نفسیاتی قلعہ
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وَآمُرُكُمْ أَنْ تَذْكُرُوا اللَّهَ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ العَدُوُّ فِي أَثَرِهِ سِرَاعًا حَتَّى إِذَا أَتَى عَلَى حِصْنٍ حَصِينٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَهُ مِنْهُمْ، كَذَلِكَ العَبْدُ لَا يُحْرِزُ نَفْسَهُ مِنَ الشَّيْطَانِ إِلَّا بِذِكْرِ اللَّهِ " (ترمذی: 2863)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں تم کو زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے کی تلقین کرتا ہوں اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی کا اس کے دشمن نے تیزی سے پیچھا کیا۔ یہاں تک کہ وہ بھاگ کر ایک مضبوط قلعے میں داخل ہو گیا۔ اس طرح اس نے قلعہ بند ہو کر اپنے آپ کو بچالیا۔ یہی معاملہ بندے کا ہے۔ وہ صرف اللہ کی یاد ہی کے ذریعے شیطان سے بچ سکتا ہے۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کو سب سے زیادہ گمراہ کرنے والا اس کا دشمن شیطان ہے۔ اس سب سے بڑے دشمن سے بچنے کی تدبیر صرف یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتا رہے۔
ذکر سے مراد کچھ مقرر کلمات کا ورد نہیں ہے۔ اس قسم کی لسانی ورزش کا مذکورہ ذکر سے کوئی تعلق نہیں۔ معروف قسم کا ورد یا تکرارِ الفاظ کسی بھی درجے میں آدمی کو شیطان کے بہکاوے سے بچانے والے نہیں اور نہ وہ کسی کے لیے شیطانی حملوں کے مقابلہ میں حفاظت کا قلعہ بن سکتا ہے۔
ذکر سے مراد در اصل یا د ہے۔ یعنی اللہ کے تصور کا آدمی کے ذہن پر اتنا غلبہ ہو جانا کہ وہی اس کی مستقل سوچ بن جائے۔ آدمی کو ہر وقت خدا کے کمالات اور اس کی عظمتوں کا احساس ہوتا رہے۔ دنیا کے ہر منظر میں اس کو خدا کی جھلک دکھائی دے۔ کائنات کی ہر آواز میں اس کو خدا کا نغمہ سنائی دے۔ وہ ہر واقعہ اور ہر تجربہ سے اپنے لیے ربانی سبق لیتار ہے۔
آدمی جب اس طرح خدا کو یاد کرنے لگتا ہے تو اس کا ذہن خدائی حقیقتوں کے بارے میں جاگ اٹھتا ہے۔ اس کے اندر صحیح اور غلط کا شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر ایک قسم کا ذہنی روک یا نفسیاتی قلعہ بن جاتا ہے جس کے اندر وہ شیطان سے محفوظ ہو کر رہ سکے۔ جو آدمی اس طرح اللہ کی یاد میں جینے لگے اس پرقابو پانا شیطان کے لیے ممکن نہیں۔