ڈائری 1986
28مارچ1986
جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد صاحب نے 6مارچ 1986ء کو ایک تقریر کی۔ لاہور کے جلسۂ عام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذہبی مزاج کی حامل تمام سیاسی جماعتوں کو اتحاد اور اشتراک عمل کے ساتھ اسلام کے لیے کام کرنا چاہیے۔میاں طفیل محمد صاحب نے اپنی اس تقریر میں مزید یہ بات کہی:
’’آپ جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر کام کریں‘‘(میثاق ،اپریل1986ء)
یہ دونوں باتیںایک دوسرے کی ضد ہیں۔پہلی بات اگر دعوتِ اتحاد ہے تو دوسری بات دعوتِ انضمام(invitation of merger)۔پہلی بات کے مطابق لوگوں کو ایک مشترک نظریاتی پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو جانا چاہیے۔جب کہ دوسری بات کا مطلب یہ ہے کہ تمام لوگ اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو جائیں جس کا نام جماعت اسلامی ہے۔
موجودہ زمانہ میں ہرمسلمان لیڈر اتحاد کا لفظ بولتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ اتحاد کیا ہےاور وہ کس طرح قائم ہوتا ہے۔
’’انضمام‘‘ کی نوعیت کا اتحاد صرف اس وقت قائم ہوتا ہے جب کہ آپ تمام لوگوں کو صد فی صد اپنا ہم خیال بنا چکے ہوں۔مگر اتحاد کی یہ صورت اتنی نادر ہے کہ وہ تقریباً ناقابل حصول ہے۔عام حالات میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اتنی ذہنی وسعت ہو کہ وہ اختلاف کے باوجود متحد ہو سکیں۔اتحاد کی یہی صورت ہے جس کو انگریزی میں ایک جملہ میں اس طرح ادا کیا گیا ہے:
we agree to differ
میں نے اس پراتفاق کر لیا ہے کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے۔
29مارچ1986
شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ(اپریل1985ء) کے بعد مسلم قائدین نے اپنی تقریر سے ہندستان کے مسلمانوں میں کافی جوش پیدا کر دیا۔اس احتجاجی تحریک کے ایک بڑے قائد، جو ایک معروف عالم دین ہیں، کے الفاظ میں تحریک خلافت کے بعد دوسری بار ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرہ کیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک زلزلہ انگیز اور انقلاب انگیز مسئلہ تھا اور مسلمانوں کو حق تھا کہ وہ اس کے بارے میں بے چین ہو جائیں۔
مسلمانوں کے پر شور مظاہرہ کا رد عمل ہوا اور ملک کے انگریزی اور ہندی اخبارات میں کافی مضامین شائع ہوئے۔
اس سلسلے میں انگریزی اور ہندی اخبارات کے رویہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے مذکورہ عالم دین نے کہا کہ برادران وطن نے احساس تناسب کھو دیا ہے۔یہ کون سا کرائسس ہے جس کے لیے انگریزی اور ہندی اخبارات اپنے قیمتی کالم لگائے ہوئے ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ اب کوئی دوسرا مسئلہ ہی نہیں۔فسادات میں کتنی ہی عورتیں بے سہارا،بیوہ اور لاوارث ہو گئیں،مگر ان کے لیے ہمدردی کا کبھی ایک لفظ بھی شائع نہ ہوا!(نقیب:24مارچ1986ء)
احساس تناسب کھونے کی جو شکایت مولانا موصوف نے ملکی پریس کے خلاف کی ہے وہی خود مزید اضافہ کے ساتھ مولانا موصوف اور ان کےساتھیوں کا معاملہ بھی ہے۔انہوں نے شاہ بانو کے معاملے میں جو دھوم مچائی ہے،کیا وہی دھوم وہ دوسرے ملی اور دینی معاملات میں بھی مچاتے ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔پھر جو لوگ خود احساس تناسب کھوئے ہوئے ہوں انہیں کیا حق ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں احساس تناسب کھونے کی شکایت کریں۔
30مارچ1986
مہاراشٹر کے سابق چیف منسٹر مسٹر عبدالرحمٰن انتولے نے ہماری تمام مطبوعات منگوائی ہیں اور اہتمام کے ساتھ آج کل ان کو پڑھ رہے ہیں۔اس درمیان میں ان کے داماد مسٹر مشتاق انتولے دوبار بمبئی سے دہلی آئے۔اور دونوں بار جناب عبدالرحمٰن انتولےصاحب کی تاکید پر مجھ سے آکر ملے۔پہلی بار18فروری 1986 ءکو اور دوسری بار آج 30مارچ1986ءکو۔پہلی بار جب وہ دہلی آئے تھے تو ان کے ساتھ ایک اور صاحب تھے جن کا نام انہوں نے مسٹرسالوی بتایا تھا۔اس سے واضح نہ تھا کہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان۔تاہم اپنے عام معمول کے مطابق میں نے ہندو اور مسلمان کی کوئی بات نہ کی بلکہ عام سچائی کی بات کی۔مسٹر مشتاق انتولے نے بتایا کہ اس سے مسٹر سالوی بہت متاثر ہوئے۔یہاں سے واپس جانے کے بعد وہ بمبئی میں برابر میرا تذکرہ کرتے رہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سی مذہبی شخصیتیں دیکھی ہیں،مگر اس قسم کی شخصیت میں نے پہلی بار دیکھی۔مسٹر سالوی کو اس بات پر سخت تعجب تھا کہ میں نے ملاقات میں کسی قسم کی فرقہ وارانہ بات نہیں کی۔ان کے نزدیک کوئی مہان روح ہی ایسا کر سکتی ہے کہ ’’ہندو مسلم‘‘ سے اوپر اٹھ کر سوچے اور اس سے اوپر اٹھ کر بات کرے۔
