصاً نوجوان طبقے کو آپ ایسا پیغام دیں کہ ان نوجوانوں میں خود اعتمادی، وطن پرستی اور ایک اچھا شہری بننے کا جذبہ پیدا ہو جائے، وہ اپنی زندگی صرف تعمیری کاموں ہی میں صرف کریں، اور کسی طرح کے منفی جذبات ان کے اندر پیدا نہ ہوں ‘‘۔
اس خبر کو لے کر بنگلور کے سفر میں محمد ضیاء صاحب نے کہا کہ میں جمعہ کی نماز باقاعدہ طورپر مسجد میں ادا کرتا ہوں، اور ہر ہفتے جمعہ کے خطبات سنتا ہوں، اسی کے ساتھ میں مسلم علماء کی تقریروں میں بھی شرکت کرتا ہوں، میں نے پایا کہ کمشنر صاحب نے مسلم علماء سے جو کام کرنے کے لیے کہا ہے، وہ کام بالفعل ہورہا ہے۔ مسلم علماء بر ابر مسلم نوجوانوں کے سامنے قرآن وحدیث کے حوالے سے بہت سی باتیں بتاتے رہتے ہیں، مگر نوجوانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں اصل سوال یہ ہے کہ مزید کیا کیا جائے۔ کیوں کہ جہاں تک کمشنر صاحب کے مشورے کا تعلق ہے وہ تو علماء پہلے ہی سے انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ علماء کی تقریریں بے اثر کیوں ہور ہی ہیں۔
میں نے کہا کہ یہ علماء جو باتیں کرتے ہیں، وہ روایتی زبان میں ہوتی ہیں۔ روایتی زبان اپنا اثر کھو چکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ زمانۂ حاضر کی زبان میں لوگوں کو اسلام کا مثبت پیغام پہنچایا جائے۔میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ علماء عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ اسلام کے خاندانی نظام میں مرد کو قوّام (حاکم) کا درجہ دیاگیا ہے۔ مگر جدیدتعلیم یافتہ خواتین اس پر منفی ردّ عمل کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ نئے دَور کی خواتین کا ذہن صنفی مساوات (gender equality) کے نظریے پر بنا ہے۔ اس لیے ان خواتین کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ مرد کو خاندانی نظام میں قوّام کا درجہ دیا جائے۔
اس سلسلے میں میں نے اپنا تجربہ بتایا۔ میں نے کہا کہ جدید تعلیم یافتہ خواتین، مسلم اور غیر مسلم دونوں، کے درمیان مجھے بار بار خطاب کرنے کا موقعہ ملا۔ خواتین اکثر قوّامیت کے نظریہ پر اعتراض کرتی تھیں۔ میں نے لفظ بدل کر قوّام کی جگہ باس (boss) کا لفظ استعمال کیا۔ میں نے کہا کہ ہر ادارہ اور ہر دفتر کو منظّم طورپر چلانے کے لیے ایک باس ہوتا ہے۔ کارکن خواتین اپنے دفتروں میں اس باس کو پوری طرح تسلیم کرتی ہیں۔ اسی طرح مرد گھر کا باس ہے۔ پھر اس لیے اعتراض کیوں:
Bossism is a universal principle, and home is not an exception.
میں نے اپنے تجربے میں پایا کہ جدید تعلیم یافتہ خواتین کو جب میں باس کی اصطلاح میں اس بات کو بتاتا ہوں تو وہ فوراً اس کو مان لیتی ہیں۔ ہمارے علماء کو چاہیے کہ وہ جدید علوم سیکھیں، اور وقت کے اسلوب میں اسلام کی تعلیمات پیش کریں۔ اس کے بغیر مسلم نوجوانوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
خدائی ہدایت کی ضرورت
ایک صاحب نے کہا کہ ہم کو خدا کی ہدایت کی کیا ضرورت۔ ہمارا ضمیر ہم کو بتا تا رہتا ہے۔ اگر ہم اپنے ضمیر کی آواز پر چلیں تو وہی نجات کے لیے کافی ہے۔ میں نے کہا کہ ضمیر کوئی قابلِ اعتماد ذریعہ نہیں۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی میں بار بار آدمی کے اوپر ذاتی انٹرسٹ غالب آجاتا ہے۔ مختلف مادّی مصلحتوں کی بنا پر آدمی اپنے ضمیر کے خلاف چلنے لگتا ہے۔ آدمی کی یہ روش اس کے ضمیر کودھیرے دھیرے بے حس بنا دیتی ہے۔ اس کی حسّاسیت یا ختم ہوجاتی ہے یا کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی کے پاس ضمیر کے علاوہ کوئی اٹل رہنمائی موجود ہو۔ یہ رہنمائی خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔(بنگلور کا سفر)
روحانیت اور مذہب
ایک تعلیم یافتہ ہندو سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ روحانیت دراصل مذہب کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اب دنیا میں مذہب کا دَور ختم ہورہا ہے۔ اب ساری دنیا میں روحانیت کا دَور آرہا ہے۔ میں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ آپ کی یہ بات رواجی مذہب کے لیے درست ہے۔ عام رَواج میں جس چیز کو مذہب کہا جاتا ہے وہ دراصل مذہب کا ظاہری فارم ہے۔ جہاں تک مذہب کی اصل اسپرٹ کا تعلق ہے، وہ وہی ہے جس کو روحانیت کہا جاتا ہے۔
