جدید مسئلہ کیا ہے ؟

 انسانی تاریخ کو دوبڑے دوروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ دور سائنس سے پہلے، اوردور سائنس کے بعد ۔ وہ چیز جس کو " دور جدید" کہتے ہیں، وہ حقیقۃً دور سائنس کا دوسرا نام ہے۔ یہ دور واضح طور پر سترھویں صدی میں شروع ہوا اور دوسری جنگ عظیم (1939-45ء) تک اپنے آخری عروج پر پہنچ گیا۔

 انسان خارجی طور پر جو عمل کرتا ہے، اس کے لیے اس کے پاس دو قدرتی ذریعے ہیں: حواس (senses)اور طاقت۔ حواس کے ذریعے وہ اشیاء کا علم حاصل کرتا ہے، اور طاقت کے ذریعے اپنے ارادہ کو ان کے اوپر نافذ کر کے ان کو اپنے لیے کارآمد بناتا ہے ۔ یہ دونوں عمل قدیم ترین زمانے سے جاری ہیں۔ پچھلے زمانہ میں اشیاء کو جاننے کے لیے اس کے پاس صرف وہ قدرتی عطیات تھے جن کو حواس خمسہ (five senses)کہا جاتا ہے اور خارجی دنیا میں تصرف کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے ہاتھ پاؤں تھے یا حیوانی طاقت، مثلاً اونٹ، گھوڑے، ہاتھی، بیل وغیرہ ۔تاہم ان ابتدائی قدرتی عطیات کے علاوہ زمین میں بے شمار ایسی چیزیں تھیں جو اس بات کو ممکن بناتی تھیں کہ ان کو حاصل کرکے آدمی اپنے حواس اور طاقت دونوں کی مقدار کو بڑھا سکے۔

اضافےکا یہ عمل نا معلوم زمانے سے جاری تھا۔ مردہ تہذیبوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے ادوار میں بھی انسان اس میدان میں بڑی بڑی ترقیات حاصل کرتا رہا ہے۔ تاہم ماضی کی تمام ترقیاں ابتدائی فطری حدود کے اندر ہوتی تھیں ۔ مثلاً پتھر کی جگہ لوہے کو کام میں لانا یا پہیہ دار گاڑی بنا کر جانوروں کو سواری کے لیے استعمال کرنا ۔ موجودہ دور کو یہ اولیت حاصل ہے کہ اس نے معلوم تاریخ میں پہلی بار فطرت میں چھپی ہوئی انرجی کو استعمال کرکےایسے میکانکی اور آلاتی معاون دریافت کرلیے جو ہمارے دیکھنے اور تجربہ کرنے کی صلاحیت کو لاکھوں کروروں گنا زیادہ بڑھا سکتے تھے۔

اس دریافت کا براہ راست فائدہ تو صرف یہ تھا کہ انسانی تمدن کے لیے مادی ترقی کا ایک نیا وسیع تر دروازہ کھل گیا۔ انسان کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ اپنے سفر کی رفتار کو بےحساب مقدار میں بڑھا سکے۔ زمین کے جن وسائل تک روایتی ذرائع سے اس کی دسترس نہیں ہو سکتی تھی، ان کو حاصل کر کے اپنی بستیوں کو نا قابل قیاس حد تک سنوارے ۔ تخریب و تعمیر(destruction and construction )  کے لیے ، مقدار اور نوعیت (quantity and quality )دونوں اعتبار سے ، اتنے زیادہ سامان فراہم کرلے جس کا خواب بھی پچھلے انسانوں نے نہیں دیکھا تھا ۔

تا ہم انسانی تاریخ کا اتنا بڑا واقعہ بالواسطہ اثرات پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس نے دھیرے دھیرے انسانی افکار پر بھی اپنے اثرات ڈالنے شروع کیے یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آخر تک یہ عالم ہو گیا کہ سارے علوم انسانی اس سے متاثر ہو کر رہ گئے۔ مذہب، اخلاق، فلسفہ، قانون، معاشیات، سیاسیات، غرض کوئی ذہنی موضوع ایسا نہ تھا جس نے گہرے طور پر اس سے اثر قبول نہ کیا ہو۔ فطری طور پر یہ اثر یک طرفہ تھا۔ فکری علوم سائنس کے او پر اپنی چھاپ نہ ڈال سکے ، وہ صرف سائنس کے عمومی غلبہ کا شکار ہو کر رہ گئے۔

