کائناتی عبادت
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَسِيرُ الْفِقْهِ خَيْرٌ مِنْ كَثِيرِ الْعِبَادَةِ وَخَيْرُ أَعْمَالِكُمْ أَيْسَرُهَا (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 286)۔ یعنی عبد الرحمٰن بن عوف روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: دین کی تھوڑی فقہ بہتر ہے، زیادہ عبادت سے۔ اور تمھارے اعمال میں سے وہ بہتر ہے، جو آسان تر ہو۔
اس حدیث میں فقہ سے مراد تدبر و تفکر (contemplation)ہے، اور عبادت سے مراد مبنی بر فارم عبادت ہے۔ قرآن کی بیشتر آیتوں میں اس بات پر ابھارا گیا ہے کہ خدا کی کتاب میں تدبر کرو (38:29)، زمین و آسمان میں تدبر کرو، کائنات میں پھیلی ہوئی آیتوں (signs) میں تدبر کرو (3:190)۔ تدبر کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خدا کی کتاب میں اور خدا کی تخلیق میں حکمت کے پہلو چھپے ہوئے ہیں، غور کرکے حکمت کے ان پہلوؤںکو دریافت کرنا، اور اس کے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا۔ یہ تدبر کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔تدبر اور تفکر کی اہمیت ا تنی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر آدمی، حیوان کی مانند بن جاتا ہے۔انسان وہی ہے جس کے اندر تدبر کی صفت موجود ہو۔
جو لوگ تدبر و تفکر کی صفت سے خالی ہوں، ان کے بارے میں قرآن میں سخت تنبیہ آئی ہے: ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ۔ وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے، بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ۔ یہی لوگ ہیں غافل (7:179)۔
معلوم کائنات میں صرف انسان ہے جو یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ تدبر کرے۔ یہ تدبر پہلے روایتی فریم ورک میں کیا جاسکتا تھا۔ اب تدبر کا یہ عمل سائنسی فریم ورک میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح انسان اللہ کی بے پایاں عظمت کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اللہ سے حبّ شدید اور خوفِ شدید کا تعلق قائم کرتا ہے۔ وہ آخرت کی ابدی جنت کو اپنے تصور میں لاتا ہے۔یہی تدبر ہے، اور اسی تدبر کو کائناتی عبادت کہا گیا ہے۔