روحانیت مذہب کا اعلیٰ درجہ نہیں۔ روحانیت مذہب کی اصل اسپرٹ ہے۔ مذہب آدمی کو مادّی سطح سے اُٹھا کر اعلیٰ فکری سطح پر پہنچا دیتا ہے۔ اسی کا نام روحانیت ہے۔ حیوانات جسمانی سطح پر جیتے ہیں۔ انسان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ رُوح کی سطح پر جینے لگے۔(بنگلور کا سفر)
کامیابی کا راز
ایک صاحب نے سوال کیا کہ زندگی کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اخلاقی قدروں اور انسانی اصولوں کے مطابق زندگی گذاریں تو ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ انسان کی زندگی کے دو مرحلے ہیں۔ ایک ہے موت سے پہلے کی عارضی زندگی اور دوسرا ہے موت کے بعد کی ابدی زندگی۔ آپ جوطریقے بتارہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کو عارضی زندگی میں بظاہر کامیاب کردے۔ مگر موت کے بعد کی ابدی زندگی میں اس قسم کی کامیابی کسی کے لیے مدد گار بننے والی نہیں۔ موت کے بعد کی زندگی کو کامیاب بناننے کے لیے یہ جاننا ہوگا کہ اس کے لیے خالق کا کریشن پلان کیا ہے۔(بنگلور کا سفر)
تمام مذاہب سچے ہیں
کچھ ہندو حضرات سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ تمام مذہب سچے ہیں۔ آدمی جس مذہب کی بھی پیروی کرے وہ نجات پاجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ راستے جُدا ہوسکتے ہیں مگر منزل ایک ہے۔
میں نے کہا کہ ایک تصرف کے ساتھ آپ کی بات درست ہے۔ وہ یہ کہ تمام مذاہب سچے تھے، مگر بعد کو ہر مذہب کے اندر تبدیلیاں ہوگئیں۔ اب صرف قرآن غیر محرّف حالت میں ہے۔ بقیہ تمام مذہبی کتابیں تحریف کی بنا پر غیر مستند ہوچکی ہیں۔ اس لیے اصولی طورپر ہر مذہب کی ابتدائی صداقت کو مانتے ہوئے میں کہوں گا کہ اب قابلِ تقلید کتاب صرف قرآن ہے۔ اب نجات کا دارومدار صرف قرآن کے اتباع پر ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ قرآن افضل کتاب ہے بلکہ اس لیے کہ قرآن دوسری مذہبی کتابوں کے مقابلے میں محفوظ اور مستند حالت میں موجود ہے۔(بنگلور کا سفر)
قومی ذہن، دعوتی ذہن
موجودہ زمانہ میں دعوتی نقطۂ نظر سے سب سے بڑا حادثہ یہ پیش آیا ہے کہ قومی شکایتوں کو لے کر مسلمان تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ ہندو، یہودی، عیسائی، امریکن، یوروپین، سب کے سب مسلمانوں کو اپنے دشمن نظر آتے ہیں۔ اُن کو دکھائی دیتا ہے کہ یہ سب لوگ مسلمانوں کے خلاف سازش میں مشغول ہیں۔ اس منفی سوچ کا نتیجہ یہ ہُوا کہ’’ انسانیتِ عامّہ‘‘ مسلمانوں کا کنسرن نہ رہی۔
اسلام کی حقیقی تعلیمات ایک مومن کو انسان فرینڈلی بناتی ہیں۔ جس آدمی کا ذہن قرآن سے بنا ہو وہ دوسری قوموں کو رحمت وشفقت کی نظر سے دیکھے گا۔ وہ یک طرفہ طور پر اُن کا خیر خواہ بنا رہے گا۔ اِسی کا نام مثبت ذہن ہے۔ یہ مثبت ذہن جب مسلمانوں میں ہو تو اس کے نتیجے میں اُن کے اندر حوصلہ اور آفاقیت پیدا ہوگی۔ وہ ہر شعبے میں کامیاب رہیں گے۔ اسی کے ساتھ اُن کا یہ مثبت ذہن دعوت کے عمل کو تیز تر کرنے میں معاون بنے گا۔ (ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
ڈبیٹ، دعوت
ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ آرٹ آف تھنکنگ کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ آپ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانیں۔ مثال کے طورپر آپ لوگ اکثر ڈبیٹ (debate) کو دعوت کہتے ہیں۔ حالاں کہ ڈبیٹ اور دعوت میں بنیادی فرق ہے۔ ڈبیٹ اپنے مقابل میں دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ڈبیٹ در اصل ایک قسم کی تقریری پہلوانی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دعوت ایک درد مندانہ عمل ہے۔ دعوت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کو دل سوزی کے انداز میں سچائی کا پیغام پہنچایا جائے تاکہ وہ اُسے اپنے دل کی بات سمجھے اور اُس کو قبول کرلے۔
ڈبیٹ (مناظرہ) اور دعوت دونوں کے نتائج ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ڈبیٹ سے ڈبیٹر کے اندر فخر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف فریقِ ثانی کے اندر وہ نفرت کا جنگل اُگاتا ہے۔ ڈبیٹ اپنے نتیجے کے اعتبار سے دعوت کا قاتل ہے۔ دعوت کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ دعوت در اصل محبت و شفقت کا اظہار ہے۔ وہ داعی کے اندر احساسِ ذمے داری کو جگاتی ہے اور دوسری طرف مَدعو کے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنے اندر نظر ثانی کرے اور سچائی کا متلاشی بن جائے، یہاں تک کہ سچائی کو اپنا کر وہ خدا کے ان بندوں میں شامل ہوجائے جن سے خدا قیامت میں راضی ہوگا۔(ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
اسلام پر اعتراض کا جواب
ایک صاحب نے معترضین اسلام کا سروے کرکے ساٹھ سوالات بنائے تھے۔ انہوں نے یہ سوالات مجھ کو لکھ کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان سوالات کا جواب تیار کردیں تو ہم ان کو شائع کرکے بڑی تعداد میں پھیلائیں گے تاکہ اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں۔ یہ سوالات ہمیشہ سُنی سنائی باتوں پر ہوتے ہیں۔ وہ کسی گہری سوچ کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ سوال کاجواب دیتے رہتے ہیں مگر اسلام کے خلاف غلط فہمیاں ختم نہیں ہوتیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر آرٹ آف تھنکنگ پیدا کی جائے۔ لوگوں کو صحیح طرز پر سوچنے والا بنایا جائے۔ اِس کے بعد لوگ خود ہی ہر سوال کا جواب پالیں گے۔ (ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
فطرت کو موقع دینا
29 نومبر 2003 کو ناگپور سے دہلی کے لیے میں آندھراپردیش ایکسپریس کے ذریعہ سفر کررہا تھا۔ میرے کَیبن میں ایک ریلوے افسر سفر کر رہے تھے۔ ابتدا میں وہ مجھ سے بالکل بے تعلق رہے۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک مغرور آدمی ہیں۔ مگر جب اُنہوں نے مجھ کو قریب سے دیکھا اور میری چند باتیں سنیں، تو وہ بالکل بدل گئے، اور مجھ سے نہایت تواضع کے ساتھ پیش آنے لگے۔ ( واردھا کا سفر)
مدعو کی رعایت
ایک اور سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہاکہ دعوتی کام کرنے کے لیے ہم نے بہت سے بروشر اور پمفلٹ انگریزی زبان میں شائع کیے ہیں۔ یہ اس لیے ہیں کہ آپ اور دوسرے تمام لوگ ان کو حاصل کرکے اپنے اپنے حلقے میں پھیلائیں۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہینڈبیگ میں اُن کو رکھے اور ملاقات اور انٹریکشن کے دوران وہ اُنہیں لوگوں تک پہنچا تا رہے۔ ان میں اسلام کو عمومی اور آفاقی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تیار کی ہوئی تمام کتابیں شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلمانوں کے ذہن کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں۔ اس لیے وہ غیرمسلموں کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ہم نے ان کتابچوں کو عمومی انسانی انداز میں تیار کیا ہے۔ تاکہ ہر ایک اس میں سے اپنے تجسس کا جواب پاسکے۔ یہ کتابیں مختصر ہونے کی بنا پر ایسی ہیں کہ آدمی فوراً ہی ان کو پڑھ لے۔ (ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
ختم نبوت کا مطلب
ایک موقع پر میں نے ایک حدیث کی وضاحت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے اوپر نبوت ختم ہوگئی، میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں (مسند احمد، حدیث نمبر 23358)۔ اس کا مطلب سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ گنتی کے اعتبار سے پیغمبروں کی فہرست مکمل ہوگئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد اب کسی اور پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ وہ اسباب ختم ہوگئے، جس کی وجہ سے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔
میں نے کہا کہ پیغمبر کا مقصد ہدایتِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ اس کے لیے پیغمبر کا شخصاً موجود ہونا ضروری نہیں۔ اگر ایک ایسا گروہ موجود ہو جو پیغمبر کے نمائندے کی حیثیت سے امرِ حق لوگوں تک پہنچاتا رہے تو ایسی حالت میں پیغمبر مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ پیغمبر اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خدا کا کلام (قرآن) اپنی اصلی حالت میں مکمل طورپر محفوظ ہوگیا۔ یہ حفاظت اِس بات کی ضمانت بن گئی کہ ہر نسل میں اور ہر زمانہ میں ایسے افراد موجود رہیں، جو ہدایتِ الٰہی کی صحیح معرفت حاصل کرکے اُسے دوسروں تک پہنچائیں۔ پیغمبر آخر الزماں سے پہلے اس قسم کی ضمانت موجود نہ تھی اس لیے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔(ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