 سائنس اپنی ابتدائی شکل میں فکری علوم کی موافق تھی، نہ کہ مخالف۔ انسان اگر نظام شمسی کی حرکت کا نقشہ معلوم کرلے ، یا آٹو میٹک مشین کے ذریعے کام لینے لگے تو اس میں اخلاق یا انسانی اقدار سے ٹکراؤ کا پہلو کیا ہے۔ تاہم سائنس کے ظہور کے ساتھ چند باتیں ایسی پیش آئیں جنھوں نے سائنس کو فکری علوم ، خاص طور پر مذہب و اخلاق سے متصادم کر دیصا۔

1۔ مذہب کے ماننے والوں نے سائنس کے ظہور سے پہلے روایتی معلومات کے تحت اپنا ایک فکری نظام بنا رکھا تھا۔ سائنس کی دریافتیں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو سائنس کی معلوم کردہ دنیا سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اب چونکہ سائنس زیادہ ترقی یافتہ ذرائع معلومات کے حوالے سے کلام کر رہی تھی ۔ قدرتی طور پر سمجھا گیا کہ وہی بات صحیح ہے جو سائنس کی طرف سے آئی ہے ۔ اس واقعہ نے مذہب کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار بنا دیا۔ اس میں مزید شدت اس واقعہ سے پیدا ہوئی کہ اہل مذہب، خصوصاً عیسائی حضرات نے اپنے روایتی عقائد کے تحفظ کے لیے سائنس کے خلاف نہایت سخت رویہ اختیار کیا۔

ماڈرن سائنس کا آغاز واضح صورت میں سولہویں صدی میں ہوا۔ مگر یہ ایک اتفاقی بات تھی کہ اپنے ابتدائی زمانہ میں سائنسدانوں نے عالم فطرت کے جو حقائق دریافت کیے وہ زوال یافتہ مسیحیت کے مزعومہ عقائد سے ٹکراتے تھے۔ مسیحیت کے پیشواچوںکہ اس وقت اقتدار کی حالت میں تھے، اُنہوں نے ان سائنس دانوں کی سخت مخالفت کی اور انہیں سخت سزائیں دیں۔اس کی تفصیل ولیم ڈریپر (وفات 1882ء)کی کتاب" معرکۂ مذہب وسائنس کی تاریخ" میں دیکھی جاسکتی ہے:

History of the Conflict between Religion and Science by John William Draper, London, 1875.

 مسیحی پیشواؤں کے اس اقدام نےعام لوگوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ یہ ٹکراؤ حقیقت میں مذہب اور سائنس کا ٹکراؤ ہے ، اور جب دلائل کی منطق صریح طور پر سائنس کی طرف ہے تو یقیناً مذہب ایک بے اصل چیز ہے۔ مذہب کی حقیقت تو ہم پرستی (superstition)کے سوا اور کچھ نہیں ۔یعنی یہ ٹکراؤ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اہل سائنس اور اہل مذہب کے درمیان تھا۔ مگر غلط طور پر اس کو سائنس اور مذہب کا ٹکراؤ سمجھ لیا گیا۔اُس وقت جذباتی ہیجان کی بنا پر اس فرق کو سمجھا نہ جاسکا اور سائنسی تہذیب غلط طور پراپنے آغاز ہی میں عملاً ایک مخالفِ مذہب تہذیب کی حیثیت اختیارکر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائنسی تہذیب کے لوگ مذہب کو اپنا حریف سمجھنے لگے اور اہل مذہب نےسائنس کو اپنا دشمن فرض کرلیا۔ یہ منفی ذہن ابتداً مسیحیت کے مقابلہ میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد وہ توسیع پاکر دوسرے مذاہب تک پہنچ گیا۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ زمین اور سورج کی گردش کے بارے میں قدیم یونان میں دو نظریے پیش کیے گئے تھے ۔ ایک ارسطو کا نظریہ جس کا مطلب یہ تھا کہ زمین قائم ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ دوسرا ارسٹاکس (Aristarchus) کا نظریہ جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھوم رہی تھی ۔

عیسائیوں کے درمیان ارسطو کا نظریہ بہت مقبول ہوا۔ کیوں کہ مرکزیت زمین کے نظریہ (Geocentric Theory) میں زمین کو بنیادی اہمیت حاصل ہو رہی تھی اور چونکہ انھوں نے حضرت مسیح کو خدائی کا مقام دے رکھا تھا۔ اس لیے ان کا خیال یہ ہو گیا کہ وہی کرہ نظام شمسی کا مرکز بن سکتا ہے جہاں خدا وندمسیح پیدا ہوئے ہیں۔ حتی کہ مرکز یت زمین کے نظریہ کو انھوں نے اپنے علم کلام میں داخل کرلیا ۔ کوپر نیکس (1473-1543ء)نے جب مرکزیت آفتاب کا نظریہ (heliocentric theory)پیش کیا تو یورپ کے عیسائی پیشواؤں کو اقتدار حاصل تھا۔ انھوں نے اپنے عقیدہ کے تحفظ کے لیے کو پر نیکس کے خلاف عدالتی سزا کا حکم جاری کر دیا۔ خداوند کی جنم بھومی کو تابع (satellite)قراردینا ایک ایسا جرم تھا جو کسی طرح معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔

مگر یہ مسئلہ روایتی عیسائیت کا تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں خدائی مذہب کا۔ چنانچہ مسلمان جو اس اعتقادی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے کہ پیغمبر کو خدا سمجھیں، انھوں نے مرکزیت آفتاب کے نظریہ کو زیادہ معقول پا کر اسے قبول کر لیا۔ ان کے یہاں یہ سوال نہیں اٹھا کہ شمسی مرکزیت کا نظر یہ مذہبی تعلیمات سے ٹکراتا ہے۔ امریکی رائٹر ایڈورڈ برنس نے لکھا ہے :

" ارسطو کے احترام کے باوجود عرب کائنات کے بارے میں ارسطو کے نظریہ پر تنقید کرنے میں نہیں ہچکچائے، جس کا مطلب یہ تھا کہ زمین آسمانی اجرام (celestial bodies)کا مرکز ہے اور تمام اجرام اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کے برعکس، عربوں نے اس امکان کو تسلیم کیا کہ زمین اپنے محور پر گردش کرتی ہوئی سورج کے گرد گھوم رہی ہے ۔"

Edward McNall Burns: Western Civilization, p. 264

2۔ دوسری غلطی سائنس دانوں یا کم از کم سائنس کے حوالے سے بولنے والوں نے کی ۔ عالم طبیعیات میں اپنی دریافت سے وہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے کہ وہ اس حیثیت میں ہیں کہ وسیع تر فلسفیانہ مسائل کے بارے میں رائے زنی کر سکیں۔ حالاں کہ، جیسا کہ بعد کو خود سائنس کی مزید دریافتوں سے معلوم ہوا ، عالم طبیعی کے بارے میں ان کے مشاہدات، فلسفه یا عالم افکار کے نازک مسائل کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے لیے انتہائی ناکافی تھے۔

سائنس دانوں کی غلطی کی ایک مثال اصول تعلیل(causation)میں ملتی ہے۔ اشیاء کے مشاہدہ سے جب یہ حقیقت ان کے سامنے آئی کہ واقعات کے پیچھے ایک سبب کار فرما ہوتا ہے، مثال کے طور پر اجرام سماوی (celestial bodies)کی گردش کے پیچھے جذب و کشش کا قانون (law of gravitation)یا قوس قزح (rainbow)کے پیچھے بارش کے قطرات سے سورج کی شعاعوں کا گزرنا ہے، تو انھوں نے سمجھ لیا کہ ان کو اس سوال کا جواب مل گیا ہے جس کے لیے فلسفہ ہزاروں سال سے "علت کائنات" کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ حالاں کہ علت کائنات کا مسئلہ نہایت گہرے سوالات سے جڑا ہوا تھا اور سائنس دانوں کا طبیعی مشاہدہ کسی بھی درجہ میں اس قابل نہ تھا کہ اس کو اس نازک اور گہرے سوال کے جواب کے لیے استعمال کیا جائے ۔ تاہم انھوں نے استعمال کیا۔ حتی کہ اس کو خالق کے انکار کا سب سے بڑا ثبوت سمجھ لیا ۔ مگر بیسویں صدی کے آغاز میں خود سائنس نے ایسے حقائق دریافت کیے جس کے بعد الحاد کی یہ بنیاد ہمیشہ کے لیے منہدم ہوگئی۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو یہ دو کتابیں" مذہب اور جدید چیلنج " اور "مذہب اور سائنس"  مطبوعہ گڈورڈ بکس، دہلی)۔

یہ ہے مختصر طور پر وہ فکری پس منظر جس میں جدید تاریخ کا وہ واقعہ وجود میں آیا جس کو مذہب اور سائنس کا تصادم کہا جاتا ہے۔

امت مسلمہ

 سائنس نے جدید دور کے ہر پہلو پر اتنی شدت اور وسعت کے ساتھ اثر ڈالا کہ علم کے تمام شعبوں اور فکر کے تمام گوشوں پر اس کی چھاپ پڑ گئی جس قدیم روایتی ڈھانچہ میں لوگوں نے اسلام کو پایا تھا، وہ بالکل ٹوٹ پھوٹ چکا تھا اور نیا فکری ڈھانچہ جو سائنس کے زیر اثربنا، اس کے تحت اسلامی افکار کی تشکیل نو نہ کی جاسکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نسل کی نسل کنفیوزن اور انتشار ذہنی کا شکار ہو کر رہ گئی ۔

 اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور میں ایسے لوگ معدوم ہو گئے جو اسلام کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہوں۔ بلاشبہ ایسے لوگ تھے اور کروروں کی تعداد میں تھے۔ مگر انھوں نے اسلام کو روایتی سطح پر پایا تھا، شعور کی سطح پر نہیں پایا تھا۔ اس کمی کا نتیجہ صرف یہ نہیں ہوا کہ لوگ ایمان کی اس اعلیٰ فکری سطح کو نہ پہنچ سکے جہاں آدمی گرد و پیش کے تمام واقعات کو اس طرح اپنے شعور حق کا جزء بنا لیتا ہے کہ ہر طرف اس کو خدا کا جلوہ دکھائی دینے لگتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ بڑا اجتماعی نقصان یہ ہوا کہ اس دور میں مسلمانوں کے جو مذہبی رہنما اٹھے، وہ خود بھی چونکہ ایسے تھے جنھوں نے فکر حاضر میں اپنے دین کو نہیں پایا تھا، بلکہ ماضی کے روایتی ڈھانچہ میں پایا تھا، اس لیے وہ دور جدید کے مطابق اسلامی مہم کی منصوبہ بندی نہ کر سکے۔انتہائی اخلاص مگر غیرشعوری طور پر نادانی کے ساتھ وہ مسلمانوں کو ایسی راہوں میں دوڑاتے رہے جن کی ساری قیمت ماضی کے نقشہ میں تھی، عہد حاضر کے نقشہ میں وہ غیر متعلق (irrelevant) ہو چکے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم ملت کی ناکامی میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ ہر محاذ پر ان کو شکست ہوئی اور شکست نے بالآخر مسلم ملت کو مایوسی اور جھنجلا ہٹ اور بے حوصلگی کا شدید تر تحفہ دے کر زوال کے کنارے پہنچا دیا ۔

شعوری سطح پر دین کو پانے کا مطلب وقت کے افکار کے مقابلے میں دین کو پانا ہے۔ مثلاً معرکہ بدر (625ء) کے اہل اسلام نے اللہ کے حکم‌"اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہو سکے تیار رکھو قوت"(8:60)کی تفسیر "تلوار" میں پائی تھی۔ مگر شاملی کے معرکہ (1857ء) میں شامل ہونے والے مسلمان بھی اگر آیت کی تفسیر "تلوار" میں پائیں تو کہا جائے گا کہ انھوں نے قرآن کو عہد حاضر کی نسبت سے نہیں پایا ۔ آج اس آیت کی تفسیر کو تلوار کی شکل میں پانا، قرآن کو گزرے ہوئے ماضی کے نقشہ میں پانا ہے۔ جب کہ اجتہادکا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو وقت کے نقشہ میں پایا جائے۔

خیالات کے اظہار کے لیے شعر و خطابت کی زبان استعمال کرنا، احیائے اسلام کی تحریکوں کا سیاسی رخ اختیار کرنا ، وعظ خوانی اور فتوے کو اصلاح امت کے لیے کا فی سمجھنا سب اسی کے مظاہر ہیں۔ یعنی ماضی کے طریقِ کار کو حال میں دہرانا ۔

دور جد ید میں ہمارے جو مصلحین اٹھے انھوں نے اگر فکر حاضر میں اپنے اسلامی شعور کو پایا ہو تا تو وہ جانتے کہ وہ کون سے افکار و عوامل ہیں جو آج فیصلہ کن بن گئے ہیں اور ان کے مقابلہ میں احیائے اسلام کی منصوبہ بندی کس طرح ہونی چاہیے ۔ اس کے بجائے مسلم رہنماؤں نے جو کیا ، وہ یہ تھا کہ ان کے پاس صرف روایتی عقیدہ کا سرمایہ تھا ۔بس اسی کو لیے ہوئے وہ وقت کے سمندر میں کو د پڑے، بدلے ہوئے زمانے میں اس قسم کا جوشِ ایمان انھیں کہیں نہیں پہنچا سکتا تھا اور نہ اس نے کہیں پہنچایا۔

انیسویں صدی میں یہ بات پوری طرح نمایاں ہو چکی تھی کہ مذہب کا روایتی ڈھانچہ اس جدید ڈھانچہ (framework)میں اپنی جگہ نہیں پا رہا ہے جو سائنس کے زیر اثر بنا ہے۔ اس وقت ضرورت تھی کہ گہرائی کے ساتھ موجودہ صورت حال کا جائزہ لے کر اس کے مطابق نیا تشریحی فریم ورک تیار کیا جائے جس سے اسلام عصرحاضر میں دوبارہ اپنی جگہ پا سکے ۔ اگر بر وقت یہ کام ہو جاتا تو سائنس یا دور جدید نہ صرف یہ کہ مذہب کے حریف نہ بنتے بلکہ اس کو تقویت دے کر اس کو نئی زندگی عطا کرنے والے بن جاتے ۔ مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ عیسائیت نے سیاسی اقتدار سے محرومی کے بعد ماڈرنزم کی شکل میں سائنس سے سمجھوتہ کر لیا۔

اس کے بالمقابل مسلمان ایک محفوظ خدائی دین کے حامل تھے۔ چنانچہ وہ فکری طور پر اس پوزیشن میں تھے کہ جدید تاریخ کے اس اہم کردار کو ادا کر سکیں، جس طرح انھوں نے نویں صدی عیسوی میں بغد اداور قرطبہ میں وقت کی سائنس اور فلسفہ کے مقابلے میں اسی قسم کے کردار کو ادا کیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے یہ وہ وقت تھا جب کہ مسلمان قومیں زوال کا شکار ہو چکی تھیں۔ ان کے اندر نہ حوصلہ تھا، نہ فکری بلندی۔ مزید یہ کہ جدید اقتصادیات میں اپنی محرومی کی وجہ سے وہ اس قابل نہ رہے تھے کہ اس قسم کے کسی موثر کام کی قیمت اداکرسکیں۔ اپنی پس ماندگی کی وجہ سے مسلمان اس کا ثبوت بھی نہ دے سکے کہ وہ وقت کے اس مسئلہ کو صحیح طور پر سمجھتے ہیں۔ کجا کہ ان سے یہ امید کی جائے کہ وہ گہرائی کے ساتھ اس کا جائزہ لیتے اور زندگی کے جدید نقشہ میں مذہب کو اس کا مقام عطا کرتے۔