میں نے مسٹر مشتاق انتولے سے کہا کہ میرا دل خدا کے فضل سے اس قسم کے بھید بھاؤ سے بالکل خالی ہے۔میں ہندو اور مسلم کی اصطلاحوں میں نہیں سوچتا بلکہ حق اور ناحق کی اصطلاح میں سوچتا ہوں۔حق اور ناحق دو قوموں کے نام نہیں،بلکہ یہ دو الگ الگ اصول ہیں۔میں نے کہا کہ میں اپنی پرائیوٹ مجلسوں میں یا گھر کے اندر بھی ہندوؤں کی برائی نہیں کرتا ، جو کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کاعام طریقہ بن چکا ہے۔
ہندو اور مسلم کی اصطلاحوں میں سوچنا قومی اصطلاحوں میں سوچنا ہے۔اسلامی طریقہ یہ ہے کہ حق اور ناحق کی اصطلاح میں سوچا جائے۔
31مارچ1986
ریاست عمان(Oman) کی ایک تیرہ سالہ شادی شدہ لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ لندن گئی تو وہاں اس کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔اسلامی شریعت کے مطابق اگرچہ ایسا نکاح غلط نہیں،مگر مغرب کے لوگ کم سنی کے نکاح کو پسماندگی کی علامت اور ایک جاہلانہ رواج سمجھتے ہیں۔ چنانچہ لڑکی کا انگلینڈ میں رہنا مشکل ہو گیا ۔یہاں تک کہ حکومت عمان کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ انگلینڈ کی سماجی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس لڑکی کو واپس بلا لیا جائے۔
ہندی اخبار نو بھارت ٹائمز نے اس خبر پر اپنے ادارتی کالم میں تبصرہ کیا ہے۔اس نے لکھا ہے کہ انگلینڈ کے لوگ کم سنی کے نکاح کو برا سمجھتے ہیں،مگرکم سنی کے جنسی تعلقات کو وہ اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر اپنے یہاں اختیار کیے ہوئے ہیں۔اس نے لکھا ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے ایک مقدمہ انگلینڈ کی عدالت میں اس سوال پر چل رہا ہے کہ کیا ڈاکٹروں کو یہ اختیار ہے کہ وہ والدین کی اجازت کے بغیر ان نابالغ لڑکیوں کو مانع حمل کی گولیاں دیں۔ایک بے حد پریشان ماں نے عدالت کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے یہ فریاد کی تھی کہ اپنے بچوں کے چال چلن کی نگرانی کرنا کم از کم اس وقت تک میری ذمہ داری ہے جب تک وہ نابالغ ہیں۔لیکن اس غم زدہ ماں کی فریاد کو رد کرتے ہوئے عدالت نے فیصلہ دیا کہ 13 سال کی نابالغ لڑکی ڈاکٹر سے مانع حمل کی گولی لے کر اپنے نوجوان آشنا کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکتی ہے۔
نو بھارت ٹائمز کے ایڈیٹر نے مذکورہ دونوں واقعات کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اب یہ بتائیے کہ کم سنی کی شادی زیادہ بہتر ہے یا کم سنی کی آوارگی؟
جدید مغربی تہذیب کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ ’’آزادی‘‘ کے نام پر لامحدود جنسی تعلق کی اجازت دیتی ہے،مگر قید نکاح کے ساتھ محدود ازدواجی تعلق بھی اس کو گوارا نہیں۔
1اپریل1986
یہ 15ستمبر1975کا واقعہ ہے۔روزنامہ الجمعیۃ میں ایک صاحب بطور کلرک کام کرتے تھے، جن کا نام عزیز احمد تھا۔وہ نگینہ (ضلع بجنور،یوپی) کے رہنے والے تھے۔انہوں نے 15 ستمبر کو مجھ سے کہا کہ میری گھڑی گم ہو گئی ہے۔اچانک میری زبان سے نکلا ’’ان شاء اللہ، آپ کی گھڑی مل جائے گی‘‘۔وہ میری بات سن کر ہنس دیے۔انہوں نے کہا مجھے تو یہ بات بالکل ناممکن نظر آتی ہے۔
دو دن بعد انہوں نے بتایا کہ محلہ کا ایک لڑکا ان کی گھڑی لا کر اسلم صاحب کو دے گیا اور کہا کہ یہ مجھے پڑی ہوئی ملی ہے۔انہوں نے بتایاکہ مذکورہ لڑکا کبھی کبھی اسلم صاحب کے گھر پر آتا ہے۔ عزیز صاحب اپنی گھڑی کو کمرہ میں رکھ کر نہانے کے لیے چلے گئے تھے۔واپس آئے تو گھڑی نہیں تھی۔ وہ لڑکا اتفاق سے عین اسی وقت گھر میں آیا اور عزیز صاحب نے اس کو نکلتے ہوئے دیکھا۔جب عزیز صاحب کو معلوم ہوا کہ گھڑی گم ہے تو انہوں نے مذکورہ لڑکے سے گھڑی کی بابت دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میں گھڑی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔دو دن بعد اس لڑکے نے گھڑی لا کر دے دی۔
میں نے جو بات کہی وہ کسی علم غیب کی بنا پر نہیں کہی تھی۔بلکہ صرف عزیز صاحب کی پریشانی کو گھٹانے کے لیے کہی تھی۔مگر یہ ایک ہونے والی بات تھی کہ گھڑی دوبارہ انہیں مل گئی۔
بزرگوں کے بارے میں بہت سے اس قسم کے واقعات جو مشہور ہیں ان کی حقیقت بس یہی ہے۔ایسے واقعات کسی کی کرامت کی وجہ سے نہیں ہوتے، وہ اسی لیے ہوتے ہیں کہ وہ ہونے والے ہی تھے۔چنانچہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کی باتیں کبھی صحیح نکلتی ہیں اور کبھی غلط۔مگر معتقدین صرف صحیح ہونےوالی باتوںکو لیتے ہیں اور اس کو مزید افسانوی بنا کر مشہور کر دیتے ہیں۔بزرگوں کی کرامت کی حقیقت بس اتنی ہی ہے ، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
2اپریل1986
غالباً 1941 کی بات ہے۔اس وقت میں مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر،اعظم گڑھ،یوپی) میں پڑھتا تھا۔مدرسہ کے ریڈنگ روم (دارالمعلومات) میں جو عربی پرچے آتے تھے، ان میں قاہرہ کا ایک ماہنامہ تھا،جس کا نام’’المقتطف‘‘ تھا۔
میرا سالانہ امتحان کا زمانہ تھا۔میں دارالمعلومات میں حسب معمول گیا۔وہاں تازہ المقتطف آیا ہوا تھا۔اس کو دیکھتے ہوئے میں ایک صفحہ پر پہنچا۔اس صفحہ پر ایک خاص تدبیر درج تھی، جو قسمت معلوم کرنے سے متعلق تھی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ آدمی حسب ذیل جملے کو اپنی زبان سے چند بار دہراتا— اَبرا کَا دا بیسَن کا تَن۔
اس کے بعد وہ ایک خاص عمل کرتا، جس کے نتیجہ میں رسالہ کے مطبوعہ جوابات میں سے کوئی ایک اس کے سامنے آ جاتا تھا۔میں نے اپنے سالانہ امتحان کے بارے میں مقررہ عمل کیا۔اس کے بعد جو جواب آیا وہ اس کے الفاظ میں یہ تھا :ستنجح نجاحاً كبيراً(تم عنقریب ایک بڑی کامیابی حاصل کرو گے)۔
اس کے بعد سالانہ امتحان ہوا۔میرے درجہ میں غالباً بیس سے زیادہ طلبہ تھے۔میں سب کے مقابلہ میں اول نمبر سے پاس ہوا۔
ایک توہم پرست آدمی یہ سمجھ لے گا کہ یہ چند ناقابل فہم الفاظ (ابرا کا دا بیسن کا تن) کا کرشمہ تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک اتفاقی مطابقت تھی،اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
3اپریل1986
میرے نانا خدا بخش مرحوم پرانے قسم کے زمیندار تھے۔میں نے ان کو نہیں دیکھا۔البتہ والدہ کے ذریعے ان کے بعض قصے سنے ہیں۔
نانا کا ایک قصہ جو والدہ نے بتایا تھا وہ یہ تھا کہ ایک مرتبہ نانا اور ایک شخص کے درمیان جائداد کا مقدمہ تھا۔مقدمہ چل رہا تھا۔یہاں تک کہ وہ تاریخ آ گئی جس دن نانا کا خصوصی بیان عدالت میں ہونا تھا۔اس روز نانا کی حاضری عدالت میں ضروری تھی۔فریق ثانی نے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عین اسی دن صبح سویرے ان کے گھر میں آگ لگا دی، تاکہ وہ گھر کی آگ بجھانے میں مصروف ہو جائیں اور عدالت نہ پہنچ سکیں، جو ان کی بستی سے دور ضلع کے صدر مقام (اعظم گڑھ) میں واقع تھی۔
نانا صبح کو اٹھے تو گھر میں آگ لگی ہوئی تھی۔انہوں نے فوراً معاملہ کو سمجھ لیا۔انہوں نے فریق ثانی کا نام لے کر کہا کہ یہ یقیناً اسی شخص کا کام ہے۔اس نے یہ آگ اس لیے لگائی ہے کہ میں اس کو بجھانے میں لگ جاؤں اور عدالت میں نہ پہنچ سکوں اور میرا مقدمہ خراب ہو جائے۔مگر میں اس کے باوجود عدالت میں جاؤں گا۔چنانچہ وہ اس حال میں بستی سے روانہ ہوئے کہ ان کے پیچھے ان کا گھر جل رہا تھا اور وہ ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے۔
میرا حال بھی آج کل کچھ ایسا ہی ہے۔شیطان نے کچھ لوگوں کو ورغلا کر میرے خلاف ایسی کارروائیاں کرائی ہیں ،جس نے میرے ذہن کو آخری حد تک ڈسٹرب کر دیا ہے،تاکہ میں خدا کے دین کا جو کام کر رہا ہوں وہ نہ کر سکوں۔مگر مجھے یقین ہے کہ میرا معاملہ بھی خدا بخش نانا کا معاملہ ثابت ہوگا۔اللہ تعالیٰ مجھے ہمت دے گا کہ میں اپنے گھر کو جلتا ہوا چھوڑ کر دین کی طرف بڑھوں اور خدا کے پیغام کی پیغام رسانی کا کام جاری رکھوں۔’’تذکیرالقرآن‘‘ کی تحریر اب آخری مرحلے میں ہے۔اسی طرح، ان شاء اللہ، سیرت کی کتاب بھی مکمل ہو کر رہے گی۔
4اپریل1986
آج کے ہندوستان ٹائمس (4اپریل1986) میں ایک ہندو کا مفصل مضمون اخبار کے صفحہ 9 پر شائع ہوا ہے۔ اس کا عنوان ہے:
Indian Muslims at the Crossroads
(ہندوستانی مسلمان چوراہےپر)۔اس مضمون میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوںنے 1947ءسے پہلے اپنی علیحدہ قومیت قائم کرنے میں اپنے مسائل کا حل دریافت کیا تھا۔ مگر پاکستان کے قیام کےباوجود ان کے مسائل حل نہیں ہوئے۔تاہم ابھی تک اپنے سابقہ خول میں پڑے ہوئے ہیں۔
مضمون نگار نے نہایت ہمدردانہ طور پر مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک اور قسم کے علیحدہ تشخص(separate identity) میں اپنے مستقبل کوتلاش کریں۔ اور وہ ہے تخلیقیت (creativity)۔ مسلمان اس ملک میں ایک تخلیقی اقلیت کا کردار ادا کریں۔اس نے مزید کہاکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سی تخلیقی اقلیتیں کسی ملک اور قوم کو نئی زندگی دینے کا واقعہ ثابت ہوئی ہیں۔
مضمون نگار نے کہاکہ میں اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور اس کےفلسفۂ مساوات سے متاثر ہوں۔ اسلام کی تعلیمات میں اتنی جان ہے کہ مسلمان اس کےبل پر تخلیقی اقلیت بن کر اس ملک میں ابھر سکتے ہیں۔
یہ بلا شبہ ایک نہایت درست بات ہے۔دوسرے بہت سے ہندو بھی اس قسم کی بات کرتے رہے ہیں۔مگر مسلمان اب تک اس طرز فکر کو اپنا نہ سکے۔اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے جھوٹے قومی مسائل میں اتنا زیادہ الجھے ہوئے ہیں کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے تخلیقی امکانات کو نہ محسوس کر پاتے اور نہ ان کے اندر یہ جذبہ ابھرتا ہے کہ وہ ان امکانات کو استعمال کرکے آگے بڑھیں۔
مذکورہ مضمون نگار مسٹر گھوش ہیں۔
5اپریل1986
آج دکتورعبدالمحسن الترکی(جامعۃ الامام، ریاض) اور دوسرے کئی سعودی اہل علم کا وفد ہمارے مرکز میں آیا۔مرکز کو دیکھ کر وہ بار بار’’جمیل جمیل‘‘ کہتے رہے۔مرکز کی خوبصورت عمارت، اس کی صفائی اور ترتیب ہر چیز ان کو دوسرے اسلامی اداروں کے مقابلہ میں نمایاں طور پر بہتر نظر آئی۔یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں اور الرسالہ کو دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے۔
دکتور ترکی نے تعجب خیز لہجہ میں پوچھا کہ اس کام میں آپ کی مدد کون کرتا ہے۔میں نے سنجیدگی سے جواب دیا:’’الَّذِيْ عِنْدَهٗٓ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض‘‘ (وہی ذات جس کے پاس آسمان و زمین کے خزانے ہیں)۔
وہ مسکرا کر چپ ہو گئے۔یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہمارے مرکز سے اس وقت جو کام ہو رہا ہے، وہ ساری مسلم دنیا میں کسی بھی ادارہ سے نہیں ہو رہاہے۔اس لیے لوگ تعجب کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ کس کے تعاون سے یہ کام ہو رہا ہے۔میں پوری سنجیدگی کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کام براہ راست خدا کی طرف سے ہو رہا ہے۔
دکتور ترکی کی قیادت میں جو سعودی وفد آیا ہے، اس کا دوسرے اسلامی ادارے زبردست استقبال کر رہے ہیں۔ہندوستان کے ایک اسلامی ادارہ کے ذمہ دار ان کےساتھ ہمارے یہاں بھی آئے تھے۔میں نے دیکھا کہ وہ ان سے بات کرتے ہوئے بار بار اس قسم کے جملے بولتے ہیں:
اکرمکم اللہ، اللہ يبارك فیکم
مگر مجھے اس قسم کی بات کرنا بالکل نہیں آتا۔اس کے باوجود دوسروں سے کہیں زیادہ اعلیٰ معیار پر ہمارا کام ہو رہا ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد ہے۔ورنہ میرے اندر مطلق کوئی صلاحیت نہیں۔
6اپریل1986
آج کے ٹائمس آف انڈیا (6اپریل1986) صفحہ 8 پر ایک خبر کی سرخی یہ ہے:
Manusmruti, Shariat Reactionary
(منوسمرتی اور شریعت دونوں رجعت پسند)۔یہ مسٹر ایس ایم جوشی کے ایک انٹرویو کا خلاصہ ہے۔وہ 82 سالہ فریڈم فائٹر ہیں اور سوشلسٹ ذہن رکھتے ہیں۔آج کل وہ پونا میں مقیم ہیں۔انٹرویور نے ان کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں:
Mr. S. M. Joshi said that the Shariat of the Muslims and the Manusmurti of the Hindus followed by both the communities for centuries were equally and socially reactionary.
