مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
(حدیث نمبر 86-95)
86
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: الله تعالي نے هر آدمي پر اس كے حصه كا زنا لكھ ديا هے جس كو وه ضرور پائے گا۔ آنكھ كا زنا ديكھنا هے اور زبان كا زنا گفتگو هے۔ دل تمنا اور خواهش كرتاهے، شرمگاه اس خواهش كو سچا يا جھوٹا كرتي هے۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر6343، صحیح مسلم، حدیث نمبر20)
مرد اور عورت كے درميان ايك دوسرے كے لیے شديد كشش ركھي گئي هے۔ اس لیے فطري طورپر ايسا هوتا هے كه ايك كے دل ميں دوسرے كي نسبت سے غلط خيالات پيدا هوتے هيں۔ مگر ايسے كسي خيال پر اس وقت تك پكڑ نهيں جب تك كه اقدام كركے اس كو عملي واقعه نه بنا ديا جائے۔
87
عمران بن حصين رضي الله عنه كهتے هيں كه قبيلهٔ مزينه كے دو آدميوں نے رسول صلى الله عليه وسلم سے كها كه اے خدا كے رسول، آپ کا کیا خیال ہے، لوگ آج جو عمل كررهے هيں اور جو کچھ وہ کوشش کر رہے هيں، كيا يه ایسی چيز هے جس كا ان کے بارے میں (پہلے)فيصله هوچكا هے ، یعنی جو ان میں جاری ہوچكا هے، وہ پہلے ہی سےمقدر ہے۔ يا وه ان چیزوں میں سے ہےجو مستقبل میں طے ہوتا ہےاس بنیاد پرجیسا کہ ان کے نبی ان كے پاس (تعلیم)لائے، اور حجت قائم ہوگئی۔ آپ نے فرمايا، نهيں، بلكہ ایسی چیز ہےجو ان کے بارےمیں قرار پاچکی ہے اوروہ ان میں جاری ہے، اُس اعتبار سےجیسا کہ الله كي كتاب ( 91:7-8)تصدیق کرتی هے: اور جان كي قسم جيسا كه اس كو ٹھيك كيا۔ پھر اس كو سمجھ دي، اس كي بدي كي اور اس كي نيكي كي ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر10)
قرآن كي مذکورہ آيت كے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول كا مطلب يه هے كه انسان كو الله تعالي نے صحيح فطرت پر پيدا كيا هے اورنیکی اور بدی کا شعور پیدائشی طور پراس کے اندر رکھ دیا ہے۔اس کو عقل و شعورکی صلاحیت عطا کی ہے، جس کے ذریعہ وہ برائي اور بھلائي کے درمیا ن تميز کرسکتا هے۔اس کو یہ سمجھ عطا کی ہے کہ دنیا میں کیا چیز اس کے لیے بری ہے، اور کیا چیز اچھی۔ يهي وه چيز هے جس كي بنياد پر انسان كي پكڑ هوگي۔
88
ابو هريره رضي الله عنه بتاتے هيں كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم سے كها كه ميں ايك جوان آدمي هوں اور ميں اپنے آپ پر گناه سے ڈرتا هوں۔ اور ميں يه وسعت نهيں پاتا كه ميں عورتوں سے نكاح كروں۔ گويا كه وه آپ سے خصي (castrate)هونے كي اجازت چاهتے تھے۔ وه كهتے هيں كه ميرے سوال پر نبي صلي الله عليه وسلم خاموش رهے۔ ميں نے دوبارہ اسی طرح پوچھا۔ مگر آپ خاموش رهے۔ ميں نے پھروہی دہرایا۔ مگر آپ خاموش رهے۔ ميں نےچوتھی باروہی بات دہرائی تو رسول الله نے فرمايا كه اے ابوهريره، قلم خشك هوچكا، جو تمهارے ساتھ هونے والا هے، چاهے تم خصي بن جاؤ يا تم رهنے دو (صحیح البخاري، حدیث نمبر5076)۔
بار بار سوال كے باوجود رسول الله صلي الله عليه وسلم كي خاموشي غالباً اس لیے تھي كه اسلام ميں يه پسنديده نهيں كه آدمي هر مسئله كو شرعي مسئله بنا كر اس كے بارے ميں سوال كرے۔ اسلام كے مطابق آدمي كے لیے زياده درست بات يه هے كه وه شريعت كے واضح احكام كو سامنے ركھے اور پھر اپنے ضمير كي روشني ميں معاملے كا فيصله كرے۔
89
عبد الله بن عمرو رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: تمام انسانوں كے دل الله كي دو انگليوں كے درميان هے، ايك دل كي مانند۔ وه جس طرح چاهتا هے اس كو پھيرتا رهتا هے۔ پھر رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا— اے الله، دلوں كو پھيرنے والے همارے دلوں كو اپني فرماں برداري كي طرف پھيردے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2654)
اس حديث كا مطلب مذكوره دعا (اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ) كے ذريعه واضح هوتا هے۔ اس كا مطلب يه هے كه جو آدمی اپنا تزکیۂ نفس کرنا چاہے اس كو اپنی كوشش كے ساتھ خدا سے مدد مانگنا چاهیے۔ كيوں كه انسان خدا کی مدد کے بغیر تنہا اپنےتزکیہ کا عمل ہرگز انجام نہیں دے سکتا ہے۔
90
ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: هر پيدا هونے والا فطرت پر پيدا هوتا هے۔ پھر اس كے ماں باپ اس كو يهودي بناديتے هيں يا نصراني بنا ديتے هيں يا مجوسي بناديتے هيں جيسا كه جانور بے عيب بچه جنتا هے۔ كيا تم اس ميں كوئي جسماني خرابي پاتے هو۔ پھرابوہریرہ نےقرآن سے سورہ الروم كي آيت 30 پڑھي: یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو بنایا ہے (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر1358، صحیح مسلم، حدیث نمبر22)۔
تمام انسانوں كي فطرت (نيچر) ايك هے۔ هر آدمي اسي فطرت پر پيدا هوتا هے۔ اس كے بعد جب وه ماحول كے اندر نشوونما پاتا هے تو اس كي فطرت پر ماحول كا اثر غالب آجاتاهے۔ اگر آدمي اپني ابتدائي فطرت كو زنده ركھے تو كوئي برائی آدمی کو خدا كے مطلوب راسته سے دور نہیں کرسکتی ۔
اس حدیثِ رسول میں والدین سے مراد قریبی ماحول ہے۔ہر انسان پیدائشی طور پر مسٹر نیچر ہے، لیکن ماحول کے اثر سے وہ مسٹر کنڈیشنڈ (Mr. Conditioned)بن جاتا ہے۔یہ کنڈیشننگ بلاشبہ ہر انسا ن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اِس بنا پر ہر انسان درست سوچ (right thinking) سے محروم رہتاہے۔ وہ کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ جیتا ہے اور کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ ہی مرجاتا ہے۔ اپنی عدم واقفیت کی بنا پر اس کو کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیںہوتی کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔
انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنے شعوری فیصلے کے تحت، اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ انسانِ فطری (Mr. Nature) بنائے۔ جو آدمی ایسا نہ کرسکے، وہ سچائی کو دریافت کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ خواہ رسول کے زمانے کا انسان ہو یا رسول کے بعد کے زمانے کا انسان ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر آدمی اپنا بے لاگ محاسبہ (introspection) کرکے اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے۔اور سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے آپ کو اس کنڈیشننگ سے آزاد كرے۔ یہاں تک کہ وہ دھیرے دھیرے مکمل معنوں میں ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بن جائے۔ ڈی کنڈیشننگ کے عمل کو غالباًقرآن میں تزکیہ کہا گیا ہے۔
91
ابو موسي الاشعري رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم همارے درميان كھڑے هوئے اور آپ نے هم كو پانچ باتيں بتائيں— الله كبھي نهيں سوتا اور نه اس كي يه شان هے كه وه سوئے۔ وه ترازو كو جھكاتا هے اور وهي اس كو اٹھاتا هے۔ اس كے يهاں تمام اعمال پيش كیے جاتے هيں، رات كا عمل دن كے عمل سے پهلے اور دن كا عمل رات كے عمل سے پهلے۔ اس كا پرده نور هے۔ اگر وه اپنا پرده اٹھا دے تو اس كي ذات كي شعائيں حد نظر تك مخلوق كو جلا ديں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر179)
اس حديث ميں دو حقيقتيں بتائي گئي هيں۔ ايك يه كه خدا لامحدود (limitless)طاقتوں كا مالك هے۔ اور دوسرے يه كه خدا هر لمحه انسان كے قول وعمل سے با خبر رهتا هے۔ يه دونوں باتيں اگر انسان كے ذهن ميں تازه رهيں تو وه اس كي هدايت كے لیے كافي هوجائيں۔
92
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله كا هاتھ بھرا هوا هے، اس کو رات اور دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی ہے، پھر آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے غور کیا ، جب سے آسمانوں اور زمین کو اللہ نے پیدا کیا ہے کس قدر خرچ کررہا ہے ، مگر جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے، اس میں کمی نہیں ہوئی ، پھر فرمایا کہ اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے کہ وه اس كو جھكاتا هےاور وه اس كو اٹھاتا هے (متفق عليه)۔ امام مسلم كي روايت ميں هے كه الله كا داياں هاتھ بھرا هوا هے۔ اور ابن نمير(راوی) نے كها كه بھرا هوا هے، وه خرچ كرتا اور ديتا هے، دن ميں بھي اور رات ميں بھي،اور اس ميں كوئي كمي نهيں هوتي (متفق علیہ: صحیح البخاري ، حدیث نمبر4684؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر37)۔
اس حديث ميں خدا كي اتھاه قدرت و ملکیت كو بيان كيا گيا هے۔ایمان کاآغاز خدا کی معرفت سے ہوتا ہے۔ یعنی تخلیقات میں غور و فکر کرکے خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا ۔جدید سائنسی انکشافات نے اس غور و فکر کا دائرہ لامحدود حد تک وسیع کردیا ہے۔انسان جب تدبر و تفکر کےذریعہ اعلی معرفتِ خداوندی کاادراک کرتاہے تو وہ پاتاہے کہ انسان عاجز مطلق (all-powerless) ہے اور خدا قادرِ مطلق (all-powerful) ۔ خدا كي قدرت كي يه لامحدوديت تقاضا كرتي هے كه انسان بلاشرط اس پر يقين كرے، كسي بھي حال ميں اس كا اعتماد متزلزل نه هو۔
93
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم سے مشركين كي اولاد كے بارے ميں سوال كياگيا۔ آپ نے فرمايا كه الله زياده جانتا هے كه وه كيا عمل كرتے ہیں)متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر1384، صحیح مسلم، حدیث نمبر26(۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مذكوره سوال كا واضح اور قطعي جواب نهيں ديا۔ اس ميں غالباً اشاره هےكه اس طرح كے سوالات كا تعلق خدا سے هے، نه كه انسان سے۔ اس لیے بهتر هے كه اس بارے ميں توقف كيا جائے۔ اور حتمي انداز ميں انكو جنتي ياجهنمي نه بتايا جائے۔
94
عباده بن الصامت رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله نے سب سے پهلے جو چيز پيدا كي وه قلم هے۔ اس نے قلم سے كها كه لكھ۔ قلم نے كها كه ميں كيا لكھوں۔ الله نے فرمايا كه تقدير كو لكھ، یعنی هر وه چيز جو واقع هوچکی ہے اور جو( مستقبل میں) واقع هونے والی ہے (سنن الترمذي، حدیث نمبر2155)۔
اس حديث ميں تمثيل كي زبان ميں يه بتايا گيا هے كه خدا نے كائنات كو پيدا كرتے هي اس كا ايك ابدي قانون مقرر كرديا۔اب كائنات اور انساني تاريخ ابد تك اسي قانون پر چلے گي، اس ميں كوئي تبديلي هونے والي نهيں۔
95
مسلم بن يسار تابعي كهتے هيں كه عمر بن الخطاب سے قرآن كي آيت ( وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ الخ) كے بارے ميں پوچھا گيا۔ عمر نے جواب ديا كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم سے اس آيت كے بارے ميں سوال كرتے هوئے سنا۔ آپ نے فرمايا كه الله نے آدم كو پيدا كيا۔ پھر ان كي پشت پر اپنا داهنا هاتھ پھيرا۔ پھران كي پشت سےان کی اولاد كو نكالا۔ پھر الله نے فرمايا كه ميں نے اِن لوگوں كو جنت كے لیے پيدا كيا هے۔ اور وه اهل جنت والا عمل كريں گے۔ الله نے پھر اپنا هاتھ آدم كي پيٹھ پر پھيرا۔ اور كها كه ميں نے ان كو جهنم كے لیے پيدا كيا هے۔ اور وه اهل دوزخ والا عمل كريں گے۔ ايك آدمي نے كها كه اے خدا كے رسول پھر كس چيز ميں عمل۔ تو رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جب الله كسي بنده كو جنت كے لیے پيدا كرتا هے تو اس كو اهل جنت والے عمل ميں لگا ديتا هے، يهاں تك كه اس كي وفات اهلِ جنت كے اعمال ميں سے كسي عمل پر هوتي هے پھر اس عمل كي بنياد پر اس كو جنت ميں داخل كرديتا هے۔ اور جب الله كسي بندے كو دوزخ كے لیے پيدا كرديتا هے تو اس كو اهلِ دوزخ والےعمل ميں لگا ديتا هے، يهاں تك كه اس كي وفات اهلِ دوزخ كے اعمال ميں سے كسي عمل پر هوتي هے پھر اس عمل كي بنياد پر اس كو دوزخ ميں داخل كرديتا هے (موطاامام مالك،حدیث نمبر2، سنن الترمذي، حدیث نمبر3075؛ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر4703)۔
مکمل آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھ سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان کو گواہ ٹھہرایا خود ان کے اوپر۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ انھوں نے کہا ہاں، ہم اقرار کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوا کہ کہیں تم قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر نہ تھی (7:172)۔
اس حديث ميں دراصل مشيتِ الٰهي (تقدیر )كي زبان ميں قانونِ الٰهي كا ذكر هے۔ اس كا مطلب يه هے كه جو انسان خدا كے مقرر كیے هوئے راستے كي پيروي كرے گا وه آخر كار جنت ميں پهنچے گا اور جو شخص ان خدائي راستے سے انحراف كرے گا وه جهنم كا مستحق قرار پائے گا۔كوئي بھي چيز اس كو جهنم سے بچانے والي نه هوگي۔اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نےآزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں اپنی آزادی کو استعمال کرنے کا کامل اختیار اصل ہے۔ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جیسا چاہےعمل کرے۔خالق نے انسان کو پیغمبر کے ذریعےجو دین بھیجا ، اس کی حیثیت رہنما (گائڈ) کی ہے۔ لیکن فیصلہ پھر بھی انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس گائڈ کا کام انسان کو صرف یہ بتانا ہےکہ صحیح کیا ہےاور غلط کیا ۔یہ رہنما انسان پر کسی قسم کا کوئی جبر قائم نہیں کرتا۔ انسان کی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جس کی بنا پر اس کو خلیفہ کہا گیا ہے(البقرۃ، 2:30)۔ خلیفہ کا لفظی مطلب ہے بعد کو آنے والا (successor)۔ لیکن مفہوم کے اعتبار سے اس کا مطلب ہےاپنے اختیارات کو آزادانہ طور پر استعمال کرنے والی مخلوق۔ اسی آزادی کے صحیح یا غلط استعمال پر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