سفر میں دعوت
ایک مجلس میں میں نے بتایا کہ موجودہ زمانہ میں سفر دعوت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں میں نے مولانا محمد ذکوان ندوی کا ایک تجربہ بتایا۔ یہ تجربہ ان کے بیان کے مطابق یہ ہے:
’’جون 2005 کو میں نے دہلی اور لکھنؤ کے درمیان ایک سفرکیا۔ یہ سفر گومتی ایکسپریس کے ذریعہ ہوا۔ جب میں اپنی ڈائری لکھ رہا تھا، تومیرے ہم سفر مسٹر ہریش نے سوال کیا: آپ کیا لکھ رہے ہیں ؟ میں نے کہا: ڈائری۔ اِس طرح بات چیت شروع ہوئی۔ پھر میں نے انھیں گڈ ورڈ بکس سے چھپے ہوئےہندی اورانگریزی کے کچھ دعوتی پمفلیٹس دیے۔اس کو انھوں نے پڑھا۔وہ ان سے کافی متأثر ہوئے، اور انہوں نے کہا میں آپ لوگوں سے ملنے آؤں گا۔ مسٹر ہریش دہلی کے ایک ٹی وی چینل(آنکھوں دیکھی) کے نمائندہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ کوجب بھی کو ئی پروگرامکرنا ہو، فون کیجئے۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ آؤں گا اور پروگرام ریکارڈ کرکے نشر کروں گا۔
دوسری سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب مسٹر شنکر رَونِیار (غازی آباد) نے بھی بڑھ کر ایک پمفلٹ لیا اور اس کو پڑھنے کے بعد کہا: بہت اچھا لکھا ہے۔ مگر اس میں کچھ کٹّر پنتھ ہے۔ میں نے کہا کہ پمفلٹ میں لکھی ہوئی کوئی ایک بات بتائیے جس سے آپ نے یہ جانا کہ اس میں کٹر پنتھ ہے؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا: اسلام میں چار شادی کا حُکم ہے جس کی کوئی لاجک میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے کہا: آپ کی عمر مجھ سے بہت زیادہ ہے، آپ مجھے کسی ایک مسلم فیملی کا نام بتائیے جس نے چار شادیاں کی ہوں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا: میرے علم میں تو ایسا کوئی آدمی نہیں۔ میں نے کہا: جو چیز عملاً موجود نہیں اس میں اُلجھنے کی ضرورت کیا ہے۔ تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد وہ دوسرے پمفلٹ دیکھنے لگے۔ پھر کافی اختلاط شروع ہوگیا، اور کئی لوگوں نے سوالات شروع کردیے۔ مسٹر شنکر رونیار نے ہندی کتابچہ سَفَلتا کے سُوتر پڑھا اور کہا: اس کا لکھنے والا تو بڑا گیانی معلوم ہوتا ہے۔ وہ کافی متاثر ہوئے، انہوں نے کہا کہ اِس رائٹر سے تو ملنا چاہیے۔ میں ضروردہلی آکر ان سے ملوں گا، اور آشیر واد لوں گا۔ سامنے بیٹھی ہوئی دو ’’غیر مسلم‘‘ خواتین نے بھی دوسرے ہندی انگریزی پمفلٹس کے علاوہ ’’سفلتا کے سوتر‘‘ دیکھا اور بہت پسند کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے اس کتابچے سے کیا سیکھا؟ انہوں نے کہا مجھے اس سے حوصلہ ملا، اور میں نے سیکھا کہ آدمی کو کسی بھی حال میں اپنا حوصلہ نہیں کھونا چاہیے۔
دورانِ گفتگو بہت سے لوگوں نے شوق سے CPS کے کتابچے لیے، ایک صاحب مسٹر ہریش کمار (پنجاب) اپنی سیٹ سے اُٹھ کر میرے پاس آئے اور کچھ کتابچے حاصل کیے۔ میں نے ان سے کچھ باتیں کیں اور پوچھا آپ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نغمے گاتا ہوں۔میں نے کہا کہ سچا نغمہ ایک خدائی نغمہ ہے۔ آپ سچے نغمے گائیے۔ اس پر وہ مسکرائے اور کتابچے لے کر اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے پاس آئے اور کہا میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوا۔ آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں۔ مجھے آپ سے محبت محسوس ہورہی ہے۔ آپ برائے کرم میری اس کتاب پر ’’اُردو‘‘ میں میرا نام اور اپنا فون نمبر لکھ دیں۔ میں نے کہا آپ اُردو جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا نہیں،بس آپ کی یادگار ہوجائے گی۔
دورانِ سفر اِن حضرا ت سے دعوتی انداز میں باتیں ہوتی رہیں۔ اس طرح نو گھنٹے کا یہ سفر خدا کے فضل سے ایک دعوتی سفر بن گیا۔ اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد اُن لوگوں نے کہا ’’آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے ہمارا سفر بہت اچھا گذرا۔ اس سفر میں ہمیں سچائی ملی، یہ سفر ہمارے لیے ایک تاریخی سفر بن گیا۔‘‘
یہ تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں دعوت کے امکانات کتنے بڑھ گئے ہیں۔ سفر اور دوسرے مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ بار بار لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، اگر آدمی کے اندر داعیانہ ذہن موجود ہو تو وہ ان ملاقاتوں کو کامیابی کے ساتھ دعوت کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔(ممبئی کا سفر، نومبر 2004)
دعوتی مزاج، فقہی مزاج
17 جولائی 2005 کو اتوار کا اسپریچول کلاس 1، نظام الدین ویسٹ مارکیٹ میں تھا۔ یہاں بلڈنگ کے ایک فلور کو خالی کرکے اس کو ایک ہال کی صورت میں از سر نو بنایا گیا ہے۔ یہ فلور اب ان شاء اللہ اسی خاص مقصد کے لیے استعمال ہوگا۔اس اسپریچول کلاس میں عورت اور مرد دونوں ایک ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آج کی ملاقات میں اس پر ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ وہاں عورت اور مرد دونوں ایک ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کے لیے ایک علیحدہ کمرہ مخصوص ہونا چاہیے تھا۔ یہ صاحب خود بھی 17 جولائی کے اس پروگرام میں شریک تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ معاملے کو دیکھنے کے دو مختلف زاویے ہیں۔ ایک ہے فقہی زاویہ اور دوسرا ہے دعوتی زاویہ۔ فقہی نقطۂ نظر سے آپ کی بات درست ہوسکتی ہے مگر دعوتی مصلحت کے اعتبار سے یہاں دیکھیں تو جو ہورہا ہے وہی آپ کو درست نظر آئے گا۔ آپ چوں کہ دعوتی کام نہیں کررہے ہیں اس لیے آپ اس قسم کی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ اگر آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے میں دعوتی کام کریں تو آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ یہاں جو ہورہا ہے عملی طورپر وہی درست ہے۔ یہ دراصل تالیفِ قلب کا مسئلہ ہے اور تالیفِ قلب کی اہمیت کو صرف داعی انسان سمجھ سکتا ہے۔
تالیف قلب کی اہمیت اسلام میں بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے زکوۃ کی آٹھ مَدوں میں سے ایک مد تالیفِ قلب کی ہے۔ تالیف قلب سے مراد وہی چیز ہے جس کو دل جوئی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں کو نرم کیا جائے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ اسلام پر غور وفکر کرسکیں۔تالیفِ قلب دراصل ایک دعوتی ضرورت ہے۔ تالیفِ قلب کا مقصد یہ ہے کہ دعوت کے موافق ماحول بنایا جائے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً لوگوں کے لیے کوئی مفید رفاہی کام کرنا، لوگوں کے مزاجی بگاڑ کی بنا پر ان کی رعایت کرنا، داعی اور مدعو کے درمیان حالات کو معتدل بنانا، لوگوں کو کس نوعیت کا مادّی فائدہ پہنچانا تاکہ وہ اس سے متاثر ہو کر اسلام پر غور وفکر کرسکیں۔ خلاصہ یہ کہ بزنس میں جس چیز کو کسٹمر فرینڈلی سلوک کہا جاتا ہے، اسی کو مدعوکے اعتبار سے استعمال کرنے کا نام تالیف قلب ہے، یعنی مدعو فرینڈلی سلوک اختیار کرنا۔ (بنگلور کا سفر)
خیرخواہی کا ذہن
ایک سوال یہ تھا کہ غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام کیسے پہنچایا جائے۔ میں نے کہا کہ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ان لوگوں کو کافر کہنا چھوڑ دیا جائے۔ حتی کہ دل سے بھی انہیں ایسا نہ سمجھا جائے۔ ان کو صرف انسان سمجھا جائے اور انسان کہا جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ان کے لیے آپ کے دل میں سچی خیر خواہی پیدا نہیں ہوگی، اور سچی خیر خواہی کے بغیر دعوتی کام کا آغاز ہی نہیں ہوسکتا۔
میں نے کہا کہ ایک بزنس مین لوگوں کو صرف کسٹمر کے روپ میں دیکھتا ہے، وہ ان کو مسلم اور کافر، یا اپنی قوم اور غیر قوم کے الفاظ میں نہیں بانٹتا، وہ سب کو یکساں طورپر انسان کے روپ میں دیکھتا ہے۔ اسی طرح سچا داعی وہ ہے،جو انسان کو اپنے اور غیر، یا دوست اور دشمن میں تقسیم نہ کرے، بلکہ سب کے لیے شفقت کا وہی جذبہ رکھے، جو ایک ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے۔ رسول اللہ نے عرب میں دعوتی کام شروع کیا تو آپ نے یہ فرمایا: اے انسانو!، اے میری قوم والو!۔
پیغمبر لوگوں کی ہدایت کا حریص ہوتا ہے۔ یہی پیغمبر کا سب سے بڑا دعوتی سرمایہ ہے۔ آپ قرآن کو پڑھیں تو اس میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ملے گی جس کو آج کل پروگرام کہا جاتا ہے۔ مگر رسول اور اصحابِ رسول کے دل میں لوگوں کی ہدایت کے لیے بے پناہ شفقت اور خیر خواہی موجود تھی۔ یہی جذبہ ان کے لیے دعوتی کام کا سب سے بڑا رہنما بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ داعی ایک پروگرام ساز انسان ہوتا ہے۔ وہ ہر موقع کے لیے خود ہی پروگرام وضع کرلیتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ آج کل دعوت کے نام پر بہت سے کام کیے جارہے ہیں، مگر میرے علم کے مطابق یہ سب مطلوب دعوتی کام نہیں۔ ان کاموں میں سے کوئی ڈبیٹ ہے، کوئی اصلاح ہے، کوئی کمیونٹی ورک ہے اور کوئی قومی یا سیاسی کام ہے۔ بذاتِ خود یہ سب کام مفید ہوسکتے ہیں، مگر ان کاموں کو دعوت الی اللہ کا کام نہیں کہا جاسکتا۔(بنگلور کا سفر)
عصر حاضر کا فتنہ
ایک اور بات جو سمجھ میں آئی وہ یہ کہ قدیم زمانہ کا فتنہ اگر شرک تھا تو موجودہ زمانہ کا فتنہ مادّیت یا مال ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: إِنَّ لِکُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً وَفِتْنَةُ أُمَّتِی الْمَالُ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2336)۔ یعنی بیشک ہر امت کا ایک فتنہ ہے، اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت محمدی کے ظہور کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب کہ مال یا مادّیت سب سے بڑا فتنہ بن جائے گا۔
پٹا پرتھی میں تقریباً پچاس ہزار لوگ جمع تھے۔ ان کی ننانوے فیصد تعداد ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھی۔ یہی منظر دوسرے ہندو پیشواؤں کے یہاں نظر آتا ہے۔ عورت اور مرد دونوں بہت بڑی تعدادمیں ان کے آشرموں میں آتے ہیں تاکہ ان کا آشیرواد لے سکیں۔ اس تمام بھیڑ کا محرّک صرف ایک ہے اور وہ ہے مادّی برکت حاصل کرنا۔ ایسے لوگوں کو اگر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے تو وہ اس کی طرف اسی وقت متوجہ ہوں گے جب کہ انہیں اسلام میں مادّی فائدہ دکھائی دے، جیسا کہ گُرو لوگوں کے درشن اور آشیرواد سے وہ مفروضہ طور پر سمجھتے ہیں۔ گروؤں کی یہ ساری مقبولیت دراصل فرضی امیدوں کی تجارت (false hopes business) کے ہم معنی ہے، اس کے سوا وہ اورکچھ نہیں۔
ایسی حالت میں اسلام کا مؤثر دعوتی اپروچ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلام کے تصور جنت کو اُن کے سامنے نمایا ں کیا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ آپ لوگ اپنا جو مادّی محل بنانا چاہتے ہیں وہ موجودہ دنیا میں بننے والا نہیں۔ موت کے بعد جنت کی دنیا ہی میں آپ کو اپنی خوشیوں کا محل مل سکتا ہے۔ جس جنت کو آپ قبل از موت مرحلۂ حیات میں تلاش کررہے ہیں، وہ صرف بعد از موت مرحلۂ حیات میں حاصل ہوسکتا ہے۔میرے تجربہ کے مطابق یہی اسلوب زیادہ مؤثر ہے۔ اس کو دین کی مادّی تعبیر نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ مادّی تعبیر ہمیشہ مادّی دنیا کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ جب کہ جنت کی بات جب بھی کی جائے گی آخرت کے حوالے سے کی جائے گی۔ اس کو جنتی تعبیر تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس کو مادّی تعبیر نہیں کہا جاسکتا۔(بنگلور کا سفر)
مدعو سےمیل جول
پٹا پرتھی کے سفر سے پہلے میری ملاقات دہلی میں ایک صاحب سے ہوئی، جو ایک بڑے مدرسے میں تدریس کا کام کرتے ہیں۔ اُن سے اِس سفر کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ سائی بابا کے ماننے والے تو اُن کو خدا کہتے ہیں، اس قسم کا عقیدہ کھلا ہوا شرک ہے۔ اس مشرکانہ ماحول میں جانا آپ کے لیے درست نہیں۔ مگر اس کانفرنس میں شرکت کے بعد مجھے ایک ایسی حقیقت دریافت ہوئی جو دعوتی کام کرنے والوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہاں مجھے معلوم ہوا کہ سائی بابا خود تو اپنے کو خدا نہیں بتاتے ہیں، مگر ان کے معتقدین ان کے بارے میں ایسا ہی کہتے ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں مجھے اسلام پر بولنے کے لیے بلایا گیا۔ کسی شرط کے بغیر ایک عظیم مجمعے کے سامنے مجھے اسلام پر بولنے کا موقع دیا گیا۔ میں نے اپنی تقریر میں صاف طورپر کہا کہ اسلام کا مقصد ہے انسان کو خدا کا پرستار (worshipper of God) بنانا۔ سائی بابا کے معتقدین ان کی حد درجہ تعظیم کرتے تھے۔ مگر میں یہاں اسی طرح رہا، جس طرح سیکولر کانفرنسوں میں رہتا ہوں۔ میری تقریر کے بعد کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ ہرایک نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ خود سائی بابا نے کہا کہ ہم اپنے اسکولوں میں قرآن کو پڑھاتے ہیں، اور ہم اس پر پورا عقیدہ رکھتے ہیں۔
اس تجربے سے مجھے ایک اہم حقیقت کا علم ہوا۔ وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ایک لفظ بولتا ہے وہ اس لفظ کو خود اپنے ذہن کے اعتبار سے بولتا ہے مگر سننے والا اس کو اپنے ذہن کے اعتبار سے لے لیتا ہے۔ اس سے غیر ضروری قسم کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً سیکولر زم کے لفظ کو لیجیے، جدید تعلیم یافتہ لوگ سیکولرزم کا لفظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کو سُن کر مذہبی لوگ غصہ ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کا دشمن ہے۔ حالانکہ یہ صرف سمجھنے کا فرق ہے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سیکولرازم کو سادہ طورپر ایک جمہوری طریقے کے معنی میں لیتا ہے، اس کے برعکس مذہبی طبقہ سیکولرازم کا ترجمہ ’’لادینیت‘‘ کرکے اُس کو اینٹی مذہب کے معنی میں لے لیتا ہے۔ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔حالاں کہ سیکولرازم صرف ایک غیر جانب دارانہ پالیسی کا نام ہے،نہ کہ کسی مخالفانہ پالیسی کا نام۔(بنگلور کا سفر)
اسلامی تحریک کی ابتدا
ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیئس سالہ دورِ نبوت کو دو دوروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے —مکّی دور اور مدنی دور۔ یہ دونوں دور تدریجی دور نہیں تھے، بلکہ وہ اضافی (relative) دور تھے۔ دونوں کے درمیان فرق کی اس نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
بعض لوگوں نے ان دونوں دوروں کو لے کر اسلام کا ایک انقلابی نظریہ بنایا ہے۔ وہ اس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اسلام کی تحریک دعوت سے شروع ہوتی ہے پھر پُر امن مزاحمت (passive resistance) کا زمانہ آتا ہے۔ اُس کے بعد ہجرت ہوتی ہے اور پھر اہلِ ایمان منظّم ہو کر جنگی اقدام شروع کردیتے ہیں۔ یہ تقسیم سر تا سر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مکّی دور اور مدنی دَور اسلام کی عملی تاریخ کا حصہ ہیں، وہ دعوت الی اللہ کی کسی نظری ترتیب کا اظہار نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اسلامی تحریک ہمیشہ دعوت سے شروع ہوتی ہے۔ دعوت سے مراد خدا کے پیغام کو خدا کے بندوں تک پُر امن طورپر پہنچانا ہے۔ اسلامی تحریک اپنے آغاز میں بھی دعوت ہے، اور اپنے اختتام میں بھی دعوت۔ دعوت کے سوا اسلامی تحریک کا کوئی ابدی نشانہ نہیں۔ انسان چوں کہ پیدا ہوتے ہیں، اور کچھ سالوں کے بعد مرجاتے ہیں، اس لیے دعوت کا عمل ایک ایسا عمل ہے، جو ایک جنریشن کے بعد دوسری جنریشن میں جاری رہتا ہے۔ یہ دعوتی عمل جاری رہے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
دعوت کے بعد مزید جو واقعات پیش آتے ہیں ان کا تعلق داعی سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق مدعو سے ہے۔ دعوت کا عمل یکساں نوعیت کا ایک عمل ہے مگر جن انسانوں کے درمیان دعوت کا عمل کیا جاتا ہے وہ ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے۔ دوسرے انسانوں کا یہی فرق مختلف قسم کے واقعات کو ظہور میں لانے کا اصل سبب ہے۔ پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ دعوت کے بعدکبھی طوفانِ نوح جیسا واقعہ پیش آیا، کبھی مدعو کی طرف سے وہ صورت پیش آئی، جس کا ایک نمونہ حضرت یونس کی زندگی میں ملتا ہے۔ کبھی وہ واقعہ پیش آیا،جس کی ایک مثال حضرت یوسف کے معاصر بادشاہ کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح مختلف پیغمبروں کے یہاں مختلف نمونے نظر آتے ہیں۔انہی میں سے ایک نمونہ وہ ہے جس کی مثال پیغمبر اسلام کے زمانے میں مکّی اور مدنی دورکی صورت میں پیش آیا۔
اب عالمی افکار کے انقلاب کے بعد دنیا میں بالکل نئی صورت ِ حال سامنے آئی ہے۔ اب دعوت کا طریقہ اور مدعو کا ردّ عمل دونوں بدل چکے ہیں۔ دورِ قدیم کے تجربات کو لے کر بعض یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بھی ہم کو اسی طریقے کو دہرانا ہے، مثلاً وہ کہتے ہیں کہ قدیم زمانہ کے داعی آگ میں ڈالے گئے اور اُن سے جنگ کی گئی اور ان کو ملک بدر کیا گیا، یہ سب واقعات موجودہ زمانے کے داعیوں کے ساتھ بھی پیش آنے چاہئیں، ورنہ ان کی دعوت پیغمبرانہ دعوت نہیں قرار پائے گی۔
اس قسم کا نظریہ بلاشبہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ اس قسم کے واقعات کا تعلق دعوت سے نہیں بلکہ مدعو کے ردّعمل سے ہے۔ قرآن میں اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی تھی:رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (2:286)۔ یعنی اے ہمارے رب! ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا تونے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔
حقیقت یہ ہے کہ نبوتِ محمدی کے ظہور کے بعد تاریخ میں تدریجی تغیر کا ایک عمل شروع ہوا۔ جس کے نتیجے میں آخر کار یہ ہوا کہ اسلامی دعوت کے راستے کی تمام رُکاوٹیں ختم ہوگئیں، اور داعیوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ آزادانہ ماحول میں دعوت الی اللہ کا عمل جاری کرسکیں۔ مگر بد قسمتی سے زمانۂ جدید کے یہ قیمتی مواقع استعمال نہ ہوسکے۔اس کا سب سے بڑا سبب مذکورہ قسم کا نام نہاد انقلابی نظریہ ہے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کے دماغ میں یہ بسا ہوا تھا کہ اگر زندان وسلاسل کی جھنکار بلند نہ ہو اور جنگ وجدال کا معرکہ گرم نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ دعوت الی اللہ کا کام ہی نہیں ہُوا۔ چنانچہ انہوں نے خود ساختہ طور پر مُڈبھیڑ اور مسلّح ٹکراؤ کی صورتیں پیدا کر رکھیں ہیں، اور اس کے بعد پُر فخر طورپر کہتے ہیں کہ دیکھو، ہم وہ لوگ ہیں،جو حقیقی دعوت الی اللہ کا کام کرتے ہیں۔
انقلابی اسلام کے ان نام نہاد مجاہدین پر صحابیٔ رسول حضرت عبد اللہ بن عمر کے الفاظ صادق آتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہدایات کے باوجود جب خلافت راشدہ کے آخری زمانے میں مسلمان اسلام کے نام پر خونیں لڑائی لڑنے لگے، اُس وقت حضرت عبد اللہ بن عمر نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ اپنے اس متشددانہ عمل کو جہاد سمجھتے ہو حالاں کہ وہ ہر گز جہاد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ کی قیادت کے تحت لڑکر فتنے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا، اب تم اپنی خود ساختہ لڑائی کے تحت اس ختم شدہ فتنے کو دوبارہ زندہ کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4513)(بنگلور کا سفر)
اسلام کیوں قبول کیا
میرے ساتھی نے نومسلم سے پوچھا کہ آپ یہودیت کو چھوڑ کر اسلام میں کیسے آئے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پہلے گویا کہ میں چاند پر تھا اور اب میں زمین پر آگیا ہوں:
Earlier I was living on the moon, now I am living on earth.
مذکورہ نومسلم کا مطلب یہ تھا کہ پہلے میں اپنی فطرت کی مطلوب دنیا کے لیے گویا خلا میں سرگرداں تھا اب میں نے اپنی فطرت کی آواز کے مطابق یہ مطلوب دنیا پالی ہے۔ ان کو اسلام کی یہ دریافت ایک صوفی بزرگ کے ذریعہ ہوئی۔ وہ مادّی دنیا سے غیر مطمئن تھے۔ مادی ترقیوں میں انہیں اپنی فطرت کا جواب نہیں مل رہا تھا۔ پھر جب وہ صوفی بزرگ سے ملے تو انہیں روحانیت کی سطح پر اپنی فطرت کا جواب مل گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اب نہایت اطمینان کی حالت میں ہیں۔ ان کو کامل ذہنی سکون مل گیا ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت ذکر اور تسبیح میں گزارتے ہیں۔ (اسپین کا سفر)