مسٹر جوشی نے کہا کہ مسلمانوں کی شریعت اور ہندوؤں کی منوسمرتی جن کی پیروی دونوں فرقے صدیوں سے کر رہے ہیں، وہ مساوی طور پر اور سماجی طور پر رجعت پسند ہیں۔اخبار کی رپورٹ میں مسٹر جوشی کا صرف اتنا ہی ریمارک نقل کیا گیا ہے۔مزید تفصیل در ج نہیں۔
شریعت کو منوسمرتی کے ساتھ بریکٹ کرنا بلا شبہ غلط ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ منوسمرتی میں واضح طور پر ایسی تعلیمات ہیں جو انسانی برابری کے تصور کے خلاف ہیں۔جب کہ اسلام میں یقینی طور پر ایسی کوئی تعلیم نہیں۔اس کے باوجود مسٹر جوشی نے دونوں کو کیوں بریکٹ کیا۔اس کی نفسیاتی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ اسلامی شریعت کو منوسمرتی کےساتھ بریکٹ کرکے اپنے احساس کمتری کو ہلکا کرنا چاہتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ان کے اس ریمارک کا مطلب یہ ہے کہ— اگر منوسمرتی میں رجعت پسندانہ باتیں ہیں تو اس سے کیا ہوا۔اس قسم کی رجعت پسندانہ باتیں دوسرے مذاہب میں بھی موجود ہیں۔
7اپریل1986
محمد رضا خاںآل انڈیا ریڈیو ،نئی دہلی کے عربک یونٹ میں ٹرانسلیٹر ہیں۔انہوں نے ندوہ سے فراغت کی۔اس کے بعد عربی لٹریچر میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم ۔اے کیا۔وہ آل انڈیا ریڈیو ہاسٹل(کرزن روڈ) میں ایک سرکاری کوارٹر میں رہتے ہیں۔
اگست1984ء میں وہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اپنے وطن چلے گئے۔مگر انہوں نے اس کے لیے کوئی چھٹی نہیں لی اور نہ بعد کو کوئی درخواست بھیجی۔عرصہ کے بعد وہ واپس آئے اور وہ اپنے آفس گئے تو دوبارہ انہیں کام نہیں ملا۔اور سکیورٹی آفیسر نے ان کا آئیڈنٹٹی کارڈ بھی لے لیا۔ان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ کسی قدر دماغی اختلال میں مبتلا ہیں۔چنانچہ آل انڈیا ریڈیو کی طرف سے انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ سرکاری ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرائیں۔انہوں نے یہ بھی نہیں کیا۔
اس طرح وہ ڈیڑھ سال سے بے کار پڑے ہوئے تھے اور حسب قاعدہ طرح طرح کے مسائل پیش آ رہے تھے۔آج مجھے ان کی بیوی کاخط ملا جس میں انہوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی پریشانی کا ذکر کیا تھا۔چنانچہ میں آج صبح آل انڈیا ریڈیو ہاسٹل گیا اور محمدرضا خاں صاحب کو لے کر آل انڈیا ریڈیو پہنچا۔وہاں اکسٹرنل سروسز ڈویزن کے ڈائریکٹر مسٹر راما سوامی (C. R. Ramaswamy) سے ملاقات کی۔وہ نہایت خوش دلی کے ساتھ ملے۔انہوں نے کوئی شکایت نہیں کی اور فوراً ہی ہم کو ڈپٹی ڈائریکٹر مسز رگمینی(Rugmini) کے پاس بھیجا۔مسز رگمینی نے بھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی اور فوراً ایک سپروائزر کے نام لکھ کر دیا جس میں ہدایت تھی کہ محمد رضا خاں صاحب کو آج سے ڈیوٹی پر لگا لیا جائے۔میں نے ڈپٹی ڈائریکٹر صاحبہ سے کہا کہ ڈیڑھ سال کی تنخواہ کا کیا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس کا بھی انتظام کریں گے۔
یہ سلوک ایک مسلمان کے ساتھ ایک ایسے ملک میں ہوا جس کو ’’ہندو ملک‘‘ کہا جاتا ہے۔کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو صرف شکایت کرنا جانتے ہیں۔ان کی زبان کبھی اعتراف کے لیے نہیں کھلتی۔
8اپریل1986
ہمارے مشن کے مخالفین کی مخالفت آج کل زوروں پر ہے۔مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں کی مخالفت میں جتنا اضافہ ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی مدد میں بھی اسی کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ہندوستان کے نیم انگریزی داں یہ پروپیگنڈا کرنے میں مشغول ہیں کہ الرسالہ کا انگریزی ایڈیشن غیر معیاری ہے۔اس کی زبان غلط ہوتی ہے۔اگرچہ ان حضرات کا حال یہ ہے کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ الرسالہ(انگریزی) میں زبان کی غلطی کی کوئی مثال بتائیے تو وہ مثال بھی نہیں دے پاتے۔
مگر عین اسی وقت الرسالہ(انگریزی) باہر کی دنیا میں غیرمعمولی مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔افریقہ(نائجیریا) میں مقیم ایک صاحب (خواجہ کلیم الدین ، مقیم حال پنسلوانیا،امریکا)چند مہینے سے ہم سے خط و کتابت کر رہے تھے ۔وہ الرسالہ (انگریزی) کا افریقی ایڈیشن نکالنا چاہتے ہیں۔ اب انہوں نے بالفعل یہ کام شروع کر دیا ہے۔ ڈاک سے ہم کو الرسالہ انگریزی کا مارچ1986ء شمارہ موصول ہوا ہے۔یہ الرسالہ (انگریزی)کے افریقی ایڈیشن کا پہلا شمارہ ہے۔اسی طرح اب وہ، ان شاءاللہ، ہر مہینہ نکلتا رہے گا۔پتہ یہ ہے:
Uniprinter Limited, p.o. box no.2779, Kano, Nigeria
نائجیریا میں الرسالہ کو پسند کرنے والوں کا ایک باقاعدہ حلقہ بن گیا ہے۔اور وہی اس ایڈیشن کو شائع کر رہا ہے۔افریقہ کے مختلف ملکوںمیں اس سے پہلے بھی بڑی تعداد میں الرسالہ جاتا رہا ہے۔اب اس میں یہ مزید ترقی ہوئی ہے کہ خود افریقہ میں اس کو reprintکیا جار ہا ہے۔اسی طرح ان شاء اللہ اسلامی مرکز کا پیغام بہت وسیع پیمانے پر پھیلنا ممکن ہو سکے گا۔
یہ تمام تر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ورنہ الرسالہ میں اس قسم کی کوئی کشش نہیں جو کسی چیز کو عوامی مقبولیت عطا کرتی ہے۔
9اپریل1986
پاکستان کے انگریزی اخبار اسٹار(The Star) میں ایک مضمون بابری مسجد (اجودھیا) کے بارے میں چھپا تھا۔اس کو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8اپریل1986) نے دوبارہ شائع کیا ہے۔
ایک پاکستانی مسلمان نے پاکستانی مسلمانوں کی حالت پر دردمندانہ تبصرہ کیا ہے۔اس نے لکھا ہے کہ بابری مسجد کے مسئلہ پر پاکستانی اخباروں نے سنسنی خیز سرخیاں قائم کیں۔علماء نے پر شور تقریریں کیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوںمیں جوش پیدا ہو گیا۔انہوں نے جیکب آباد میں ہندوؤں کے خلاف بدلے کی کارروائی شروع کردی ۔
اس نے لکھا ہے کہ اسلام اس زمانے میں نام بن گیا ہے اس کا کہ اسلام کے نام پر کفر کے فتوے دیے جائیں۔اسلام دشمنوں کو جلایا پھونکا جائے۔لوگوں کو کوڑے مارے جائیں۔ایک دوسرے کے خلاف لامتناہی لڑائی جاری رکھی جائے۔مضمون نگار نے اپنا مضمون ان الفاظ پر ختم کیا ہے:
Islam was mankind's greatest liberator. It has been converted into an inquisition. p.8
اسلام انسانیت کو آزادی عطا کرنے والا مذہب تھا۔مگر آج وہ ایک احتسابی عدالت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
آج اسلام کو سیاست اور لیڈری کا عنوان بنا دیا گیا ہے۔اس کا سب سے بڑا نقصان خود اسلام کو پہنچا ہے۔لوگوں کو آج اسلام سے نفرت ہو گئی ہےغیرمسلموں کو بھی اور مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو بھی۔اسلام کے یہ نمائندے اگر مخلص نہیں تو بلا شبہ وہ نادان ہیں اور اگر انہیں نادان نہ مانا جائے تو ان کا مخلص ہونا یقینی طور پر مشتبہ ہو جاتا ہے۔
10اپریل1986
دکتور عبدالحلیم عویس ریاض کی جامعۃ الامام میں علوم اجتماعی کے پروفیسر ہیں۔ چند دن وہ ہوٹل میں مقیم تھے۔آج وہ ہمارے یہاں آئے ہیں۔دو دن ہمارے مرکز میں رہ کر اتوار کو واپس ریاض جائیں گے۔(2011ء میں دکتور عبد الحلیم عویس کا انتقال ہوچکا ہے)
وہ نہایت ذہین اور خوش طبع آدمی ہیں۔میں نے کمرہ کی الماری کھول کر کہا کہ یہاں ہینگر ہے۔اس میں آپ اپنے کپڑے لٹکا سکتے ہیں۔انہوں نے ہینگر(شماعہ) پر ایک عربی مثل سنائی:
نحن نعلّق علیٰ شماعۃالاستعمار کل اخطائنا
یعنی ہم اپنی تمام غلطیوں کو استعمار (colonialism)کے ہینگر پر لٹکاتے ہیں۔اس عربی مثل میں جو بات کہی گئی ہے ،وہ بلا شبہ صد فیصد درست ہے۔موجودہ زمانہ میں ہمارے مسائل زیادہ تر اسی غلط ذہن کا نتیجہ ہیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دیتے ہیں۔یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ جس نے موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو ناکام بنا دیا ہے۔یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے۔یہاں لازماً یہ ہونا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو ڈھکیل کر آگے بڑھ جائے۔ایک قوم دوسری قوم کی شکست پر اپنی فتح کا قلعہ تعمیر کرے۔یہی تاریخ میں ہمیشہ ہوا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا— ہم دنیا کے اس نظام کو بدل نہیں سکتے۔ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ اس نظام کو بطور واقعہ مان کر اپنی منصوبہ بندی کریں۔
11اپریل1986
چارلس شو بھراج (پیدائش 1944ء)ایک بین الاقوامی مجرم ہے۔ وہ دہلی کے تہاڑ جیل سے مارچ 1986ءمیں فرار ہو گیا۔اس کی منصوبہ بندی نہایت مکمل تھی۔مگر7اپریل1986ءکو بمبئی پولس نے اس کو پکڑ لیا۔
چارلس شو بھراج اپنے ساتھیوں کا بہت وفادار تھا۔وہ تہاڑ جیل سے بھاگا تو اپنے ساتھیوں کو بھی ساتھ لے گیا۔ان میں سے ایک ساتھی اتفاق سے پکڑا گیا۔اسی ساتھی کے ذریعہ ابتدائی سراغ ملا جو بالآخر شوبھراج کی گرفتاری تک پہنچا۔رپورٹ کاایک حصہ یہ ہے:
Police sources said Tyagi cracked when they told him they had caught Sobhraj. He burst out saying, I told that fool not to come to Bombay.
پولس کے ذرائع نے بتایا کہ (شوبھراج کا ساتھی) تیاگی اس وقت کھل گیا جب انہوں نے اس سے کہا کہ انہوں نے شوبھراج کو پکڑ لیا ہے۔یہ سن کر وہ پھٹ پڑا اور اس نے کہاکہ میں نے اس بیوقوف سے کہا تھا کہ وہ بمبئی نہ آئے۔
چارلس شوبھراج کے ساتھی کو بلف (bluff)دے کر اس طرح پولس نے معلوم کر لیا کہ شوبھراج بمبئی یا اس کے آس پاس ہے۔اس کے بعد اس علاقے میں کھوج شروع ہوئی۔یہاں تک کہ وہ ایک ہوٹل میں پکڑ لیا گیا۔
آدمی کتنا ہی زیادہ تیاری کرے، کوئی نہ کوئی گوشہ ایسا رہ ہی جاتا ہے جہاں اس کی تیاری نامکمل ہو۔اور اسی گوشہ سے طوفان اس کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں وہی محفوظ ہے جس کو خدا محفوظ رکھے۔انسان اپنے آپ کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔
12 اپریل1986
آج ڈاکٹر عبدالرشید صاحب(حیدرآباد) اورا ن کے ایک ساتھی ملنے کے لیے آئے۔ڈاکٹر صاحب ریاض (سعودی عرب) میں ڈاکٹر تھے۔وہ وہاں سے چھوڑ کر ہندوستان آئے ہیں اور حیدرآباد میں اسلامی مرکز کے مشن کے ساتھ جڑ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرشید صاحب کا ذہن خالص آخرت پسندانہ ہے۔وہ اس راز کو جان گئے ہیں کہ اصل کام افراد کے اندر اللہ سے تعلق اور آخرت کا فکر پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ چیز آ جائے تو بقیہ چیزیں اپنے آپ آ جائیںگی۔
ایک بار ایک عرب صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہاکہ آپ کی سب سے اونچی کتاب’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ ہے۔بقیہ کتابیں اس کے نیچے ہیں۔جو لوگ اس طرح کی باتیں کہتے ہیں وہ ہمارے مشن کو صرف 50فیصد سمجھ سکے ہیں۔ڈاکٹر عبدالرشید صاحب خدا کے فضل سے ان میں نہیں ہیں۔انہوں نے اس مشن کو پوری طرح سمجھا ہے۔
لوگ مظاہر کو دیکھتے ہیں اور ان پر محنت کرنے کو کام سمجھ لیتے ہیں۔یہ ایسا ہی ہے جیسے درخت کی شاخ سوکھی ہوئی نظر آئے تو آدمی اسی شاخ پر پانی ڈالنا شروع کر دے۔ہر آدمی جانتا ہے کہ شاخوں کو ہرا بھرا کرنے کا راز یہ ہے کہ درخت کی جڑمیں پانی دیا جائے۔مگر انسانی زندگی کے معاملہ میں لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شاخوں پر پانی ڈالو اور درخت ہرا بھرا ہو جائے گا۔
13اپریل1986
ایک عرب عالم جو جامعۃ الامام (ریاض) میں پروفیسر ہیں۔اسلامی مرکز میں آئے۔وہ ہمارے مشن سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے اس نقطۂ نظر سے اتفاق ہے کہ اسلام کو سیاسی ٹکراؤ اور قومی مطالبات کا اشو نہ بنایا جائے۔بلکہ اس کو ایک دعوتی قوت کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔اور اس کو عصری اسلوب میں مدلل کرکے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
موصوف کی پرزور تجویز ہے کہ اسلامی مرکز سے الرسالہ کا عربی ایڈیشن جاری کیا جائے، تاکہ عالم عربی اسلامی مرکز کے افکار سے واقف ہو سکے۔
دوران گفتگو میں نے کہاکہ موجودہ زمانہ میں ہر آدمی’’دعوت‘‘ کا لفظ بولتا ہے۔مگر اسی کے ساتھ یہ بھی کرتا ہے کہ وہ دوسری قوموں سے مسلمانوں کے قومی مطالبات اور مادی نزاعات کی بھی وکالت کر رہا ہے۔یہ دونوں باتیں ایک دوسری کی ضد ہیں۔
مسلمانوں کو داعی گروہ کی حیثیت سے اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے قومی جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کریں،تاکہ ان کے بعد دوسری قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم ہو۔ دوسری قوموں کومادی حریف اور سیاسی رقیب بنانے کے بعد ان کے اوپر دعوت کا کام نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی دعوت مسلمانوں کے اپنے ذہن میں وجود میں آ سکتی ہے، وہ خارجی دنیا میں وجود میں نہیں آ سکتی۔
14اپریل1986
پاکستان میں سیاسی پابندیوں کے زمانہ میں مس بے نظیر بھٹو لندن چلی گئی تھی۔اب پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کو آزادی دی گئی ہے تو بے نظیر بھٹو دوبارہ پاکستان آ گئی۔اپریل1986میں بےنظیر بھٹو لاہور کے ہوائی اڈہ پر اتری تو لاکھوں انسان استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہندوستان کے چند آدمی جو ان دنوں لاہور میں تھے،انہوں نے واپس آکر مجھے دہلی میں بتا یا کہ ہم بےنظیر بھٹو کے اجتماع میں تو شریک نہیں ہوئے،تاہم سڑکوں پر بے نظیر بھٹو کے حامیوں کا اتنا ہجوم تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لاہور عملاً پیپلز پارٹی کے قبضے میں ہے۔ٹائمس آف انڈیا (14اپریل1986ء) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صدر جنرل ضیاءالحق نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
The politics of processions and public meetings had generated more heat than light.
جلسوں اور جلوسوں کی سیاست نے گرمی زیادہ پیدا کی ہے اور روشنی کم۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ بے نظير بھٹو (وفات2007) کی سیاست جنرل ضیاء الحق کے نزدیک counter productiveہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا خود جنرل ضیاء الحق (وفات1988) کی سیاست بھی کاؤنٹر پروڈکٹیو نہیں۔
جنرل ضیاء الحق صاحب نے اسلام کے نام پر جولائی 1977ء میں پاکستان کی حکومت پر قبضہ کیا۔ وہ ہر قسم کے اقتدار اور وسائل پر پوری طرح قابض ہو کر پاکستان میں اسلامائزیشن کی تحریک چلا رہے ہیں۔ وہ مسلسل یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ ان کا اسلامائزیشن کا عمل پوری طرح کامیاب ہے۔ وہ اپنے آپ کو اسلام کا نمائندہ بتاتے ہیں اور بھٹو پارٹی کو غیر اسلام کا نمائندہ۔
اب سوال یہ ہے کہ جب جنرل ضیاء الحق صاحب نے تمام پاکستانیوں کو اسلامی بنا رکھا ہے تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ یہ پاکستانی لوگ غیر اسلامی لیڈرشپ کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ کیا جنرل ضیاء الحق صاحب کی سیاست بھی عین اسی طرح کا ونٹر پروڈکٹیو ہے جس کا الزام وہ بھٹو پارٹی کو دے رہے ہیں۔
15اپریل1986
جناب مہتاب سنگھ صاحب ملنے کے لیے آئے۔وہ سائنس وٹکنالوجی میں سینئر آفیسر رہے ہیں اور بیرونی ملکوں کا بھی دورہ کیا ہے۔
میں نے اردو الرسالہ انہیں دکھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ اردو پڑھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہاں،اردو تو ہماری اصل زبان ہے۔ہم ان لوگوں میں سے ہیںجو تقسیم کے بعد پاکستان سے آئے۔وہاں ہم نے اردو اور فارسی پڑھی۔ہمارے ابتدائی استاد ایک مولوی صاحب تھے، جن سے ہم مسجد میں جاکر پڑھا کرتے تھے۔
اس طرح کی اور کئی باتیں انہوں نے بتائیں۔میں نے سوچا کہ وہ مسلم قائدین بھی کتنے نادان تھے، جنہوں نے جھوٹے مذہبی جھگڑے کھڑے کرکے ملک کو تقسیم کرایا اور ایک پوری قوم جو اردو زبان اور مسلم تہذیب کو اپنائے ہوئے تھی اس کو زبردستی دھکیل کر اپنے سے دور کر دیا۔
مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں جو سب سے بڑی چیز کھوئی ہے وہ دعوتی ذہن ہے اور اس قسم کی تمام نادانیاں اسی کا نتیجہ ہیں۔
مہتاب سنگھ صاحب نے دوران گفتگو کہا کہ میں نے انگریزی کی ایک ڈکشنری میں لفظ sillyدیکھا تو اس کا ایک مطلب مذہبی آدمی لکھا ہوا تھا۔میں نے اسی وقت ویبسٹر کی بڑی ڈکشنری نکالی اور اس میں سلی کا لفظ دیکھا۔ ڈکشنری میں اس لفظ کے چھ معنی لکھے ہوئے تھے، مگر اس میں مذہبی شخص شامل نہ تھا۔
میں نے جناب سنگھ سے کہا کہ کسی لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے اورا یک مجازی مفہوم۔لفظ سلی کا لغوی مفہوم تو بے وقوف اور سادہ لوح ہے۔مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مذہب میں زیادہ پرجوش طور پر وہی لوگ جاتے ہیں جو سیدھے سادے کم سمجھ ہیں۔زیادہ ہوشیار لوگ مذہب کی طرف کم رجوع کرتے ہیں۔اس عملی صورت حال کی وجہ سے سلی کا لفظ شاید مجازی طور پر مذہبی لوگوں کے لیے بھی کسی علاقہ میں بولا جانے لگا ہو۔
ہندوستان میں جو لوگ موجودہ زمانہ میں مذہبی سیاست چلاتے رہے ہیں ان پر تو یہ یقیناً پوری طرح صادق آتا ہے۔