زندگی کا المیہ

مسٹر ستیہ جیت رے (Satyajit Ray) مئی ۱۹۲۱ میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلمی صنعت کو اپنا میدانِ کا ربنایا۔ اس میدان میں انھوں نے اتنی ترقی کی کہ ان کو ماسٹر آف انڈین سینما کہا جانے لگا۔ چالیس سال تک وہ فلمی دنیا پر چھائے رہے۔ ۲۳ اپریل ۱۹۹۲ کو کلکتہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ٹائم میگزین (۴ مئی ۱۹۹۲) نے ان کو ماسٹر فلم میکر کہا ہے۔

اپنی اعلیٰ کارکردگی کو ثابت کرنے میں مسٹرستیہ جیت رے کو اپنی عمر کے ۷۱ سال صرف کرنے پڑے۔ آخر کار وہ وقت آیا کہ انھیں ممتازانعامات دے کر ان کا اعتراف کیا جائے۔موت سے صرف ایک ماہ پہلے ان کو ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز" بھارت رتن" سے سرفراز کیا گیا۔ مگر اس وقت وہ اس قابل نہ تھے کہ اعزاز کی تقریب میں شرکت کے لیے کلکتہ سے دہلی کا سفر کریں۔ اسی طرح امریکہ کی اکیڈمی آف موشن پکچرز کا عالمی انعام اوسکر ایوارڈ (Oscar Award) دینے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا۔ مگر یہ بھی ان کی آخری عمر میں ہوا۔ چناں چہ اس اعلیٰ انعام کو لینے کے لیے بھی وہ لاس اینجلیز نہ پہنچ سکے۔

ستیہ جیت رے کی موت کے بعد ان کے بارے  میں ریڈیو اور ٹیلی وزن پر غیر معمولی پروگرام جاری کیے گئے۔ اخبارات نے کئی کئی صفحے کے تذکرے شائع کیے۔ دی اسٹیٹسمین (۲۴ اپریل ۱۹۹۲) نے اپنے ایڈیٹوریل میں ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ یہ بڑی درد ناک ستم ظریفی تھی کہ موت نے انڈیا کے ایک لائق ترین شخص کو عین اس وقت چھین لیا جب کہ وہ اپنی عظمت کے بہترین مقام پر تھے:

It was cruel irony that death should have snatched one of India's greatest talents at his finest moment of glory.

دنیا میں آدمی پر مشقت عمل کر کے اپنا ایک مینار کھڑا کرتا ہے۔ مگر جب وہ اس کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور لوگ اس کا اعتراف کرنے لگتے ہیں، عین اس وقت موت اس کی کامیابیوں کی نفی کر دیتی ہے۔ پایا ہوا انسان اچانک ایک کھویا ہوا انسان بن جاتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom