اسلوب کلام
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِقَوْمٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ أُحْرِقَ عَلَى رِجَالٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنِ الْجُمُعَةِ بُيُوتهم» . (مشکاۃ: 1378)
عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی بابت فرمایا جو جمعہ کی نماز میں نہیں آتے کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں کسی شخص سے کہوں کہ وہ نماز پڑھائے اور پھر میں جاکر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو جمعہ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں نہ آئیں ان کے گھروں میں آگ لگا کر ان کو ان کے گھر کے سمیت جلا دینا چاہیے۔ مگر ایسے لوگوں کے ساتھ اس قسم کی کاروائی نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور نہ آپ کے بعد اسلام کی لمبی تاریخ میں کبھی ایسا کیا گیا اور نہ علماء نے کبھی یہ فتویٰ دیا کہ تارک جمعہ کے گھر میں آگ لگا کر اس کو جلا دو۔
اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے الفاظ کبھی ظاہری مفہوم کے اعتبار سے بولے نہیں جاتے بلکہ وہ شدت احساس کو بتانے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ ان الفاظ کو ان کے حقیقی مفہوم کے اعتبار سے لینا چاہیے نہ کہ محض ظاہری الفاظ کے اعتبار سے۔
ہر کام اصلاً کسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ہر کلام کا ایک اسلوب ہوتا ہے اور یہ اسلوب متکلم کے احساس کا مظہر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کسی بات سے شدید طور پر متاثر ہو تو اس کے احساس کی جھلک اس کے بولے ہوئے الفاظ میں بھی آجائے گی۔ اس نکتہ کو ملحوظ رکھے بغیر کسی کلام کی اصل نوعیت کو سمجھا نہیں جاسکتا۔
سننے والا اگر سنجیدہ ہو تو متکلم کی بات کو سمجھنے میں اسے کوئی زحمت پیش نہیں آئے گی۔ مگر جو لوگ سنجیدہ اور محتاط نہ ہوں وہ ہر کلام کا الٹا مطلب نکال سکتے ہیں، خواہ وہ اللہ اور رسول کا کلام کیوں نہ ہو۔