 کرنے کا کام

 موجودہ حالات نے ہمارے لیے جو مسائل پیدا کیے ہیں، وہ دو قسم کے ہیں— نظری اور عملی۔

پہلے جزء کے سلسلےمیں اہم ترین کام یہ ہے کہ اسلام کے عقائد و احکام کو جدید استدلالی انداز میں مرتب کیا جائے تاکہ وہ لوگوں کو آج کی چیز معلوم ہونے لگیں۔ نہ یہ کہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ وہ اس دور کی چیز ہیں جب کہ انسان قبائلی دور میں جیتا تھا۔

جدید انداز سے مراد یہ ہے کہ اسلوب تحریر اور استدلال دونوں اعتبار سے وہ عصر حاضر کے اعلی معیار کے مطابق ہو۔ موجودہ زمانے میں اسلوب تحریر مکمل طور پر بدل گیا ہے۔ قدیم روایتی اسلوب میں خطیبانہ انداز غالب ہوتا تھا ۔ اب سائنسی اور تجزیاتی انداز کو پسند کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ عبارت کے درمیان اشعار نقل کر دینا۔ زورِ الفاظ کا مظاہرہ کرنا یا مسجع فقرے لکھنا ، نفسِ مضمون کی قیمت میں اضافہ کرتا ہے۔ اب یہ ساری چیزیں معیوب قرار پاچکی ہیں ۔ قدیم تصور ا دب میں تیر ونشتر قسم کے جملے، فریقِ مخالف کے اوپر تیز تیز ریمارک ، جذباتی قسم کی عبارتیں انتہائی پسندیدہ ہوتی تھیں ۔ مگراب یہ تمام چیزیں علمی وقار کے خلاف سمجھی جاتی ہیں۔ قدیم ذوق کے مطابق مبالغہ آمیز الفاظ ، رنگین ترکیبیں اور استعارے اور تشبیہات ادب کا کمال سمجھے جاتے تھے۔ مگر اب کوئی تعلیم یافتہ آدمی اس قسم کے مضمون کو پڑھنا بھی پسند نہیں کرتا ۔

یہی کیس طریقِ استدلال کا بھي ہے۔ پہلے زمانے میں کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے یہ بھی کافی تھاکہ آدمی اپنے نقطۂ نظر کے حق میں ایک تصوراتی مثال پیش کر دے یا ایک حکایت بیان کر دے۔ مگر اب اس کو غیر معتبر سمجھا جاتا ہے کہ کوئی شخص اس قسم کی چیزوں سے اپنی بات ثابت کرنے لگے ۔ پہلے زمانے میں کسی حوالے کے لیے اعدادی قطعیت یا واقعاتی تعین ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر جدید ذوق کے لیے وہ کلام بے معنی ہے جس میں تعیناتی زبان استعمال نہ کی گئی ہو۔ قدیم طریقے میں استدلال کی بنیادتمام ترقیاسی منطق ہوا کرتی تھی۔ مگر اب قیاسی منطق بے قیمت ہوگئی ہے۔ اب تاریخی ، مشاہداتی اور تجزیاتی انداز میں بات کو ثابت کرنا معتبر ماناجاتا ہے ۔ قدیم زمانے میں آدمی مناظر اور مبلغ بن کر ایک وکیل کی طرح بالکل برہنہ انداز میں(فریقِ ثانی کی ذاتیات پر حملہ کرتے ہوئے) اپنے نقطۂ نظر کو ثابت کرتا تھا۔ اب موضوعی تجزیہ (objective analysis)کو معیاری انداز سمجھا جاتا ہے۔

پچھلے سو برس میں ہمارے یہاں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے بہت سی کتا بیں بجائے خود قیمتی بھی ہیں۔ مگر دور جدید کے اعتبار سے ان کی افادیت محض جزئی ہے۔ کیوں کہ وہ قدیم طرز کے مطابق خطیبانہ نثر کا نمونہ ہیں۔ سائنسی طرز استدلال پر تحریری کام ابھی تک ہمارے یہاں تقریباً صفر کے درجے میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ نوجوان اسلام کو سمجھنے کے لیے بھی مستشرقین کی کتابیں پڑھتے ہیں جو ، خواہ ہمارے نزدیک غلط ہوں ، تاہم وہ اپنے انداز اور اسلوب کے اعتبار سے جدید معیار کی حامل ہوتی ہیں۔

اس کے بالمقابل مسلم مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں ان کو اپیل نہیں کرتیں۔ عملی مسائل کی فہرست ، جن کے حل کے لیے وقت کے نظام اجتماعی میں تغیر ضروری ہے ، بہت طویل ہے۔ وقت کا اجتماعی نظام، قومی اور بین اقوامی دونوں اعتبار سے، سراسر انسانی فکر کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کے ڈھانچے میں رہتےہوئے دین کے اجتماعی قوانین پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ مگر یہاں اسلام نے جو راہ عمل تجویز کی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو ایک انقلاب پسند لیڈر عام طور پر اختیار کرتا ہے۔

اس کا حل موجودہ زمانے کی اسلامی جماعتوں نے یہ نکالا ہے کہ نظام حاضر سے ٹکرا جائیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ اجتماعی ایمان اگر ہمیں حاصل نہیں تو اس کے حصول کی خاطر موت تو ہمارے بس میں ہے۔ پھر کیوں نہ ہم" بے ایمان" ، زندگی کے مقابلے میں " باایمان " موت کو ترجیح دیں۔اس کے نتیجہ میں جو خطرناک ظاہرہ مسلم نوجوانوں کے درمیان پیدا ہوا تھا، وہ تھا جہاد بمعنی قتال اور سوسائڈ بامبنگ۔

یہ دونوں عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے مکمل طور پر غیر اسلامی عمل تھے، نہ کہ اسلام کی کوئی خدمت۔ یہ غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ اس دور میں اٹھنے والے مصلحین امت اس نکتےکو نہ سمجھ سکے کہ مکہ میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت کا حکم دیا گیا تویہ نہیں کہا گیا کہ مکہ کی پارلیمنٹ (دارالندوہ) میں نمائندگی حاصل کرنے کا مطالبہ کرو،یا کعبہ کی تولیت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو ۔ بلکہ تو حید اور مواساة بنی آدم سے متعلق سادہ تعلیمات بھیجی گئیں اور حکم ہوا کہ لوگوں کو ان سے باخبر کرو۔ اس سے آگے کی چیزیں ، جن کے حصول کے لیے اجتماعی انقلاب ضروری ہے، ان کے بارے میں قرآن میں حکم دیا گیا کہ اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنے بجائے ان کو برداشت کرو ، اوراس وقت کا انتظار کرو جب اللہ حالات میں ایسا تغیر فرمائے جب کہ بقیہ مسائل کے حل کی راہ نکل سکے (10:102) ۔

اس معاملہ میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ ممکن دائرہ میں دین پر عمل کرتے ہوئے دعوتی جدوجہد شروع کر دو اور بقیہ تمام امور کو نصرت الٰہی کے خانہ میں ڈال دو۔ یہی مطلب ہے حکم دعوت کے بعد یہ کہنے کا کہ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر(74:7)۔ یعنی، اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔

زمانہ حال کے تقاضوں سے باخبر ہوکر دین كي بنيادي تعليماتسے لوگوں کو پر امن انداز میں آگاہ کرنا اور اس راہ میں جو مشکلات و مسائل پیش آئیں، ان پرصبرکرنا، یہی تمام انبیاء کا طریقہ رہا ہے اور یہی آج بھی ان لوگوں کا طریقہ ہونا چاہیے جو ناموافق ماحول میں اسلام کی تعلیم سے اللہ کے بندوںكو آگاه كرنے کے لیے اٹھیں (بحوالہ الرسالہ، دسمبر 1976 )۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom