سفر نامہ - ۴
دار الصحوہ نے کثیر تعداد میں عربی کتا بیں چھاپی ہیں۔ وہ قاہرہ کے بڑے نشریاتی اداروں میں سے ہے۔ اس کے تعارف نامہ میں لکھا ہوا ہے کہ دارالصحوہ صرف تجارتی دارالاشاعت کے طور پر قائم نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے سامنے ایک اسلامی نشانہ ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر حقیقی دینی فہم پیدا کرے اور ان کو جدید چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائے۔
دار الصحوہ کا مقصد، اس کے تعارف نامہ کے مطابق، یہ ہے کہ اہل اسلام کو روحانی اور ثقافتی اعتبار سے بلند کرے۔ ان کے اندر اعلیٰ ترین فکری اور اخلاقی اوصاف پیدا کرے تاکہ وہ سنت اللہ کے مطابق عالمی قیادت کے مستحق بن سکیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ عالمی قیادت کا منصب انھیں کو دیتا ہے جو فکری اور اخلاقی اور ثقافتی اعتبار سے بلند درجہ کو پہنچے ہوئے ہوں۔ دار الصحوہ کے انچارج جناب محمد کمال صاحب نے اپنے مکتبہ کی کئی کتابیں مجھے دیں۔ ان میں سے ایک شیخ شعراوی کی کتاب تھی۔
شیخ محمد متولى الشعراوی یہاں کے مشہور عالم ہیں۔ وہ زیادہ تر تقریریں کرتے ہیں۔ ان کی کچھ کتابوں کا مجموعہ چھاپا گیا ہے۔ اس کو مرتب کرنے والے ابو الحسن عبد الرزاق ہیں۔ اس میں بہت سی نصیحت کی باتیں ہیں۔ ایک اقتباس میں انھوں نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے معاشرہ کو مجتمع اسلامی کہتے ہیں۔ مگر ہم اسلامی مجتمع نہیں۔ در اصل ہم اسلامی جغرافیہ ہیں (نحن فی الواقع لسنا مجتمعاً إسلاميا، نحن جغرافية إسلامية) صفحہ ۴۰
شیخ شعراوی کی یہ کتاب تمام تر خطابی انداز میں ہے۔ اس میں کسی بات کا گہرا تجزیہ مجھے نہیں ملا۔ مثال کے طور پر کتاب کے صفحہ ۳۰ پر ایک حدیث کو مختصراً نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ہر قبیلہ کے منافق اس کی سرداری کریں گے (من علامات الساعة ... ويسود كل قبيلة منافقوها) اس حدیث پر انھوں نے خطابی انداز کے کچھ جملے کہے ہیں مگر وہ اس کی کوئی گہری تشریح نہ کر سکے۔
اس حدیث کا پورا مطلب اس وقت سمجھ میں آتا ہے جب کہ اس کو قرآن سے ملاکر دیکھا جائے۔ قرآن میں منافقین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جب تم انھیں دیکھو تو ان کے جسم تم کو اچھے لگتے ہیں، اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی بات کوسنتے ہو۔ (المنافقون ۴)
منافق حقیقۃً اس انسان کا نام ہے جو مصلحت پرست اور زمانہ ساز ہو۔ اس کی اس صفت کی بنا پر اس کے دنیوی معاملات درست رہتے ہیں۔ اس کی زندگی خوش حالی کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کی زندگی غم سے خالی ہوتی ہے۔ اس کے ان حالات کا اثر اس کے جسم پر پڑتا ہے۔ اس کا جسم پرکشش جسم بن جاتا ہے۔ اسی طرح اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر وہ اس بحث میں نہیں پڑتا کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ اصول کیا ہے اور بے اصولی کیا۔ تضاد والا کلام کیا ہے اور بے تضاد کلام کیا۔ اس کے بجائے وہ موقع کی رعایت کر کے بولتا ہے۔ اس بنا پر اس کا کلام ہر ایک کی پسند کا کلام بن جاتا ہے۔
منافقین کی یہ خصوصیت ہر دور میں ان کو عوام کا لیڈر بنائے رہی ہے۔ قرب قیامت میں پریس اور اسٹیج کا دور آجانے کی وجہ سے منافقین کے یہ مواقع اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اپنی مذکورہ صفات کے اظہار کے لیے وہ زیادہ وسیع مواقع پالیں گے اور نتیجۃ ً زیادہ بڑے پیمانے پر اپنےلیے قیادت کا مقام حاصل کر لیں گے۔
ایک مصری عالم نے گفتگو کے دوران کہا کہ یورپی اور امریکی یہی موجودہ زمانے کے صلیبی ہیں(الصليبيون الآن هم الأوربيون والأمريكيون) انھوں نے شیخ محمد ابو زہرہ کا قول دہرایا: إن كل حرب تقع بين إقلیم إسلامی و دولة أوروبية هي حرب صلیبیة(ہرجنگ جو کسی مسلم ملک اور کسی مغربی ملک کے درمیان ہوتی ہے وہ صلیبی جنگ ہے)
آج تقریباً پوری عرب دنیا کی سوچ یہی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ سوچ صحیح نہیں۔ یہی وہ خاص سوچ ہے جس نے مسلم دنیا کی نظر میں مغربی قوموں کو نفرت کا موضوع بنا دیا ہے۔ حالاں کےامت مسلمہ کی داعیانہ حیثیت کا تقاضا ہے کہ مغربی قو میں اس کے لیے شفقت و ہمدردی کا موضوع بنیں۔
ایک مجلس میں چند عرب لوگ تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ آپ جومشن چلا رہے ہیں، اس سے مجھے اتفاق ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آپ کے بعد یہ مشن کس طرح جاری رہے گا۔ کیا آپ نے اپنے بعد کے لیے اپنے جیسا کوئی شخص تیار کیا ہے جو آپ کی جگہ لے سکے۔ اس پر رابطۂ عالم اسلامی کے شیخ ادر یس نے کہا:وحید الدین لا يكون إلا وحيداً (وحید الدین صرف ایک ہی ہوتا ہے)
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں بلکہ ہر آدمی کی بات ہے۔ ہر آدمی جو اس دنیا میں آتا ہے وہ ایک منفرد شخصیت لے کر آتا ہے۔ جس طرح ہر آدمی کے انگوٹھے کانشان دوسروں سے الگ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی کی شخصیت بھی دوسروں سے الگ ہوتی ہے۔ کسی بھی آدمی کی تکراراس دنیا میں ممکن نہیں۔
۱۲ اکتوبر کی سہ پہر کو ہم اہرام وغیرہ دیکھنے کے لیے نکلے۔ ایک مقام پر پہنچے تو ایک اونچی بلڈنگ کے او پر آخری منزل پر ایک سفید اور کالا جھنڈالہرارہا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس عمارت کے اوپر کے حصہ میں اسرائیل کا سفارت خانہ واقع ہے۔ پہلے یہ سفارت خانہ نیچے کی منزل پر تھا۔ مگر اس پر حملے ہوئے۔ اس کے بعد اس کو او پر کی آخری منزل پر قائم کر دیا گیا۔ تاہم قاہرہ میں وہ یہاں کے سماج سے بالکل کٹ کررہتے ہیں۔ یہاں کوئی ان سے ملنا پسند نہیں کرتا۔
پہلا اسرائیلی سفیر جب اپنی مدت پوری کر کے قاہرہ سے اسرائیل واپس گیا تو اس کی بیوی نے اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاہرہ میں ہم کسی جیل کے اندر تھے۔ اب اس سے نکل کر آزاد دنیا میں آئے ہیں۔
قاہرہ کی مذکورہ بلڈنگ کے اوپر اسرائیل کا جھنڈا لہراتے ہوئے دیکھ کر خیال آیا کہ جس ملک میں ثورہ کے بعد اس کے اول حکمراں نے اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنرمیکم فی البحر(ہم تم کو سمندر میں پھینک دیں گے) عین اسی ملک میں اس حکمران کے پہلے جانشین کے زمانے میں خود اس کی اجازت سے یہ واقعہ پیش آیا کہ اسرائیل نے دارالسلطنت قاہرہ میں داخل ہو کر وہاں اپنا جھنڈا نصب کر دیا۔
حقیقتیں کبھی الفاظ سے نہیں بدلتیں بلکہ اس کے مطابق ضروری اسباب فراہم کرنے سے بدلتی ہیں۔ موجودہ زمانے کے بیشترقائدین کا یہ حال ہے کہ انھوں نے پر جوش الفاظ بولنے کو حقیقی عمل کا بدل سمجھ لیا ہے۔ مگر اس قسم کی خوش فہمی صرف خوش فہم آدمی کے ذہن میں جگہ پاتی ہے وہ زمین پر کبھی قائم نہیں ہوتی۔
جامعۃ القاہرہ، حدیقۃ الحیوانات اور دوسرے مقامات کو دیکھتے ہوئے ہمارا سفر طے ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ہم جیزہ کے اہرام تک پہنچ گئے۔ یہاں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر تین اہرام واقع ہیں۔ کھلے میدان میں پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے بنے ہوئے اہرام اس طرح کھڑے ہوئے تھے جیسے مصر کی گزری ہوئی تاریخ اپنی تمام قدامت کے ساتھ اٹھ کر کھڑی ہوگئی ہو اور خاموش زبان میں اپنا تعارف کرا رہی ہو۔
