کراہیتِ موت
سنن ابی داؤد (کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام) میں ثوبان رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ وقت آنے والا ہے جب قو میں تمہارے خلاف پکاریں جس طرح کھانے والے کھانے کے پیالہ کی طرف پکارتے ہیں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا اس دن ہم کم ہوں گے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ اس وقت تم بہت زیادہ ہو گے۔ مگر تم لوگ جھاگ ہوگے، سیلاب کے جھاگ کی طرح۔ اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا خوف نکال دے گا۔ اور اللہ تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ اےخدا کے رسول، وہ کمزوری کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کو نا پسند کرنا۔
اس حدیث میں امت کے دورِ زوال کی پیشگی خبر دی گئی ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ مگر وہ ایک کمزوری کا شکار ہونے کی بنا پر بے وزن ہو جائیں گے۔ وہ کمزوری یہ ہے کہ دنیا کا مفاد ان کی نظر میں بے حد عزیز ہو جائے گا۔ حتی کہ مفاد کے خلاف جانا انھیں ایسا لگے گا جیسے کہ وہ اپنی موت کی طرف جا رہے ہوں۔
عوام کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت ان کے مادی مفاد کی ہو جائے گی، کیوں کہ حق کے تقاضوں پر چلنے میں وہ اپنی معاشی بربادی محسوس کریں گے۔ قائدین اپنی قوم کی غلطیوں کے خلاف بولنا چھوڑ دیں گے، کیوں کہ انھیں دکھائی دے گا کہ ایسا کرنا اپنے آپ کو قیادتی ہلاکت کے خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ لوگ قربانی کے بجائے رخصت کے طریقے پر چل پڑیں گے کیوں کہ قربانی کے طریقہ میں انہیں اپنی دنیوی موت نظر آئے گی۔ لوگ اصول پسندی کے بجائے مصلحت پرستی کو اپنا شیوہ بنا لیں گے، کیوں کہ ان کا یہ احساس ہوگا کہ مصلحت پرستی میں ان کی ترقی ہے اور اصول پسندی میں ان کی موت۔
یہ صفات آدمی کو خود پسند بناتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو صرف اپنے ذاتی مفاد کی خبر ہوتی ہے انھیں پوری قوم کے مفاد کی خبر نہیں ہوتی۔ ان کے اندر یہ استعداد ختم ہو جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے جڑ کر متحدہ طاقت بن سکیں۔ مجموعی طور پر کثیر تعداد ہونے کے باوجود اس کا ہر فرد اکیلا اکیلا ہو کر رہ جاتا ہے۔