ماڈرن ایج میں سیرت نبوی کا ریلیونس
)زیر نظر مضمون، سی پی ایس انٹرنیشنل کی چیئر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی کے اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ فیکلٹی کے زیر اہتمام پہلے یک روزہ انٹرنیشنل سیرت کانفرنس ،10 اکتوبر 2023، کے لیے ریکارڈ کروایا تھا۔ افادہ عام کے مقصد سے اس کو شائع کیا جارہا ہے (
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مجھےاس کانفرنس میں شرکت کا موقع مل رہا ہے۔ اس کےلیے میں وائس چانسلر ڈاکٹر شگفتہ ناز، ڈین آف فیکلٹی پروفیسر فلیحہ کاظمی اور دوسرے آرگنائزر کی شکر گزار ہوں۔
اس خاص موقع پر میں یہاں چند باتیں عرض کرنا چاہتی ہوں۔
قرآن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک بہترین نمونہ ہیں (33:21)۔
سیرت نبوی کے مطالعہ کے دو طریقے ہیں۔ ایک، تقدس کے جذبہ کے تحت مطالعہ کرنا، یعنی برکت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو پڑھنا۔ دوسرے، سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے مطالعہ کرنا۔ قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیرت نبوی کے مطالعہ کا مقصد’’اسوہ نبوی‘‘ کو جاننا اور اس سے رہنمائی حاصل کرنا ہے (33:21)۔
اس سلسلہ میں مولانا وحید الدین خاں صاحب اپنی کتاب عظمت اسلام کے ایک چیپٹر عظمت رسول میں لکھتے ہیں کہ برطانی مستشرق ای ای کلیٹ نے اپنی ایک کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے۔ اس نے آپ کا اعتراف کر تے ہوئے لکھا ہے کہ تاریخ میں مذہب اسلام کے بانی سے زیادہ حیرت ناک کوئی کردار نہیں پایا جاتا۔ کوئی دوسرا آدمی مشکل سے ملے گا جس نے دنیا کی تقدیر پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہو ۔ بلاشبہ ان کو ناموافق حالات ملے مگر وہ جانتے تھے کہ ان حالات کو کس طرح اپنے حق میں موڑا جائے ۔ انھوں نے مشکلات کا مقابلہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں۔ اگرچہ وہ کسی دوسرے مقام پر یا کسی دوسرے زمانہ میں اس طرح کامیاب نہیں ہو سکتے تھے مگر یہ بھی یقینی ہے کہ دوسرا کوئی آدمی سرے سے کامیابی ہی حاصل نہیں کر سکتا تھا:
"There is no more astonishing career in history than that of the founder of this religion (Islam), and scarcely any man has more profoundly influenced the destinies of the world. He was, of course, favoured by circumstances, but he knew how to turn them to his purposes, and he faced adversity with the determination to wring success out of failure. While he could not have succeeded in another place or at another time, it is tolerably certain that no one could have succeeded at all." (E.E. Kellett. A Short History of Religions, London, 1933. pp. 333-34)
ای ای کلیٹ کے مذکورہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے، مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنی کتاب مطالعہ سیرت میں لکھاہے کہ مغربی مستشرق کامذکورہ جملہ قاری کے لیے ایک نشان راہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کے ذریعہ سیرت کے قاری کو ایک متعین رہنمائی ملتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہےجس کو قرآن میں اسوۂ حسنہ کہا گیا ہے (دیکھیے مطالعہ سیرت، صفحہ 8)۔
ایک بات یہ قابل غور ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تمام زمانوں کے لیے قابل تقلید نمونہ ہیں۔ مگر آپ نے اپنا قول و فعل قدیم عرب کے ریفرنس میں بیان کیا ہے۔ بعد کے زمانے میں اس کو قابل عمل بنانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جائے وہ اجتہاد کا طریقہ ہے۔ غالباً اسی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروؤں کو اجتہاد پر ابھارا ہے، اور اجتہاد میں غلطی پر بھی ایک نیکی کی خوشخبری دی ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1716)۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب نے جگہ جگہ سیرت سے سبق لینے کا طریقہ بتایا ہے، اور مثالوں سے اس کو واضح کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً مطالعۂ سیرت، وغیرہ ۔
یہاں چند مثالوں سے میں یہ وضاحت کروں گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے موجودہ زمانے میں کیسے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے:
ممکن سے آغاز
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک اہم اصول ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر3560)۔یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ آسان کا انتخاب فرماتے ۔
اس سے معاملات زندگی کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک نہایت اہم طریقہ معلوم ہوتا ہے ۔ وہ ہے، اختیار ایسر یعنی موجود انتخابات (available options) میں نسبتاً آسان انتخاب (easier option) کو لے لینا اور مشکل انتخاب(harder option) کو چھوڑ دینا۔
اس اصول کا عملی نمونہ ہجرت جیسے اہم واقعہ میں نظر آتا ہے۔ اس وقت آپ کےلیے ایک انتخاب یہ تھا کہ آپ تمام اہل ایمان کو جمع کر کے مشرکین مکہ سے لڑ جائیں ۔ دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ مکہ کو چھوڑ کر دوسری بستی میں چلے جائیں ۔ آپ نے دوسرے انتخاب کو لے لیا ، کیوں کہ پہلا انتخاب زیادہ مشکل تھا۔ اس میں دوسری مشکلات کے علاوہ انسانی جان کی ہلاکت یقینی تھی۔
حدیبیہ کا واقعہ اسلام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس موقع پر آپ کے لیے ایک انتخاب یہ تھا کہ زبردستی مکہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں ۔اس کے مقابلے میں دوسرا انتخاب یہ تھا کہ صلح کرکے واپس لوٹ کر مدینہ چلے جائیں ۔ آپ نے دوسرے انتخاب کو لے لیا ، کیوں کہ پہلے انتخاب کا انجام انتہائی سنگین تھا۔اس میں جان و مال کا ضیاع ہوتا اور نفرتیں مزید بڑھ جاتیں۔
یہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا ہے ۔ آپ نے ہمیشہ اختیار ایسر کے اصول پر عمل فرمایا ہے ، آپ نے کبھی اختیار اعسر کو اپنا طریقہ نہیں بنایا ۔انسانی تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ مشکل انتخاب کو لینے میں اپنی طاقت بے فائدہ طور پر ضائع ہوتی ہے۔مسئلہ کی سنگینی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ایک مسئلہ کے ساتھ بہت سے اور مسائل جڑ جاتے ہیں ۔ وغیرہ ۔
اس کے برعکس، آسان انتخاب کو لینا گویا ناممکن کو چھوڑ کر ممکن کا انتخاب کرنا ہے ۔ ایسا انتخاب عمل کے نتیجہ خیز ہونے کی ضمانت ہے۔ وہ مسائل میں اضافہ کو روکنے والا ہے ۔ اس میں ہراگلا قدم آگے بڑھنے کے ہم معنی ہوتا ہے ۔ وہ ایک مسئلہ کے ساتھ مزید مسائل پیدا کر نے کا سبب نہیں بنتا۔
ایمان کی حفاظت، دنیا کی قیمت پر
ہجرت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن واقعہ ہے۔ اس وقت جو ایمانی واقعات پیش آئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہجرت کرنے والوں میں ایک صحابی صہیب بن سنان الرومی تھے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مدینہ پہنچے۔ حضرت صہیب جب مکہ سے نکلے تو قریش کے کچھ لوگوں نے ان کو پکڑا۔ انھوں نے کہا کہ تم مکہ میں آئے تو تم غریب تھے ۔ پھر تم نے یہاں مال کمایا ۔ اب تم اس مال کو لے کر مدینہ جا نا چاہتے ہو تو ہم تم کو نہیں جانے دیں گے۔ انھوں نے کہاکہ اگر میں اپنا مال ( دینار) تم کو دے دوں تو کیا تم مجھ کو جانے دو گے ؟ انھوں نے کہا ، ہاں ۔ اس کے بعد صہیب نے اپنی جیب سے تمام دینار نکالے اور انھیں قریش کے حوالے کر دیا ۔ اب قریش نے ان کو چھوڑ دیا اور وہ چل کر مدینہ پہنچ گئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ صہیب کی تجارت کامیاب رہی ،صہیب کی تجارت کامیا ب ر ہی ۔ (سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 477)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن اور غیر مومن کے درمیان اگر مال یا زمین وغیرہ کے بارے میں کوئی نزاع پیدا ہو تو مومن کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ حق کے نام پر فریق ثانی سے لڑ جائے اور اس کے نتیجہ میں اپنے آپ کو ہلاک کر لے ۔ ایسے معاملات میں اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مال یازمین کو فریق ثانی کے حوالے کر کے اپنی زندگی کو ایمان کی خاطراس سے بچایا جائے ۔ کیوں کہ ایمانی زندگی ہر دوسری چیز سے زیادہ قیمتی ہے ۔
اسی طرح یہ واقعہ ایک داعی کے اخلاق کو بتاتا ہے ۔ داعی یہ چاہتا ہے کہ مدعو سے کوئی بھی مادی جھگڑا نہ چھیڑے حتی کہ اگرکسی وجہ سے دونوں کے درمیان کوئی مادی جھگڑا چھڑ جائے تو داعی کو چاہیے کہ وہ یک طرفہ قربانی کے ذریعہ پہلی فرصت میں اس کو ختم کر دے تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان نارمل تعلق بحال ہو سکے۔ خواہ اس کے لیے داعی کو یک طرفہ قربانی کیوں نہ دینا پڑے ۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن میں پیغمبر وں کی زبان سے ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے: وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَا (14:12)۔ یعنی، جو تکلیف تم ہمیں دو گے ہم اس پر صبر ہی کریں گے۔
علم کی غیر معمولی اہمیت
جنگ بدر کا واقعہ اسلامی تاریخ کا نہایت اہم واقعہ ہے۔ اس جنگ میں اہل ایمان کو اللہ کی مدد سے مکمل فتح حاصل ہوئی ۔ دشمن فوج کے ستّر آدمی مارے گئے اور ستّر آدمی قیدی بنا کر مد ینہ لائے گئے ۔ اس زمانہ میں مدینہ میں تعلیم نہیں تھی ۔ مگر مکہ میں تعلیم تھی ۔ چنانچہ مکہ کے یہ قیدی قدیم معیار کے مطابق تعلیم یافتہ تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ ان میں سے جو شخص مدینہ کے دس لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے گا۔ اس کی اس تعلیمی خدمت کو فدیہ قرار دے کر ہم اسے چھوڑ دیں گے (فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِدَاءَهُمْ أَنْ يُعَلِّمُوا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْكِتَابَةَ) ۔ چنانچہ کئی قیدی اس طرح رہا ہو کر مکہ واپس گئے۔ (مسند احمد، حدیث نمبر 2216)
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ صفہ اسلام کا پہلا اسکول ہے۔ مگر تعلیم (education)کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بدر کے غیر مسلم قیدیوں کے ذریعہ مدینہ میں قائم کیا ہوا تعلیمی ادارہ (educational institution) معروف معنوں میں قدیم معیار کے مطابق پہلا اسکول ہے جو اسلام کی تاریخ میں خود پیغمبر اسلام نے قائم کیا تھا۔ اس اسکول کےطلبہ سب کے سب مسلمان تھے۔ مگر اس کے ٹیچر سب کے سب غیر مسلم بلکہ دشمن اسلام تھے ۔ صفہ غریب مہاجر مسلمانوں کا ٹھکانا اور ان کے تزکیہ کا ایک مرکز تھا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک عملی نمونہ ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں علم کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ غیرمسلم ( حتی کہ اسلام دشمنوں) سے بھی اگر علم سیکھنے کا موقع ہو تو ضرور سیکھنا چاہیے ۔ موجودہ دور کی پلورل سوسائٹی (plural society)میں رسول اللہ کے اس عمل کو نمونہ بنا کر مسلم ملت کے ایجوکیشن کی نتیجہ رخی پلاننگ کی جاسکتی ہے۔
عورت کا میدانِ کار
قرآن کی سورہ الانعام میں نبیوں کا واقعہ بیان کرنے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے (6:90)۔ اس اعتبار سے قرآن میں بیان کردہ تمام دوسرے نبیوں کی باتیں بھی گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں خواتین کے تعلق سے ایک اہم واقعہ میں ذکر کرنا پسند کروں گی ۔ قرآن حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔انہیں بعض اسباب سے ملک مصر چھوڑ نا پڑا۔ چنانچہ وہ مصر سے مدین کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک مقام پر ایک سبق آموز واقعہگزرا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک بزرگ (بعض مفسرین کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام )کی دو لڑکیاں ایک مقام پر آپ کو ملیں، جو اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کررہی تھیں۔ حضرت موسی نے اس وقت ان کی مدد کی۔یہ واقعہ قرآن کی سورہ قصص میں بیان کیا گیا ہے (28:23-28)۔
مذکورہ دونوں لڑکیاں با حیا اور ایمان والی تھیں۔ وہ اُس وقت غیر شادی شدہ تھیں۔ اس خاندان کی معاش کا ذریعہ مویشی پالنا تھا۔ یہ لڑکیاں روزانہ صبح کو اپنی بکریاں چرانے کے لیے اُن کو گھر سے دور لے جاتیں اور پھر شام کو پانی پلا کر ا نہیں گھر وا پس لا تیں۔ اسی کے ساتھ یقیناً وہ دو سر ے متعلق کام کرتی تھیں۔
خواتین کے تعلق سےایک واقعہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کا یہ ہے کہ صحابیات نے رسول اللہ سے آکر کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک خاص دن مقرر کردیجیے، جس دن آپ ہم لوگوں کو نصیحت کیا کریں۔ رسول اللہ نے ان کے لیے ایک دن اور ایک خاص گھر مقرر کردیا، جہاں آپ عورتوں کو نصیحت اور تعلیم دیا کرتے تھے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 101)۔
ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت ہے۔ان کو اس بات سے منع نہیں کیا گیا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں ان پر کوئی روک نہیں ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ یہ خواتین دینی حدود کی پابند ہوں۔
یہ چند مثالیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی سیرت کو ہر زمانہ میں اپنایا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرتِ رسول کے مطالعہ کا مقصد صرف عقیدت مندی کےجذبات کی تسکین نہ ہو،بلکہ اس کا مقصد یہ ہو رسول اللہ کی سیرت سے اپنی زندگی کے ہر ہر پہلو کے لیے رہنمائی حاصل کی جائے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام لوگوں کو رسول اللہ کے اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ڈاکٹرفریدہ خانم)