ہماری گاڑی اہرام کی طرف آگے بڑھی تو ایک سپاہی نے اس کو روک لیا۔ وہ ہمارے ساتھی سے بات کر رہا تھا جو گاڑی چلا رہے تھے۔ میں حسب عادت پچھلی نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظر میرے اوپر پڑی تو اس کا رویہ بدل گیا۔ اس نے یہ کہہ کر گاڑی آگے کی طرف جانے کی اجازت دے دی کہ:من أجل الشيخ الكبير سمحنالك۔ میں نے سوچا کہ اس دنیا میں اگر طاقت ور آدمی کی طاقت میں تاثیر ہے تو میرے جیسے ضعیف آدمی کا ضعف بھی اپنے اندر ایک طاقت رکھتا ہے۔ اور بعض اوقات ضعیف کی طاقت قوی کی طاقت سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔
تین اہرام دیکھنے کے بعد میں نے ابوالہول کو دیکھا جو اہرام سے الگ پتھر کو تراش کر بنایا گیا ہے۔ ایک سیاح عالمی سفر کر کے واپس آیا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے ساری دنیا کا سفر کیا ہے۔ بتاؤ کہ سب سے عجیب چیز تم نے کیا دیکھی۔ اس نے تصویر اہرام
کہا: ابوالہول کے اعضاء کا تناسب۔ ابوالہول نامی بت بہت بڑا ہونے کے باوجود متناسب الاعضاء ہے۔ تاہم مجھ کو وہ اتنا زیادہ متناسب نظر نہیں آیا جتنا مذکورہ سیاح نے بتایا ہے۔
اہرام دیکھنے کے دوران ایک موقع پر تمام سواریاں روک دی گئیں۔ اتنے میں ایک درجن کا روں کا قافلہ خاص آداب کے ساتھ آیا۔ معلوم ہو اکہ وزیر اعظم مالٹا اہرام دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ یہی دھوم پچھلے دن قاہرہ کے ہوائی اڈہ پر نظر آئی تھی جب کہ مالٹا کے وزیر اعظم قا ہرہ ائیر پورٹ پر اترے تھے۔ مالٹا میں ہم نے دیکھا تھا کہ وزیر اعظم وہاں عام انسانوں کی طرح رہتا ہے۔ مگر قاہرہ آتے ہی اس کے ساتھ شاہانہ آداب کا منظر دکھائی دینے لگا۔ کتنا فرق ہے ایک ملک اور دوسرے ملک میں۔
ایک انگریزی اخبار میں ایک دلچسپ مضمون پڑھا۔ اس کے ساتھ ایک تصویر بھی شامل تھی۔ اس تصویر میں مصر کے تین اہرام نظر آرہے تھے۔ دوسری طرف اونٹ اپنی روایتی صورت میں موجود تھے۔ اسی کے ساتھ اہرام کے سامنے کھلے ہوئے میدان میں ایک چاند گاڑی تھی۔ اس کے اوپر ایک آدمی خلائی لباس (اسپیس سوٹ) پہنے ہوئے دکھائی دے رہا تھا۔ تصویر کے اوپر لکھا ہوا تھا: کیا خلائی تحقیق کرنے والے قدیم مصر میں اتر ے تھے۔
یہ ایک فرضی قیاس آرائی تھی۔ مگر آرٹسٹ کے قلم نے کاغذکے اوپر اس کو ایک واقعے کی صورت میں ڈھال دیا۔ اگر آپ صرف کاغذی نقشہ کو دیکھیں تو وہ آپ کو واقعہ معلوم ہو گا۔ اور اگر آپ اپنے ذہن کو استعمال کریں تو آپ پر کھلے گا کہ وہ صرف ایک لطیفہ ہے۔ اس دنیا میں اگر کوئی شخص صرف ظاہر کی بنیاد پر رائے قائم کرے تو وہ کبھی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں حقیقت کو صرف وہ شخص پاتا ہے جو ظاہر سے گزر کر باطن تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
استاذ محمد کمال نے نہر سوئز جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ صبح کوقا ہرہ سے بذریعہ کا ر سوئز جانا اور پھر شام تک وہاں سے واپس آنا تھا۔ مجھے خود بھی سوئز دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ مگر بعض دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے میں سوئز کا سفر نہ کر سکا۔
سوئیز کی تاریخ کے ساتھ طرح طرح کے خوش گوار اور ناخوش گوار واقعات شامل ہیں۔ سوئز وہ مصنوعی نہر ہے جو میڈیٹرینین اور ریڈسی کو ملاتی ہے اور اس طرح یورپ اور مشرقی دنیا کے درمیان بحری سفر کو مختصر کر دیتی ہے۔ اس نہر کا تخیل کافی تقدیم ہے۔ ۱۸۵۶ میں سوئز کینال کمپنی بنی۔ ۱۸۵۹میں کھدائی کاکام شروع کیا جو آخری طورپر ۱۸۶۹ میں مکمل ہوا۔ نومبر ۱۸۶۹ میں وہ جہاز رانی کے لیے کھولی گئی۔
مختلف حالات سے گزرتے ہوئے یہ کمپنی فرانس اور برطانیہ کی ملکیت میں آگئی۔ ابتدائی ٹھیکہ کے مطابق، سوئز پر کمپنی کا کنٹرول ۹۹ سال تک رہنا تھا جو ۱۹۶۸ میں ختم ہوتا تھا۔ آخری زمانے میں سوئز کے کل منافع میں مصر کا حصہ سات فیصد تھا۔ کمپنی کے کارکنوں میں زیادہ تعدا د مصریوں کی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ کمپنی کی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ علاقہ میں اسپتال، اسکول وغیرہ قائم کرے۔ حوالہ کے لیے : انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، جلد ۱۷، صفحہ ۷۶۸
مصر میں جمال عبد الناصر کی حکومت آئی تو انہوں نے اسوان ڈیم کا منصوبہ بنایا۔ امریکہ نے اس کے لیے ۲۷ کروڑ ڈالر (270,000,000$)کی اقتصادی مدد منظور کی۔ برطانیہ نے بھی مدد کا وعدہ کیا۔ مگر جمال عبد الناصر نے اسی کے ساتھ اندر اندر کیمونسٹ بلاک سے تعلقات قائم کرلیے۔ انھوں نے چیکو سلاویکیا سےہتھیار حاصل کرنے کا خفیہ معاملہ کیا۔ اس پر امریکہ بگڑ گیا۔ اس نے ڈیم کی امداد روک دی۔ اس کے بعد ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۶ کو جمال عبدالناصرنے تالیوں کی گونج کے درمیان اعلان کیا کہ آج ہم نے نہر سوئز کو نیشنلائز کر لیا اور اب ہم اس کی آمدنی سے اسوان ڈیم کی تعمیرکریں گے۔ (844/12)
جمال عبد الناصر کے اس اقدام نے مغربی قوموں کو ان کا دشمن بنا دیا۔ اس کے فوراً بعد فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کے ذریعے مصر پر حملہ کرا دیا۔ خود بھی پوری طرح اس کی مدد کی۔ اس حملہ میں مصر کی فوجی طاقت کچل کر رہ گئی۔ اسرائیل نے مزید اطراف کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے رقبہ کو پانچ گنابڑھا لیا۔
جمال عبد الناصر اگر ۱۲ سال انتظار کرتے تو سوئزکمپنی معاہدہ کے مطابق اپنے آپ ختم ہو جاتی۔ مگر ان کے عاجلانہ اقدام نے مصر کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ جو چیز ۱۹۶۸ میں اپنے آپ مل جاتی، اس کو ۱۹۵۶ میں پیشگی طور پر حاصل کرنے کی کوشش مصر کے حق میں الٹی ثابت ہوئی۔
ایک ہندستانی مصنف کی عربی کتاب قاہرہ سے چھپی ہے۔ اس کا نام ہے: المسلمون في الهند، بين خدعة الديمقراطية واكذوبة العلمانية۔ میں نے پڑھنے کے لیے لیا تو اس کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے انڈیا کے ہندوؤں نے طے کر لیا ہے کہ وہ اسپین کے قصہ کو انڈیا کے مسلمانوں کے ساتھ دہرائیں (یبدو أن الھندوس في الهند قرروا أن يقوموا بتكريرقصة الأندلس)
پوری کتاب انشائی انداز میں ہے۔ حقائق سے صرف نظر کر کے اس میں الفاظ کا جوش و خروش دکھایا گیا ہے۔ آخر میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے افغانی جنگجوؤں کو بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے:و أن شعبنا الهندى المسلم الذي يزيد عدده عن عدد المجاهدين الأفغان سبعة أضعاف يستطيع أن يستفيد من الدرس الأفغاني ويستوعبه(صفحہ ۹۷)
یہ سب باتیں اتنی بے معنی ہیں کہ مجھے ان لوگوں کی عقل پر حیرت ہوتی ہے جو اس کو لکھیں اور ان لوگوں کی عقل پر بھی حیرت ہوتی ہے جو اس کو چھاپ کو پھیلائیں۔
ایک مصری مصنف (عبد المجیدصبح) کی کتاب دیکھی۔ ۴۷۰ صفحہ کی اس کتاب کا نام حقائق الإسلام بین الجهل والجحود تھا۔ اس کتاب کے ٹائٹل پر دو تلواریں بنی ہوئی تھیں۔ایک تلوار مسلم ملت کو سیاسی حیثیت سے قتل کر رہی تھی اور دوسری تلوار اس کو دینی حیثیت سے۔
پوری کتاب جدلی انداز میں ہے۔ مگر اس کے تعارف میں ٹائٹل کے آخری صفحہ پر بتایا گیاہے کہ وہ منہج علمی پرلکھی گئی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مصنفینِ اسلام منہجِ علمی کو جانتے بھی نہیں۔ کجا کہ وہ منہجِ علمی پر کتاب لکھ سکیں۔
عربوں کی موجودہ نفسیات کی بنا پر جہاد کی باتیں ان کو بہت پسند آتی ہیں۔ کتابوں کے جارحانہ ٹائٹل اور ٹائٹل کے اوپر عسکر ی آرٹ ان کے درمیان بہت پسند کیا جاتا ہے۔ قاہرہ میں ہم کتابوں کی ایک دکان میں داخل ہوئے۔ معمولی مشاہدہ میں دس سے زیادہ ایسی کتابیں نظر آئیں جن کے ٹائٹل پیج پر تلوار کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ مثلاً ___مقام الصحابة، حقائق الإسلام، خفقات قلب، شهداء الصحابة، الدولة والسلطة في الإسلام، السبحة أوالدمار، الفارس المصلوب عبد الله بن الزبير، شهيد المحراب عمر بن الخطاب، الاعلام الخليجي، صور وبطولات، وغيره۔
الشیخ محمد متولی الشعراوی مصر کے بڑے عالموں میں سے ہیں۔ وہ لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ انور السادات کے زمانہ حکومت میں سبعینات میں انھوں نے وزیر اوقاف کا عہدہ قبول کر لیا۔ اس کے بعد عوام کے درمیان ان کی مقبولیت بہت کم ہوگئی۔ وہ "سرکاری مولوی" سمجھے جانے لگے۔ شیخ شعراوی نے اس فرق کومحسوس کیا اور ۱۹۷۹ میں وزارت سے الگ ہو گئے۔اس کے بعد انھوں نے کبھی حکومت میں کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ آج وہ مصر کے مقبول ترین عالم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ صورت حال موجودہ زمانے میں اسلام کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کچھ نا عاقبت اندیش قائدین نے یہ روایت قائم کی ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا کام حکومت کا مخالف بن کر کھڑا ہونا ہے۔ اسلام کے نام پر جاری کی جانے والی اس غیر اسلامی سیاست نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی دشمن نے بھی اسلام کو نقصان نہیں پہنچایا۔ موجودہ زمانے میں تمام اعلیٰ ذرائع حکومت کے قبضہ میں ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو استعمال کر کے اسلام کی عظیم خدمت کی جاسکتی ہے۔ مگر غلط طور پر یہ صورت حال بن گئی ہے کہ جو شخص حکومت کے قریب ہو وہ مسلم عوام سے دور ہو جاتا ہے اور جو شخص مسلم عوام سے قریب ہونا چاہے اس کو حکومت سے دور ہونا پڑتا ہے۔
رجاء بن حیوہ نے سلطان وقت سے قریب ہو کر عمر بن عبدالعزیز جیسے انسان کے لیے خلافت کا راستہ کھولا۔ مگر آج کوئی عالم رجاء بن حیوہ بننے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ سعودی عرب میں شیخ ابن باز،مصر میں شیخ طنطاوی اور شام میں شیخ کفتارو حکومت سے مل کر دین کا کام کرنا چاہتےہیں۔ مگر وہ عوام میں غیر مقبول ہیں۔ دوسری طرف جو علما، حکومت سے لفظی یا عملی ٹکر لے رہے ہیں، انھوں نے کوئی بھی حقیقی فائدہ نہیں پہنچایا، مگر عوام میں انھیں کو مقبولیت حاصل ہے۔
قاہرہ کے زمانہ قیام میں محمد الخطیب کی کتاب بالإسلام مصر دولة عظمی دیکھی۔ پوری کتاب خطیبانہ انداز میں ہے۔ ۳۳۳ صفحہ کی اس کتاب کو پڑھنے کے بعد قاری کے اندر فکری ہیجان کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوسکتا۔ جبکہ صحیح کتاب وہ ہے جو آدمی کے اندر سنجیدہ تعمیری ذہن پیدا کرے۔
کتاب کا خلاصہ موجودہ مسلمانوں کو ابھار کر ان کے اندر وہ چیز پیدا کرنا ہے جس کو مصنف نے الشخصية الجهادية للفرد والأمة على السواء (صفحہ ۱۳۳) کہا ہے۔ کتاب میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ مسلمان عظیم تا ریخ کے وارث ہیں۔ وہ امامت عالم اور قیادت بشری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ان کا مشن یہ ہے کہ اپنے عقیدہ کی بنیاد پر عالمی حکومت قائم کریں۔ اور پھر خاتمہ میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ عنقریب وہ عظیم اسلامی حکومت قائم ہو کر رہے گی، خواہ شر کی طاقتیں چا ہیں یا نہ چاہیں (ستقوم الخلافة الإسلامية لا محالة بإذن الله شاءت قوى الشر أم أبت)
کتاب کے مطالعےسے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کے نزدیک شاید اذن اللہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے ہمارے لیے ایسا ہونا مقدر کر دیا ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ اذن اللہ کا تعلق اصول سے ہے نہ کہ کسی گروہ سے۔ اس سے مراد قانون فطرت ہے نہ کہ مسلم قوم۔
کتاب میں زور و شور کے ساتھ جاپان کی مثال دہرائی گئی ہے کہ وہ دوسری عالمی جنگ میں خاکستر ہو گیا اور پھر اٹھ کر وہ عالمی طاقت بن گیا۔ جب کہ مصر کے پاس امکانیات کی مقدار اس سے بہت زیادہ ہے۔ یہ حوالہ صحیح نہیں۔ کیوں کہ اہل جاپان نے اس طرح ترقی نہیں کی کہ ان کے یہاں خطیبوں اور انشا پردازوں کا ایک گر وہ اٹھا اور اس نے عظمت ماضی کے اعادہ کے نام پر
پر جوش الفاظ کا دریا بہانا شروع کر دیا۔ اس کے برعکس جاپان کے اہل فکر نے اپنی قوم کے اندر اعتراف حقیقت کا مزاج پیدا کیا۔ انہیں اس پر راضی کیا کہ وہ امریکی اقتدار اور اس کے منصوبوں کوبلا بحث تسلیم کر لیں۔ وہ اس سے ٹکرائے بغیر اس کے حدود میں رہ کر خالص غیر سیاسی انداز میں اپنی پر مشقت تعمیر کریں۔
قرآن میں ہے کہ وجعلنا منهم أئمة يهدون بأمرنالماصبروا (السجدة: ۲۴) گویا اذن اللہ یہ ہے کہ اس دنیا میں صبر کرنے والے کو امامت کا منصب دیا جاتا ہے۔ مسلمان صبر کو حذف کر کے قیادت کے منصب پر قبضہ کر نا چاہتے ہیں۔ اور خدا کی دنیا میں کبھی ایسا ہونے والا نہیں۔
قاہرہ سے ایک عربی روز نامہ الشعب نکلتا ہے۔ اس کے شمارہ ۱۵ ربیع الاول ۱۴۱۲ھ میں دکتور محجوب عمر کے قلم سے ایک مضمون تھا۔ اس کا عنوان تھا: المشكلة ھی اسرائیل۔یہی اس وقت عالم اسلام کے اہل فکر کا عام مزاج ہے۔ وہ اسرائیلی اور غیر اسرائیلی سازشوں کومسلمانوں کا اصل مسئلہ سمجھتے ہیں۔ مگر اس قسم کا طرز فکر قرآن کی تردید کے ہم معنی ہے۔ قرآن کے مطابق مسلمانوں کی اصل مشکل یا ان کا اصل مسئلہ ان کی داخلی کمیاں ہیں نہ کہ خارجی دشمن کی سازشیں۔ لیکن مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے اپنے بے فائدہ کلام سے مسلمانوں کو اس فرضی وہم سے نکلنے نہیں دیتے۔
ایک بار میں قاہرہ کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک طرف وسیع میدان اور اونچا پنڈال نظر آیا۔ ہمارے مصری رفیق محمد کمال صاحب نے بتایا کہ یہی وہ میدان ہے جہاں۶اکتوبر ۱۹۸۱ کو عرب- اسرائیلی جنگ (اکتوبر ۱۹۷۳) کی یاد میں ملٹری پریڈ ہو رہی تھی اور سابق مصری صدر انور السادات اپنے رفقاء کے ساتھ پنڈال پر بیٹھے ہوئے تھے۔ عین اس وقت فوج کا ایک جوان اپنی صف سے نکلا اور تیزی سے گولی مار کر انہیں ہلاک کر دیا۔
انور السادات کا قاتل ایک مصری نوجوان خالد اسلامبولی تھا۔ وہ الاخوان المسلمون کی تحریک سے متاثر ہوا۔ وہ انور السادات کے سخت خلاف تھا۔ مقدمۂ قتل کے دوران جج نے اس سے کہا کہ تمہارے او پر انور السادات کے قتل کا الزام ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ میں نے ہی اس فرعون کو قتل کیا ہے۔ عدالتی فیصلہ کے تحت ۸ مارچ ۱۹۸۲ کو خالد اسلامبولی کو قتل کر دیا گیا۔
خالد اسلامبولی کی ماں سے ایک عربی جریدہ نے انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں خالد اسلامبولی کی ماں نے بڑے ہی جذباتی انداز میں ایک ایک سوال کا جواب دیا تھا۔ اس انٹرویو کا ایک جزء یہ ہے:
(ام خالد نے کہا) خالد سے جب پہلی بار سجن حربی میں میری ملاقات ہوئی تو اس وقت اس کے خلاف قتل کا کیس شروع ہو چکا تھا اور اس دن مقدمۂ قتل کی سماعت کا دوسرا دن تھا۔ ہال میں داخل ہو کر میں تیزی سے چلتی ہوئی خالد کے پاس پہنچ گئی۔ خالد اس وقت عدالت کے مخصوص کٹہرے میں کھڑا ہوا تھا۔ وہ بالکل مطمئن تھا۔ اس نے میری پریشانی کو محسوس کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول دہرایا جو آپ نے مکہ میں یاسر کے خاندان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر فرمایا تھا: صبراً آل یاسر موعدكم الجنة (آل یاسر صبر کرو کیوں کہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے) یہ حسن اتفاق کی بات ہے کہ خالد کی کنیت بھی ابو یا سر تھی۔
خالد اسلامبولی کی جرات اور بے خوفی بلاشبہ ایک واقعہ ہے۔ مگر آل یاسر کی مثال ان کے اوپر چسپاں نہیں ہوتی۔ کیوں کہ آل یا سر کا معاملہ یک طرفہ تھا اور خالد اسلامبولی کا معاملہ دو طرفہ۔ آل یاسر نے ظلم کو برداشت کیا، اس کے باوجود ان پر سزا ڈھائی گئی۔ جب کہ خالد اسلامبولی کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے ظلم کو برداشت نہیں کیا، اس لیے انہیں سزادی گئی۔
۱۲اکتوبر کو۱۰ بجے ہم قاہرہ کے تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے نکلے۔ ہم سڑک سے گزر رہے تھے اور ہمارے رفیق محمد کمال صاحب ہر چیز کا تعارف کر اتے جارہے تھے۔ ایک جگہ نظر آیا کہ سڑک کے کنارے اونچی فصیلوں سے گھری ہوئی عمارت ہے۔ فصیل کے اوپر جگہ جگہ سپاہی بندوق لیے ہوئے کھڑے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ یہاں کا سنٹرل جیل ہے۔ میرے رفیق نے کہا کہ یہ جیل ہے۔ اخوان کے لوگوں کو اسی کے اندر سخت سزائیں دی گئی تھیں (هذا سجن - عذب فيه الاخوان المسلمون)
سڑک کے دوسری طرف دریائے نیل بہہ رہا تھا۔ میں نے اس کو بہت غور سے دیکھا۔ نیل کےمتعلق مضامین اور کتابوں میں جو کچھ پڑھا تھا، اس سے ذہن میں نیل کے بارے میں ایک عجیب افسانوی تصور تھا۔ مگر نیل ویسا ہی ایک بڑا دریا نظر آیا جیسے دوسرے بڑے دریا ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سن کر یا پڑھ کر آدمی کے ذہن میں کسی چیز کے بارے میں ایسا تاثر قائم ہو جاتا ہے جو واقعے کے مطابق نہیں ہوتا۔ کبھی اصل واقعے سےکم اور کبھی اصل واقعے سے زیادہ۔
سڑک کے دونوں طرف اونچی بلڈنگیں اسی طرح دکھائی دے رہی تھیں جس طرح ماسکو میں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ جمال عبد الناصر کی دین ہے۔ ناصر نے مصر کی ترقی کے لیے سوشلسٹ نمونہ اختیارکیا۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ جن لیڈروں نے سوشلسٹ نمونہ کو اختیار کیا انھوں نے صرف ملک کو برباد کیا۔اس کے برعکس جن لوگوں نے امریکی نمونہ کو اختیارکیا، وہ کم از کم دنیوی اعتبار سے اپنے ملک کو ترقی دینےمیں کامیاب ہو گئے۔
مسجد صلاح الدین کو ہم نے باہر سے دیکھا۔ اس کو دیکھ کر اسلامی تاریخ کی اس مشہور شخصیت کی یاد تازہ ہو گئی جس نے اپنی ذات سے ایک نئی تاریخ بنائی۔ چلتے ہوئے ہم مسجد عمرو بن العاص پہنچے۔ یہ عمرو بن العاص صحابی نے ۲۱ ھ میں تعمیر کرائی تھی۔ ابتدائی مسجد کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد مختلف سلاطین کے زمانے میں اس میں ترمیم اور اضافہ ہوتا رہا۔ تاہم مسجد کی شکل بنیادی طور پر وہی ہے جوابتدا میں تھی۔ کھجور کے تنوں کا قائم مقام آج پتھر کے بنے ہوئے گول ستون ہیں۔ اس مسجد کا طرز عام مساجد سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے اندر چلتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم تاریخ کے درمیان سفر کر رہے ہیں۔ چودہ سو سالہ تاریخ کے دونوں سرے ایک لمحہ کے لیے ملتےہوئے نظر آئے۔ مسجد کے باہر ایک کتبہ لگا ہوا ہے اس کی ابتدائی دو سطریں یہ ہیں:جامع عمرو بن العاص ۲۱ ھ - ۶۴۲ م: أول المساجد التي أنشأت في مصر و أفريقيا و أول جامعة علمية في مصر أسسها عمرو ابن العاص –
ظہر کی نماز ہم نے اسی مسجد میں پڑھی۔ مسجد کے اندرونی حصہ میں وضو خانہ نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ وضوخانہ باہر بنا ہوا ہے۔ ہم عقبی دروازے سے باہر نکلے۔ مسجد سے متصل ایک لمبی اور وسیع پٹی کے دوسری طرف وضو خانہ کی عمارت تھی۔ مسجد اور وضوخانہ کے درمیان خالی زمین جو یقیناً مسجد ہی کی زمین تھی وہ کوڑا خانہ کا منظر پیش کر رہی تھی۔
اس کے بعد ہم المتحف المصری (مصری میوزیم) پہنچے۔ اس کے گیٹ پر پہنچے تو میرے مصری ساتھی نے کہا:لم أدخل هذا المتحف من قبل. أول مرة أدخل. عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ اس طرح کی چیزوں سے مقامی لوگوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ باہر کے لوگ افسانو ی شوق لے کر اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ مگر مقامی لوگ کم ہی اس کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اسی متحف میں اس فرعون کی مومیائی کی ہوئی لاش ہے جو موسی علیہ السلام کا ہم زمانہ تھا۔ اس کو تاریخ میں ریمسس ثانی(Ramses II) کہا جاتا ہے۔
قاہرہ کا جامعۃ الازہر (از ہر یونیورسٹی) جامعہ القرویین کے بعد قدیم ترین مسلم درس گاہ ہے۔ اس کو دولت فاطمیہ نے ۹۷۰ء میں قائم کیا تھا۔ اس میں طلبہ کی تعداد ۳۰ ہزار سے زیادہ ہے۔ اسلام نے دور اول میں علم کا جو طاقتور رجحان پیدا کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد کی تمام صدیوں میں تعلیمی کالج اور مدرسے پوری مسلم دنیا میں اسپین سے لے کر وسط ایشیا اور ہندستان تک قائم ہو گئے۔ اسپین وہ مقام تھا جہاں سے فلسفہ اور سائنس منتقل ہو کر یورپ پہنچے:
Throughout subsequent centuries, colleges and madrasahs arose throughout the Muslim world from Spain (whence philosophy and science were transmitted to the Latin West) across Central Asia to India. (9/922)
علمی ترقی اور تعلیمی توسیع کا یہ سارا کام خلافت راشدہ کے بعد اس وقت ہوا جب کہ مسلم حکمرانوں میں بگاڑ آگیا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق مسلم علماء اور دانشوروں نے یہ عظیم الشان حکمت اختیار کی کہ انھوں نے "اصلاح سیاست" کے نام سے حکمرانوں سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ انھوں نےحکمرانوں سے تعرض نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہمہ تن دینی اور سائنسی علوم کی ترقی میں لگا دیا۔ اس حکمت کی بنا پر انھیں حکمرانوں کا زبر دست تعاون حاصل ہوا۔ حتی کہ اسلام کی عظیم الشان علمی تاریخ وجود میں آگئی۔ اس کے برعکس مسلم علماء اور مسلم دانشور اگر مسلم حکمرانوں سے لڑنا شروع کر دیتے تو وہ "شہداء" کی تعداد میں تو ضرور اضافہ کرتے مگروہ اسلام کے لیے کوئی تاریخ ساز کارنامہ انجام نہیں دے سکتے تھے۔
ایک صاحب نے مجھے ایک کتاب دی۔ یہ جامعۃ الازہر کی طرف سے چھپی ہے۔ اور اس کو وسیع پیمانہ پر تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا نام ہے:واجبات الأمة نحو كاشف الغمة صلى الله عليه وسلم. یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے امت کی ذمہ داریاں۔ میں نے اس کتاب کو دیکھا۔ اس کتاب کے مضامین کا اندازہ اس کی فہرست سے بخوبی طور پر ہوتا ہے۔ یہ فہرست حسب ذیل ہے:
الواجب الاول الإيمان بنبوته والتصديق برسالته صلى الله عليه وسلم
الواجب الثاني طاعته فيما أمربه واجتناب ما نهى عنه صلى الله عليه وسلم
الواجب الثالث إحياء سنته الشريفة وإماتة البدعة
الواجب الرابع محبته وشوق لقائه صلى الله عليه وسلم
الواجب الخامس تعظيم شأنه و توقيره صلى الله عليه وسلم
الواجب السادس الصلاة والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم
الواجب السابع زيارة مسجده الشريف صلى الله عليه وسلم
۹۴ صفحہ کی اس کتاب میں بظا ہر امت محمدی کے تمام واجبات بیان کر دیے گئے ہیں۔مگر اس میں وہی چیز حذف ہے جو امت کے تمام واجبات میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ یعنی شہادتِ حق اور دعوت الی الله۔ سنت کے باب میں مونچھ کاٹنے اور داڑھی بڑھانے تک کی سنت کا ذکر ہے۔ مگر اس میں سنتِ دعوت کا کوئی ذکر نہیں۔
بعد کے دور میں لکھی جانے والی تمام کتابوں کا یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کا تصور ہی امت کے زندہ شعور سے حذف ہو گیا ہے۔ حتی کہ جولوگ بظا ہر دعوت و تبلیغ کا نام لیتے ہیں وہ بھی دوسرے دوسرے کاموں کو دعوت و تبلیغ کا عنوان دیے ہوئے ہیں۔
۱۲ اکتوبر کی صبح کو کئی عرب نوجوان میری قیام گاہ پر آگئے۔ دیر تک ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو کا موضوع "اسلامی دعوت عصر حاضر میں" تھا۔ ایک عرب نوجوان نے خیار کم فی الجاھلية خیارکم فی الإسلام کی تفسیر پوچھی۔ میں نے کہا کہ اس دنیا میں تحویل (conversion) کا قانون رائج ہے۔ ابتدائی لوہا پر عمل کر کے اس کو اسٹیل بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اندر بالفعل وہ صفت پیدا ہو جاتی ہے جس کو قرآن میں بأس شدید کہا گیا ہے۔ مگر یہ بأس شدید لوہے پر عمل کر کے حاصل ہوگی۔ مٹی یا لکڑی پر عمل کر کے آپ اس کو اسٹیل نہیں بنا سکتے۔
یہی معاملہ انسانوں کا ہے۔ جن لوگوں کے اندر قوی شخصیت موجود ہو انھیں کی تربیت کر کے ان کو اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ بڑے بڑے کام کرسکیں۔ ضعیف شخصیت کے لوگوں پر عمل سے یہ فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے عربوں پر عمل کیا تو ان سے ابطال کا ایک گروہ وجود میں آگیا۔ آپ نے مدینہ کے یہود پر عمل کیا مگر ان سے اس قسم کا کوئی گروہ نہ بن سکا۔ اسی طرح دور عباسیہ کے مسلمان شخصی کمزوری کا شکار ہو چکے تھے۔ اس لیے ہر قسم کی تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں کے باوجود وہ اسلام کے قائد نہ بن سکے۔ تاتاری مفسد اور ظالم تھے۔ مگر جب وہ بدلے توا نہیں کے اندر سے وہ قوم ابھری جس نے صدیوں تک اسلام کی پاسبانی کی۔
موجودہ زمانے کے مسلم اہل فکر کی کمزوری یہ ہے کہ وہ قوموں کے صرف "ظلم " کو دیکھ پاتے ہیں ان کو قوموں کے اندر چھپے ہوئے امکانی اوصاف نظر نہیں آتے۔ اس لیے بے شمار کوششوں کے باوجود وہ ایسا نہ کر سکے کہ دوبارہ اسلام کی علمبرداری کرنے کے لیے کوئی طاقت ور گر وہ وجود میں لاسکیں۔
۱۳ اکتوبر کو فجر کی نماز جدید مصر میں مسجد یوسف الصحابی (میدان الحجاز) میں پڑھی۔ نماز کے بعد اکثر نمازی مسجد میں بیٹھ گئے اور قرآن کے نسخے لے کر ہلکی آواز میں پڑھنے لگے۔ مصریوں میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ بڑے ذوق و شوق سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ قومی اعتبار سے غالباً یہ بات سب سے زیادہ مصر کے اندر پائی جاتی ہے۔ غالباً اس لیے کہا گیا ہے کہ نزل القرآن في الحجاز وقرئ في مصر.
مسجد کے اندر جگہ جگہ اس مضمون کی تختی دیوار پر لگی ہوئی تھی____ تنبیه: ضع حذاءك و أمتعتك أمامك (اپنا جوتا اور اپنا سامان اپنے سامنے رکھیے) قاہرہ کی کئی مسجدوں میں میں نے نماز پڑھی۔ یہاں کی مسجدوں کا ایک خاص انداز ہوتا ہے جو دوسرے ملکوں کی مسجدوں سے مختلف ہے۔ تاہم مسجد اور اطراف مسجد میں صفائی کا معیار زیادہ اچھا نظر نہیں آیا۔
ایک عرب نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ڈیڑھ ہزار کیلو میٹر کا سفر طے کر کے صرف مجھ سے ملاقات کے لیے قاہرہ آئے تھے۔ ملاقات ہوئی تو دیر تک لپٹ کر روتے رہے۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے اندر حقیقت کی تلاش کی کیفیت ابھری۔ حتی کہ وہ سوچنے لگے کہ میں خود کشی کر لوں۔ پھر انھوں نے ہمارے یہاں کی عربی اور انگریزی مطبوعات پڑھیں۔ اس کے بعد انھوں نے از سرِ نو اسلام کی حقیقت کو دریافت کیا۔ انھوں نے کہا:عندما أدركت هذه الرسالة عرفت أن هذا هوالأمر الحقيقي الذي كنت أبحث عنه(
یہاں اس طرح کے اور کئی عرب نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الرسالہ مشن کی قبولیت کا مزاج سب سے زیادہ عربوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب کا دین بعد کے اضافوں سے بڑی حد تک پاک ہے۔
مولا نا عبد الباری ندوی (۱۹۷۶ - ۱۸۹۰) قاہرہ کو مقہورہ کہا کرتے تھے۔ یعنی اس کی حیثیت قاہر اور غالب کی نہیں بلکہ وہ مغربی تہذیب سے مغلوب اور مقہور ہو چکا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتے ہوئے اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ یہی حال دوسرے تمام مسلم شہروں کا بھی ہے۔ حتی کہ موجودہ زمانے کے مسلم ادارے بھی اس کیفیت سے مستثنیٰ نہیں۔ ظاہری صورت میں ضرور فرق ہے مگر اندرونی حقیقت کےاعتبار سے ایک اور دوسرے میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔
ایک مصری طالب علم عبد الحمید سعد عویس نے ایک مصری مثل ان لفظوں میں بتائی:کل ما يعجبك والبس ما يعجب الناس (کھانا اپنی پسند کا کھاو اور کپڑا دوسروں کی پسند کا پہنو) اس مثل سے مصری مسلمانوں کا مزاج معلوم ہوتا ہے۔ مصری مسلمان عام طور پر خوش باش ذہن کے ہوتے ہیں۔ ان کی اس صفت کا یہ فائدہ ہے کہ وہ عام طور پر تندرست ہوتے ہیں۔ مگر دوسرا نقصان یہ ہے کہ وہ معاملات پر زیادہ گہرائی کے ساتھ غور نہیں کر پاتے۔ ۱۳
۱۳ اکتوبر کو عشاء کی نماز میں نے یہاں کی مسجد الفرقان (تعمیر ۱۳۹۰ھ) میں پڑھی۔ یہ مسجد کافی صاف ستھری اور نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ مسجد کے اندر ایک نئی چیز یہ نظر آئی کہ اس میں پلاسٹک کے بنے ہوئے خاص اندازکے اسٹول رکھے ہوئے تھے۔ یہ معذورین کے لیے تھے۔ جن لوگوں کو کھڑے ہونے یا بیٹھنے میں زحمت ہوتی ہے۔ وہ اس اسٹول پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
۱۳اکتوبر کوقا ہرہ کے ایک مکان میں عرب نوجوانوں کی مجلس تھی۔ میں نے کہا کہ میں ایک جملہ کہتا ہوں آپ میں سے کوئی صاحب اس کی تشریح کریں۔ پھر میں نے کہا:البقرة هي صناعة الٰھية التي تحول اللاحليب إلى حليب - وكذالك المومن فهو صناعة الٰهية الذي يحول اللاأيمان إلى إیمان۔
جن نوجوانوں نے میرے مضامین ابھی زیادہ نہیں پڑھے تھے وہ اس سوال کو اچھی طرح سمجھ نہ سکے۔ مگر جن نوجوانوں نے میرے مضامین پڑھے ہیں وہ سوال کا مطلب سمجھ گئے اور اس کی کچھ تفسیر بھی بیان کی۔ آخر میں میں نے تفصیلی طور پر اس کی وضاحت کی۔
۱۳ اکتوبر کو ہم نے ظہر کی نماز مسجد بلال بن رباح میں پڑھی۔ یہ کافی چھوٹی مسجد تھی۔ مگر ہم تین آدمیوں کے اضافہ کے باوجود ایک صف بھی پوری نہیں ہوئی۔
راستہ میں ایک چرچ تھا۔ آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ مسیحی لوگ اس کے اندر اپنی عبادت کر رہے ہیں۔ ہم نے چاہا کہ اس کو اندر سے دیکھیں، لیکن گیٹ کے باہر تین مسیحی چوکیدار بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ پولیس کی وردی میں تھے۔ انھوں نے ہم کو داخلہ سے روک دیا۔ میں نے باربار کہا کہ ہمارا مقصد صرف دیکھنا ہے۔ مگر ان لوگوں نے کسی بھی قیمت پر اندر داخل ہونے نہیں دیا۔ میں نے کہا کہ میں کئی ملکوں کے چرچوں کے اندر بلا روک ٹوک داخل ہوا ہوں۔ حتی کہ عین عبادت کے وقت چرچ کے اندر گیا ہوں۔ تاہم انھوں نے مجھ کو اندر جانے نہیں دیا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ان ملکوں میں سب سے اہم مسئلہ سیکوریٹی کا ہوتا ہے۔ ان ملکوں کا سماج سیکوریٹی اور ینٹڈ سماج ہوتا ہے۔ اس بنا پر وہ ہر آدمی کو شبہ کی نظر سےدیکھتے ہیں۔
آتے جاتے ہوئے یہاں کے دو پارک دیکھے۔ یہ دونوں پارک جدید مصر کے تھے۔ مگر دونوں کی حالت معمولی نظر آئی۔ سیاحت کے اعتبار سے اہمیت کے مقامات پر میں نے یہاں صفائی اور دیکھ ریکھ کا اہتمام پایا۔ مگر دوسرے مقامات یا پارک ایسے نظر آئے جیسے انھیں کوئی اہمیت نہ دی جار ہی ہو۔
قاہرہ کی سڑکوں پر عورتیں کثرت سے اسکرٹ پہنے ہوئے نظر آتی ہیں۔ میں نے ایک مصری بزرگ سے پوچھا کہ یہاں اسکرٹ کا رواج کیسے شروع ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ مغربی سیاحوں کا سیلاب ہے۔ چوں کہ مصر میں کثرت سے تاریخی مقامات ہیں۔ اس لیے مغربی ملکوں کے مرد اور عورت بڑی تعداد میں سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ ان کے اثر سے یہ بدعت یہاں شروع ہوئی۔ وہ بظاہر یہاں بطور سیاح آتے ہیں مگر اسی کے ساتھ وہ یہاں اپنی تہذیب بھی پھیلا رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ یہ واقعے کا ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پیاسا گویا کہ خود کنویں کے پاس آرہا ہے۔ انسان بظا ہر خواہ کچھ بھی ہو، اپنی فطرت کے اعتبار سے ہمیشہ وہ حق کا متلاشی ہوتا ہے۔ آپ اس دوسرے پہلو کو دیکھیں اور ان کو اپنا حریف سمجھنے کے بجائے ان کو اپنا مدعو سمجھیں۔ آپ ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کریں جو سچا دین ہونے کی بنا پر ہر ایک کا مطلوب ہے۔ اگر آپ اس دعوتی کام کو منظم انداز سے جدید معیار پر کریں توجو داعی ہے وہ خود آپ کا مدعو بن جائے گا۔ یہ لوگ ان شاء اللہ بڑی تعداد میں اسلام قبول کریں گے۔ یہاں تک کہ نئی تاریخ وجود میں آجائے گی۔
۱۴ اکتوبر کوقاہرہ سے روانگی کا دن تھا۔ فجر کی نماز مسجد الفرقان میں پڑھی۔ وہاں پہنچا تو دروازے کے باہر نوٹس بورڈ پر جلی حرفوں میں لکھا ہو ا تھا:أخى المصلى، ضع متاعك أمامك مسجد اس لیے تھی کہ آدمی اپنا سامان اپنے پیچھے چھوڑ کر بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔ مگر آج نماز ی صرف اس وقت اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے جب کہ اس نے اپنا سا مان اپنے سامنے رکھا ہو۔ اس قسم کے اعلانات بتاتے ہیں کہ قومی کر دار کی حالت قومی عقیدےکے مطابق نہیں۔
امام نے اپنی قرأت میں قرآن کا وہ حصہ پڑھا جس میں یہ آیت ہے:قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يأتوا بمثل هذا القرآن لا يأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظھیرا۔ میں نے سوچا کہ خود یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ کیوں کہ اس قسم کی مطلق تحدی مالکِ کائنات کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا اور نہ کبھی کوئی ایسی تحد ی کر سکا۔
۱۴ اکتوبر کوقاہرہ سے واپسی ہوئی۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ میں قاہرہ ائیر پورٹ پہنچا۔ ائیر پورٹ پر میرے قریب دو مصری مسافر آج کا اخبار الجمهورية پڑھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا تو اس کے صفحۂ اول پر صدرِ مصر کی کافی بڑی اور رنگین تصویر چھپی ہوئی تھی۔ یہ مسلم ملکوں کا عام مزاج ہے۔ امریکہ اور یورپ کے اخباروں میں آپ کو اس قسم کا منظر دکھائی نہیں دے گا۔
۱۴ اکتوبر کو میں قاہرہ ائیر پورٹ پر ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک مسافر آئے انھوں نے پیچھے سے مجھے پکڑا اور گھما کر میرا رخ صحیح سمت میں کر دیا۔ میں نے سوچا کہ اسلام میں ایک مقرر" سمتِ قبلہ" ہے جو ہر ایک کو معلوم ہے۔گویا اسلام میں ہر ایک کے پاس ایک معلوم کسوٹی ہے۔ ہر ایک کے لیے ممکن ہے کہ دوسرے شخص کو اس کسوٹی پر جانچے اور جس شخص میں انحراف پائے اس کو سیدھے رخ پر کھڑا کر دے۔ ایسی حالت میں نہ کسی شخص کو رخ کی تصحیح میں بخل کرنا چاہیے اور نہ کسی کو اس پر برا ماننا چاہیے کہ اس نے اس کو اسلام کی کسوٹی پر جانچا اور اس کے رخ کو صحیح سمت میں پھیرنے کی کوشش کی۔
گلف ایئر کی فلائٹ نمبر۷۴کے ذریعے قاہرہ سے واپس روانگی ہوئی۔ جہاز کے اندر گلف ایئر کا فلائٹ میگزین گولڈن فالکن (Golden falcon) کا شمارہ اکتوبر ۱۹۹۱ دیکھا۔ اس کے ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ انگریزی زبان میں عربی کے سیکڑوں الفاظ ہیں جو پچھلے ایک ہزار سال کے دوران اس میں شامل ہوئے ہیں۔ اس سلسلےمیں کچھ الفاظ درج تھے۔ مگر ان میں سے بہت کم الفاظ براه راست عربی سے انگریزی میں داخل ہوئے ہیں۔ زیادہ تر فرانس اور اٹلی وغیرہ کے راستہ سے انگریزی میں پہنچے ہیں۔ اس سے اس علاقہ میں عرب- اسلامی تہذیب کی فوقیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس کو سائنسی میدان میں حاصل تھی:
The preponderance of technical or scientific words entering English from Arabic during the Middle Ages suggests the general superiority of Arab-Islamic civilization in the area of scientific achievement during this period. (p. 24)
عجیب بات ہے کہ عربی زبان کی برتری کا تذکرہ کرنے والے ماہنامہ کا نام انگریزی "گولڈن فالکن "رکھا گیا ہے۔
طیران الخلیج (گلف ایئر) کے فلائٹ میگزین (Golden falcon) کا شمارہ اکتوبرمکمل دیکھا۔ اس کےمذکورہ مضمون میں بتایا گیا تھا کہ انگریزی کے بہت سے الفاظ عربی زبان سے لیے گئے ہیں۔ مثلا صفر (cipher) اور لیمون (lemon) وغیرہ۔ مضمون نگار نے اس سلسلےمیں تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ قرون وسطی میں ۵۰۰ سال تک عربی علم اور عربی کلچر اور فکری ترقی کی زبانی بنی رہی:
for 500 years Arabic was the language of learning, culture and intellectual progress.
یہ الفاظ پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ جب ماضی ایسا تھا تو موجودہ زمانے کے مسلمان اس سے مختلف کیوں ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ موجودہ مسلمان قدیم مسلمانوں کا تسلسل نہیں ہیں، وہ قدیم مسلمانوں کی اگلی نسلیں ہیں۔ قدیم مسلمانوں کے اندر مذکورہ انقلابی صفت اس لیے آئی تھی کہ ان کا ایمان ان کے لیے ذہنی انقلاب کے ہم معنی تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو اگر اٹھانا ہے تو ان کے ایمان کو دوبارہ ذہنی انقلاب بنانا پڑے گا۔ اس ابتدائی عمل کے بغیر محض جذباتی الفاظ بولنےسے موجودہ مسلمانوں میں ماضی والے مسلمانوں کی صفت آنے والی نہیں۔
درمیان میں ہمارا جہاز تقریباً ایک گھنٹہ کے لیے دوحہ میں رکا۔ یہ قطر کی راجدھانی ہے۔ ۱۹۶۷ تک اس کی حیثیت ایک معمولی بستی کی تھی۔ ۱۹ ویں صدی کے آخر میں عثمانیوں نے یہاں اپنا قبضہ قائم کیا۔ ۱۹۱۶ء سے ۱۹۷۱ تک وہ برطانیہ کے دائرہ ٔاثر میں رہا۔
۲۰ ویں صدی کے آغاز میں دوحہ کے ساحل پر ۳۵۰ سمندر سے موتی نکالنے والی کشتیاں (pearling boats) تھیں۔ اس وقت تک موتی نکالنا یہاں کا خاص کاروبار تھا۔ مگر اس کے بعد جاپان کے مصنوعی موتی (cultured pearls)، بازار میں آگئے۔ بظاہر اصلی موتی ہونے کے باوجود وہ بہت سستے تھے۔ چناں چہ اس کے بعد دوحہ کی موتیوں کی تجارت ختم ہو گئی۔
مگر دوسری عالمی جنگ کے بعد یہاں پٹرول نکالنے کے کارخانے قائم ہو گئے۔ اور اب قطر ایک انتہائی دولت مند ملک سمجھا جاتا ہے۔ اب یہاں قدیم مٹی کے گھروں کے بجائے جدید طرز کے عالیشان مکانات کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اپنی دنیا میں ترقی کے بے پناہ امکانات رکھے ہیں۔ یہاں ایک امکان کے ختم ہوتے ہی دوسرا اس سے بڑا امکان سامنے آجاتا ہے۔ فطرت کا یہ قانون زمین کے مادی خزانوں کے لیے بھی ہے اور انسانی زندگی کے لیے بھی۔
عرب امارات (United Arab Emirates) کی فیڈریشن ۱۹۷۱ میں بنی۔ اس میں سات چھوٹی ریاستیں شامل ہیں۔ ان کی مجموعی آبادی دو ملین سے بھی کم ہے۔ ابو ظبی اس فیڈریشن کا صدر مقام ہے۔ شیخ زائد کی رہنمائی میں فیڈریشن نے "ایجوکیشن اورینٹڈبجٹ" بنایا ہے۔ وہ اپنی آمدنی کا ۱۴ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔
یہ بلاشبہ ایک دانشمندانہ طریقہ ہے۔ موجودہ دور معلومات کا دور (information age) ہے۔ معلومات تک رسائی صرف اہل علم کو ہوسکتی ہے۔ اس لیے قوم کو حصول علم میں آگے بڑھانا دور جدید میں ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینے کا یہ نتیجہ ہے کہ عرب امارات اور ابو ظبی میں اعلٰی تعلیم یافتہ عرب نوجوانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دہلی کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمس (۱۷ دسمبر ۱۹۹۱) میں عرب امارات کے حالات پر ایک جائزہ چھپا ہے۔ جائزہ نگار نے ابوظبی کے ایک بڑے تاجر سلطان بن سلیمان (۳۶ سال)سے ملاقات کی۔ اس نے لکھا ہے کہ سلطان بن سلیمان انگریزی بھی اتنی ہی اچھی بولتے ہیں جتنا کہ عربی:
He is as articulate in English as he is in Arabic.
عرب امارات کے اکثر شعبوں میں ابھی تک برٹش لوگ کثرت سے موجود ہیں۔ میں نے ایک شیخ سے پوچھا کہ برٹش افراد اس طرح کب تک یہاں رہیں گے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اس معاملہ میں ہم نے تدریج کا طریقہ اختیار کیا ہے ہم اپنے نوجوانوں کو بڑے پیمانہ پر جدید تعلیم دلا رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس صدی کے آخر تک ہمارے نوجوان تربیت پاکر ان شعبوں کو سنبھال لیں گےجن کو آج زیادہ تر انگریز سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے معاملے میں یہی طریقہ درست ہے۔ جو لوگ انقلابی جوش میں دفعۃ ًتمام بیرونی افراد کو خارج کر دیتے ہیں وہ ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ کارکردگی کا معیار تباہ ہو کررہ جائے۔
ایک مسافر نے مجھے بتایا کہ ایک بار وہ ابوظبی ائیر پورٹ پر تھا۔ ایک عرب لڑکی آکر پاس کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ مسافر نے اس سے عربی میں ایک سوال کیا۔ لڑکی نے روانی کے ساتھ انگریزی میں جواب دیا۔ مسافر نے کہا کہ تم انگریزی جانتی ہو۔ اس نے فوراًجواب دیا کہ بے شک (of course)
گلف ایئر کی سروس اچھی تھی۔ تاہم دوحہ اور ابوظبی دونوں جگہ اس کی لینڈنگ ایسی تھی جس کو رف لینڈنگ ہی کہا جائے گا۔ سفر کے دوران ہموار پرواز کا انحصار موسم پر ہوتا ہے۔ اور لینڈنگ کے وقت ہموار لینڈ نگ کا انحصار پائلٹ پر۔
دوحہ (قطر) سے نکلنے والے عربی اخبار العرب کا شمارہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۱ دیکھا۔ اس کی ایک خبر کا عنوان تھا: ۲۷۰۰ لغة في العالم (دنیا میں ۲۷۰۰ زبانیں ہیں) اس میں ترکی کے ذرائع سے بتایا گیا تھا کہ ساری دنیا میں مروجہ زبانوں کی مجموعی تعداد ۲۷۰۰ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی زبانیں یہ ہیں ____چینی، انگریزی، اسپینی، ہندی، ترکی۔
اس خبر کو پڑھ کر میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور پھر اس کی مناسبت سے نظیر اکبر آبادی کا یہ شعر یاد آگیا:
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
خبر کو پڑھ کر میرے ذہن میں کیا خیال آیا تھا، اس کو میں ناظرین کے اوپر چھوڑتا ہوں۔ جولوگ میری تحریریں برابر پڑھتے رہے ہیں ان کے لیے اس کو قیاس کرنا مشکل نہیں۔
دوحہ کا دوسرا عربی اخبار الشرق (۱۴ اکتوبر) بھی دیکھا۔ اس کے صفحہ اول کی ایک خبر یہ تھی کہ شاہ حسین آرام کرنے کی خاطر اردن کے تخت کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں (حسین يفكر في التخلى عن عرش الاردن)
خبر میں بتایا گیا تھا کہ اردن اس وقت سخت ترین اقتصادی اور اجتماعی مشکلات سے دو چار ہے۔ ان ذمہ داریوں کو سنبھالنا شاہ حسین کے لیے سخت دشوار ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کی حکومت پر باقی رہنے کے سوال نے ان کو ناقابل برداشت مصیبت میں ڈال دیا(إن مسئلة الاستمرارفي الحكم قد أرهقته)
شاعر نے کہا ہے کہ: جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے۔ جو شخص جتنے بڑے مرتبہ پر ہو اتنا ہی زیادہ وہ مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ اصول شاہ اردن کے لیے جتنا درست ہے اتنا ہی وہ شاہ امریکہ کے لیے بھی درست ہے۔ اس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔
جہاز میں ایک نئی بات یہ تھی کہ عربی اور انگریزی کے ساتھ ہندی زبان میں بھی اعلانات کیے جارہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس جہاز میں کافی ہندستانی مسافر ہوتے ہیں۔
اس کا محرک تجارت تھا۔ تجارتی مفاد کی بنا پر جہاز کے ذمہ داروں نے اپنے اعلانات کی زبان میں ہندی کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تجارتی محرک لوگوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے گاہک کی زبان میں بولیں۔ حق کے حاملین کے لیے دعوت کا محرک اتنا طاقت ور نہ بن سکا کہ وہ مدعو کی زبان میں بولنے کا اہتمام کریں۔
جہاز میں انگریزی روز نامہ (Emirates News)کا شمارہ ۱۴ اکتو بر دیکھا۔ اس کے صفحہ آخر پر کویت کے شاہی خاندان کی ایک خاتون (سعد عبد الله السالم الصباح کی اہلیہ) کا انٹرویو تھا۔ انھوں نے کہا کہ کویت پر عراق کے حملے نے اختلافات ختم کر دیے۔ ہمارے عوام کو با ہم قریب کر دیا۔ اس قسم کی قربت صرف اقتصادی خوش حالی سے پہلے تھی جب کہ لوگ کچے گھروں میں رہتے تھے:
The invasion brought our people close together. Such a closeness existed only before the economic boom when people lived in mud houses. (p. 12)
اس کو میں نے پڑھا تو میری زبان پر یہ الفاظ آگئے____ مصیبت کے وقت تو حیوانات بھی اپنا اختلاف ختم کر دیتے ہیں۔ انسان کی صفت یہ ہے کہ وہ خوش حالی اور اقتدار کے وقت اپنے اختلافات کو ختم کر دے۔
دبئی کا انگریزی روزنامہ گلف نیوز (۱۴ اکتوبر) دیکھا۔ اس میں مختلف ملکوں کی خبر کے لیے صفحات مقرر تھے۔ مثلا ً عرب امارات، مڈل ایسٹ، یونائٹڈ کنگڈم، ایسٹ ایشیا، یو ایس اے۔ امریکہ کے صفحہ پر ایک تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ عورتوں اور مردوں کی بھیڑ اپنے ہاتھ میں بڑے بڑے لفافے لیے ہوئے ہے اور ان کو ایک خاص ڈاک خانہ میں جلد از جلد پوسٹ کر دینے کی منتظر ہے۔ تصویر کےنیچے لکھا ہوا تھا:
Crowds of people wait in line to mail applications for a lottery of 40,000 Green Cards at the Merrifield post office in suburban Virginia. The State Department is accepting the first 40,000 applications that arrive at its special post office box after 12 a.m. today in the first of three annual massive giveaways of Green Cards on a first come first serve basis- Reuter.
اس کو پڑھتے ہوئے دل تڑپ اٹھا۔ میں نے کہا کہ امریکہ کے گرین کارڈ کو حاصل کرنے کے لیے لوگ ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔ مگر جنت کے گرین کارڈ کی کھڑ کی خالی پڑی ہوئی ہے۔ وہاں کوئی لائن میں کھڑا ہونے والا نہیں۔
اس کے بعد ہمارا جہاز کچھ دیر کے لیے ابو ظبی میں اترا۔ تمام مسافر ہوائی جہاز سے نکل کر ایر پورٹ پر آگئے۔ تقریباً ایک گھنٹہ ابوظبی میں گزرا۔ ابوظبی ایئر پورٹ کی پوری چھت خیمے کے انداز پر بنائی گئی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ اسلام آباد (پاکستان) کی فیصل مسجد کی چھت بنائی گئی ہے۔ تاہم یہ طرز ِتعمیر مجھے ذاتی طور پر پسند نہیں۔ میں اس کو سطحی ذوق کی علامت سمجھتا ہوں۔
ابوظبی، عرب امارات کی سات ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کا رقبہ ۲۶ ہزار مربع میل ہے۔ وہ اور دبئی عرب امارات کی سب سے زیادہ دولت مند ریاستیں سمجھی جاتی ہیں۔
ڈھائی سو سال پہلے ابوظبی کی حیثیت زیادہ تر غیر آبا د صحرا کی تھی۔ ۱۷۶۱ء میں قبیلہ بنی یاس کو یہاں پانی کا کنواں ملا۔ اس کے بعد وہ یہاں رہ پڑا۔ اسی قبیلہ کا ایک خاندان اب تک یہاں حکمراں ہے۔ ۱۹۵۸ میں یہاں پٹرول دریافت ہوا۔ اس کے بعد سے ابوظبی نے عالمی اہمیت حاصل کرلی۔ پانی کی دریافت نے ابو ظبی کو صرف قبائلی اہمیت دی تھی۔ تیل کی دریافت نے اس کو عالمی سطح پر اہمیت کا حامل بنا دیا۔
پانی ایک سادہ انسانی ضرورت ہے۔ ایک معمولی دیہاتی آدمی بھی پانی کو دیکھے تو وہ اس کی اہمیت اور اس کے استعمال کو جان لے گا۔ مگر پیڑول کی اہمیت اور اس کے استعمال کو جاننے کے لیے صرف اس کو دیکھنا کافی نہیں۔ اس کے لیے مزید ایک پوری صنعتی تہذیب کی ضرورت ہے۔ یہی فرق ہے جس کی بنا پر پانی دریافت ہوا تو اس کا پورافائدہ عرب قبیلے کو ملا۔ مگر جب تیل دریافت ہوا تواس کا بیشتر فائدہ مغربی قوموں کے حصہ میں چلا گیا۔
۱۴اکتوبر کو ابوظبی سے دہلی کے لیے روانگی ہوئی۔ یہ سفر خلیج ایئر کے جہاز کے ذریعےطے ہوا۔ راستے میں شارقہ کا عربی روز نامہ الخلیج (۱۴ اکتوبر ۱۹۹۱) دیکھا۔ اس کے صفحہ ۶ پر ایک مضمون (النظام العربي و آفاق المستقبل) تھا۔ اس میں الأمة العربية کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ باتیں کہی گئی تھیں۔
اس ذیل میں مضمون نگار(علی ربیعہ) نے لکھا تھا کہ صحرا کے قافلے جس قاعدےکا اتباع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اپنے اندر کے سب سے کمزور کی چال چلو (سیروا سیر أضعفكم)میں نے اس کو پڑھا تو میرے دل نے کہا کہ یہ اصول صرف صحرائی سفر کے لیے نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام سفروں کے لیے ہے۔
مثلاً آپ کو شہر کی سڑک پر ایک جلوس نکالنا ہے۔ آپ کی جماعت میں ۹۵ فیصد ایسے لوگ ہیں جن کے اندر بر داشت کی طاقت ہے۔ مگر ۵ فیصد افراد میں برداشت کی طاقت نہیں۔ ایسی حالت میں آپ کو ۵ فیصد کا لحاظ کرتے ہوئے جلوس نہیں نکالنا چاہیے۔ کیوں کہ جلوس کے پانچ فیصد افراد بے برداشت ہو کر تشد دکر بیٹھیں گے اور پھر آپ کا جلوس ملت کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ملت کی تباہی کا سبب بن جائے گا۔
دہلی ائیر پورٹ میں داخل ہوا تو "ڈیوٹی فری شاپ " کا ایک حصہ نظر سے گز را۔شیشے کی الماری کے پیچھے شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک طرف شیشے کے اوپر خوبصورت اشتہار درج تھا۔ اوپر شراب کی دو خوبصورت بوتلوں کی تصویر یں تھیں۔ اس کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے کہ فرسٹ کلاس سفر کا ساتھی:
First class travel companions
جن لوگوں کو" فرسٹ کلاس" کا رتبہ مل جاتا ہے، اس کے بعد ان کے لیے ساری اہمیت صرف تفریح کی رہ جاتی ہے۔ وہ شراب کو تفریح کا ذریعہ سمجھ کر اس کو اپنی زندگی کا ساتھی بنالیتے ہیں۔ یہ زندگی کا کتنا کمتر استعمال ہے۔ زندگی کا سب سے بڑا استعمال یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حقائقِ اعلی کی دریافت میں لگائے۔ مگر یہی سب سے اہم چیز دنیا میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔
ہمارے پاس کتابوں کے کئی بنڈل تھے جو قاہرہ سے ہمارے ساتھ آرہے تھے۔ کتابوں پر کسٹم وغیرہ نہیں ہوتا۔ میں نے سوچا کہ کسٹم کا عملہ ہم کو روک کر بنڈل کھلوائے گا اور پھر غیر ضروری طور پر تاخیر ہوگی۔ مگر عین اس وقت محمد حنیف صاحب اتفاقاً وہاں آگئے جو ایئر پورٹ پر بڑے افسر ہیں۔ ان کی ہدایت پر کسٹم والے نے ہم کو روکنے کے بجائے ہماری گاڑی خود لے لی اور اس کو ٹیکسی تک پہنچایا۔ میں نے سوچا کہ کاش اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھی ایسا ہی معاملہ فرمائے اور میرے معاملے کو اپنی رحمت سے آسان کر دے۔
دہلی ائیر پورٹ سے ہم" پری پیڈ" ٹیکسی کے ذریعے روانہ ہوئے۔ اس کا انتظام پولیس کی طرف سے کیا گیا ہے۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ اس سفر کے لیے ہم نے آپ کے آفس کو ڈیڑھ سوروپے ادا کیے ہیں۔ اس میں کتنا آپ کا ہے اور کتنا دفتر کا۔ڈرائیور نے کہا کہ دفترفی ٹیکسی دو روپیہ لیتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو زیادہ رقم نہیں۔ ڈرائیور نے کہا کہ ایئرپورٹ کے لیے یہاں چار سو ٹیکسیاں ہیں اور ہر ایک ٹیکسی سے دو دو روپیہ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا حصہ ہم سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ چار سو ٹیکسیاں ہیں تو روزانہ ان کو ۸۰۰ روپیہ ملیں گے۔ ڈرائیور نے کہا کہ نہیں۔ ہر ٹیکسی ایک دن میں اوسطاً تین چکر ایئر پورٹ کا کرتی ہے۔ اس طرح ان کو ہر روز کم از کم ڈھائی ہزار روپے مل جاتے ہیں۔
یہ انفرادی عمل اور اجتماعی عمل کے فرق کی ایک مثال ہے۔ فرد کا حصہ ایک بار کے سفر پر ڈیڑھ سو روپیہ ہے۔ اور اجتماعی نظم کا حصہ صرف دور وپیہ۔ مگر مجموعی نتیجہ کے اعتبار سے فرد کے حصے میں صرف ساڑھے چار سو روپیہ آیا،اور اجتماعی نظم کو ڈھائی ہزار روپیہ مل گیا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اجتماعیت میں برکت ہے۔
۱۵ اکتوبر ۱۹۹۱ کی صبح کو میں اس وقت دہلی واپس پہنچا جب کہ یہاں کی مسجدوں سے فجر کی اذان کی آواز بلند ہو رہی تھی اور پوری فضا اس سے ہم آہنگ ہو کر بزبانِ خاموش یہ کہہ رہی تھی کہ رات ختم ہوگئی۔ بہت جلد افق سے نئے دن کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