ڈائلاگ اسلام ميں

ڈائلاگ يا مكالمه دو شخصيتوں يا دو پارٹيوں كے درميان بات چيت (conversation) كا نام هے۔ ڈائلاگ (dialogue)كا مقصد يه هے كه كسي اختلافي مسئلے كا پرامن حل تلاش كيا جائے:

A discussion between representatives of parties to a conflict that is aimed at finding a resolution.

ڈائلاگ دور جدید کا ظاہرہ ہے، قديم بادشاهي دور ميں آزادانه ڈائلاگ كا رواج نه تھا۔ جب دنيا ميں ڈيماكريسي آئي تو فطري طورپر لوگوں كے درميان آزادانه ڈائلاگ هونے لگا۔ يه ڈائلاگ سياسي سطح پر بھي جاري هوا، اور غير سياسي سطح پر بھي۔

ڈائلاگ دراصل انسانی سماج كو حيواني سطح سے اٹھا كر انساني سطح ميں لانے كا نام هے۔ انسانوں كے درميان اختلاف ايك فطري چيز هے۔ قديم زمانے ميں لوگ اختلاف كي باتوں پر لڑ جاتے تھے ۔ وه اختلاف كو طے كرنے كا ايك هي طريقه جانتے تھے، اور وه لڑائي تھي۔ ليكن ڈيماكريسي نے اس طريقے كو ختم كرديا، اور انسان كو جنگل كلچر كے دور سے نكال كر امن كلچر كے دور ميں پهنچايا۔

ڈائلاگ يا پرامن مكالمے كا طريقه عين اسلام كا طريقه هے۔ اسلام كي بنياد دعوت كے اصول پر قائم هے، اور دعوت پرامن گفت وشنيد(discussion) كا دوسرا نام هے۔ اسلام ميں تشدد مكمل طورپر حرام عمل هے (المائدہ، 5:32-33)۔ اس سے صرف ايك استثناء هے، اور وه دفاع هے(الحج، 22:39)۔ يه دفاع(defence)  خارجي حملے كے وقت هوتا هے۔ اور دفاع كا يه كام بھي صرف باقاعده طورپر قائم شده حكومت كرسكتي هے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1841)۔ غير حكومتي تنظيم دفاع يا انصاف كے نام پر متشددانه لڑائي لڑنے كا حق نهيں ركھتي۔

پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم نے 610 عيسوي ميں عرب ميں اپنا مشن شروع كيا۔ يه مشن كيا تھا۔ وه مشن يه تھا كه آپ اپني آئيڈيالوجي كو لے كر لوگوں ميں جائيں اور لوگوں سے اس كے بارے ميں بات چيت كريں۔ ان كے اعتراضات كو سنيں اور دليل كے ذريعے اپنے نقطهٔ نظر پر انھيں مطمئن كرنے كي كوشش كريں۔ پيغمبر اسلام پر جب وحي اترنا شروع هوئي تو اس كے آغاز ميں هي آپ پر يه آيت اتري:وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (37:11)۔ يعني خدا كي طرف سے آپ كو جو نظريهٔ حيات دياگيا هے، لوگوں كے درميان اس كا چرچا كريں۔ آپ كا نظريهٔ حيات توحيد پر مبني تھا، جب كه اس وقت عرب كے لوگ شرك پر عقيده ركھتے تھے۔ اس لیے فطري طور پر آپ صلي الله عليه وسلم كا مشن دو طرفه گفت وشنيد كا موضوع بن گيا۔ آپ لوگوں سے اپني بات كهتے اور لوگوں كا رد عمل سنتے اور پھر اس كي مزيد وضاحت كرتے۔ اسي طرح آپ كا مشن عملاً وهي چيز بن گيا جس كو موجوده زمانے ميں ڈائلاگ كهاجاتا هے۔

دورِ جدید کو دور ڈائلاگ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگ ڈبیٹ(debate) اور ڈائلاگ میں فرق نہیں کرتے۔ وہ ڈائلاگ کے نام پر سیمینار کرتے ہیں اور پھر وہاں ڈبیٹ کرنے لگتے ہیں۔ ڈائلاگ کا مقصد کامن گراؤنڈ تلاش کرنا ہوتا ہے، جب کہ ڈبیٹ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی پر اپنی برتری کو ثابت کیاجائے۔ سب سے پہلے اِس سوچ کو بدلنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی کوئی ڈائلاگ مفیدہوسکتا ہے۔

اس ڈائلاگ كو مفيد بنانے كے لیے قرآن ميں كچھ بامعني اصول بتائے گئےهيں۔ ان اصولوں ميں سے كچھ اصولوں كا هم يهاں تذكره كريں گے۔

1۔ اس سلسلے ميں قرآن كي ايك آيت یہ هے:اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ  ( 16:125)۔ یعنی، اپنے رب كےراستے كي طرف حكمت اور اچھي نصيحت كے ساتھ بلاؤ، اور ان سے اچھے طريقے (جدالِ احسن) سے بحث كرو۔

اس آيت ميں بتايا گيا هے كه دوسروں سے تم جو گفتگو كرو وه ’جدالِ احسن‘ كے طريقے پر هو۔ يعني فريقِ ثاني سے تكرار نه كرنا، بلكه اس كے اختلاف كو سن كر سنجيدگي كے ساتھ ايسي بات كهنا جو اس كے مائنڈ كو ايڈريس كرنے والي هو۔ گفتگو محض بحث و مباحثے پر ختم نه هو بلكه وه ايك نتيجه خيز انجام پر ختم هو۔ بات چيت كےدوران حريفانه اور رقيبانه انداز اختيار نه كيا جائے بلكه علمي انداز اختيار كيا جائے۔

2۔  اس سلسلے ميں دوسري آيت يه هے:وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (41:34)۔ یعنی، اور بھلائي اور برائي دونوں برابر نهيں ، تم جواب ميں وه كهو جو اس سے بهتر هو۔ پھر تم ديكھو گے كه تم ميں اور جس ميں دشمني تھي وه ايسا هوگيا جيسے كوئي دوست قرابت والا۔

قرآن كي اس آيت ميں بتايا گيا هے كه كوئي آدمي مسٹر دشمن نهيں۔ هر آدمي امكاني طورپر مسٹر دوست هے۔ اس لیے كه هر آدمي ايك هي فطرت پر پيدا كياگيا هے، كئي فطرت پر نهيں۔ اس قرآني اصول سے معلوم هوتا هے كه ڈائلاگ كا آغاز اس طرح نهيں هونا چاهئے كه پهلے هي سے دونوں فريق ايك دوسرے كے بارے ميں نااميد بنے هوئے هوں۔ صحيح طريقه يه هے كه ڈائلاگ كا عمل پراميد ذهن كے ساتھ كيا جائے، نه كه نااميدي اور مايوسي كے ذهن كے ساتھ۔

3۔  اس سلسلے ميں قرآن كي ايك اور آيت يه هے:قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ (3:64)۔ یعنی، اے اهلِ كتاب، آؤ ايك ايسي بات كي طرف جو همارے اور تمھارے درميان مشترک هے كه هم خدا كے سوا كسي كي عبادت نه كريں۔

اس آيت سے معلوم هوتا هے كه جب دو فريق كے درميان بات چيت هو تو اس وقت موضوع گفتگو كا انتخاب كس طرح كيا جانا چاهیے۔ وه يه كه گفتگو كا آغاز اختلافی پهلو كو لے كر نه كيا جائے، بلكه دونوں فريقوں كے درميان كامن گراؤنڈ (كلمه سواء) تلاش كيا جائے اور اس كامن گراؤنڈ سے گفتگو كا آغاز كيا جائے۔ يعني گفتگو كا طريقه اختلاف سے اتفاق كي طرف نه هو بلكه اتفاق سے اختلاف كي طرف هو۔

4۔  اس سلسلے ميں ايك اور قابلِ حواله آيت يه هے:وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ( 6:108)۔ یعنی، اور خدا كے سوا جن كو يه لوگ پكارتے هيں ان كو تم برا بھلا نه كهو ورنه يه لوگ حد سے گزر كر جهالت كي بنا پر خدا كو برا بھلا كهنے لگيں گے۔

قرآن كي اس آيت سے معلوم هوتا هے كه جب دو فريقوں كے درميان ايك اختلافي موضوع پر ڈائلاگ هو تو ضروري هے كه ڈائلاگ كے باهر موافقِ ڈائلاگ فضا كو باقي ركھا جائے۔ اگر ايسا هو كه دونوں فريقوں كا ميڈيا ايك دوسرے كے خلاف نفرت كي باتيں پھيلا رها هو۔دونوں طرف كے لوگ ايسي باتوں كا چرچا كرنے ميں مصروف هوں جس سے ايك دوسرے كے خلاف معاندانه جذبات پيدا هوتے هيں توايسي غير موافق فضا ميں مفيد ڈائلاگ نهيں هوسكتا۔ يه ايك حقيقت هے كه ڈائلاگ كے نتيجه خيز هونے كا تعلق، صرف كمرهٔ ڈائلاگ كي بات چيت پر منحصر نهيں هوتا، بلكه اس پر منحصر هوتا هے كه كمرهٔ ڈائلاگ كے باهر جو فضا بنائي گئي هے وه ڈائلاگ كے حق ميں هے يا اس كے خلاف هے۔

ڈائلاگ كا ايك اور اصول وه هے جو سنتِ رسول سے ثابت هوتا هے، يه اصول حديبيه كے معاهدے سے معلوم هوتا هے۔ يه معاهده پيغمبر اسلام اور قريش كے درميان لمبي بات چيت كے بعد طے پايا تھا۔ جيسا كه تاريخ سے معلوم هوتا هے، يه معاهده اس طرح ممكن هوا كه پيغمبر اسلام نے قريش كي كئي شرطوں كو يك طرفه طورپر مان ليا۔ پيغمبر كي اس سنت سے ڈائلاگ كا يه اصول اخذ هوتا هے كه دونوں فريق اپنے اپنے نقطه نظر كو دليل كے ساتھ پيش كريں۔ ليكن اسي كے ساتھ دونوں اس بات كے ليے تيار رهيں كه ڈائلاگ هميشه لينے اور دينے (give and take) كےاصول كو اختيار كركے كامياب هوتا هے نه كه صرف لينے كے اصول پر اصرار كرنے سے۔ عملي معاملات ميں اسلام آخري حد تك لچك كے اصول كو پسند كرتا هے۔

اسلامي تاريخ كے مطالعے سے معلوم هوتا كه اسلام ميں صرف ڈائلاگ كے اصول نهيں بتائے گئے هيں بلكه ڈائلاگ كے اصول كا عملي تجربه بھي بار بار كياگيا هے۔ اسلامي تاريخ ميں اس كي بهت سي مثاليں موجود هيں۔

پيغمبر اسلام نےاپنے مشن كے مكي دور ميں بار بار ڈائلاگ كے اصول پر عمل كيا۔ مثلاً ايك بار قريش نے اپنے سردار عقبه بن ربيعه كو اپنا نمائنده بنا كر پيغمبر اسلام كے پاس بھيجا تاكه باهمي اختلاف كے موضوع پر بات چيت كركے صلح كا ماحول بنايا جائے۔ روايات سے معلوم هوتاهے كه عقبه نے نهايت غور كے ساتھ آپ كي باتيں سنيں اور قريش كے پاس جاكر انھيں اس سے آگاه كيا۔ اسي طرح ايك بار آپ كے چچا ابو طالب كي دعوت پر آپ اور قريش كے نمائندے اكٹھا هوئے اور اختلافي موضوعات پر پرامن انداز ميں بات چيت هوئي۔

اسي طرح حديبيه كے موقع پر پيغمبر اسلام اور قريش كے درميان ايك گفت وشنيد هوئي۔ اس كا سلسله تقريباً دو هفتے تك جاري رها۔ اس كے بعد دونوں فريقوں كے درميان وه معاهدهٔ طے پايا جس كو معاهدهٔ حديبيه كهاجاتا هے۔ يه واقعه بلا شبه پرامن ڈائلاگ كي ايك كامياب مثال هے۔

اسي طرح پيغمبر اسلام كي موجود گي ميں تين مذاهب — اسلام، مسيحيت اور يهوديت كے نمائندوں كے درميان ٹرائلاگ هوا(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 549)۔ يه ٹرائلاگ (trialogue) مدينه كي مسجد نبوي ميں هوا۔ عرب مصنّفين نے اس كو مؤتمر الأديان الثلاثة كا نام ديا هے۔ يعني تين مذهبوں كے درميان ٹرائلاگ۔ غالباً يه تاريخ كا پهلا ٹرائلاگ تھا جو مقدس عبادت خانے كے اندر هوا۔ اس سے اندازه هوتا هے كه اسلام ميں پرامن گفت وشنيد كو كتني زياده اهميت دي گئي هے۔

اسلام كي تاريخ ميں اس طرح كي متعدد مثاليں موجود هيں۔ يه مثاليں اس معیاری زمانے سے تعلق ركھتي هيں، جس كو عهد نبوت اور عهد صحابه كهاجاتا هے۔ اس لیے ڈائلاگ يا باهمي گفت وشنيد كے اصول كو اسلام ميں ايك مستند اصول كي حيثيت حاصل هے۔

خلاصهٔ كلام

 اسلام كا طريقه پرامن ڈائلاگ كا طريقه هے۔ قرآن ميں بتايا گيا هے كه صلح كا طريقه سب سے بهتر طريقه هے (4:128)۔ اسي طرح ايك اور آيت ميں آيا هے كه اختلاف كے موقع پر باهمي گفت وشنيد اور ثالثی (negotiation and mediation)کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے (4:35)۔ حدیث میں آیا ہے کہ دشمن سے مڈبھيڑ کی خواہش نه كرو بلكه الله سے عافيت مانگو (لَا ‌تَتَمَنَّوْا ‌لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَسَلُوا اللهَ الْعَافِيَةَ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 7237۔

اسلام كا مقصد رباني انقلاب لانا هے۔ لوگوں كو خدا پرستانه زندگي كي طرف بلانا هے۔ ايك ايسا سماج بنانا هے جهاں روحاني اور اخلاقي اور انساني قدروں كا رواج هو۔ اسلام ايك ايسے ماحول كا داعي هے جهاں امن اور ٹالرنس اور محبت اور خير خواهانه تعلقات كا مزاج لوگوں كے اندر پايا جائے۔ جهاں  نزاعات كو تشدد كے بغير حل كيا جائے۔ يهي اسلام كي مطلوب دنيا هے۔ ايسي دنيا صرف پرامن ڈائلاگ كے ذريعے هي قائم كي جاسكتي هے۔ حقيقت يه هے كه اسلام عقيدے كے اعتبار سے توحيد پر قائم هے اور طريقِ كار كے اعتبار سے پرامن ڈائلاگ پر۔ يهي اسلامي تعليمات كا خلاصه هے۔ اس كے سوا جو طريقه هے اس كو اسلام كا طريقه نهيں كها جاسكتا (6 جون 2006)۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom