اللہ کا بندہ
صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب میں باب فضل الضعفاء والخاملین (کمزور اور گمنام آدمیوں کا باب) کے تحت حسب ذیل روایت نقل کی گئی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: « رُبَّ أَشْعَثَ، مَدْفُوعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَأَبَرَّهُ .» (صحیح مسلم: 2622)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بہت سے پریشان بال، گرد آلود، دروازوں سے دھکیلے ہوئے لوگ ہیں، اگروہ اللہ کے اوپر قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا کرے گا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ ایک شخص اللہ کا مقبول بندہ ہوتے ہوئے انسانوں کے نزدیک نا مقبول کیوں بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا شخص عوام سے مصالحت نہیں کرتا۔ وہ عوامی ذوق کی باتیں نہیں کرتا۔ وہ عام انسانوں کی پسند اور ناپسند کو معیار بنا کر دنیا میں نہیں رہتا۔ وہ اللہ کی طرف دیکھتا ہے نہ کہ عوام کی طرف۔
ایسے انسان کا انجام ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ وہ عوامی مجالس سے دور رہتا ہے، اس لیے وہ عوام کے درمیان اجنبی بن جاتا ہے۔ وہ بے آمیز حق کی بات کرتا ہے، اس لیے وہ ان لوگوں کے یہاں مقام نہیں پاتا جو ملاوٹی حق کو اختیار کیے ہوئے ہوں۔ وہ بھیڑ کی خواہشوں کا ساتھ نہیں دیتا، اس لیے بھیڑ بھی اس کو اپنے اسٹیج پر نمایاں کرنے پر راضی نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی اپنے رب سے جڑا ہوا ہوتا ہے، مگر عین اسی وقت وہ عوامی بھیڑ سے کٹ جاتا ہے۔
سب سے بڑی قربانی اپنی غیر مقبولیت پر راضی ہونا ہے، اور مذکورہ آدمی یہی قربانی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے یہاں اس کا درجہ اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ اللہ کے اعتماد پر اگر وہ قسم کھالے اور یہ کہہ دے کہ اللہ ضرور ایسا کرے گا تو اللہ کو غیرت آتی ہے کہ وہ اپنے اس بندے کی اس قسم کو پورا نہ کرے۔
جو آدمی اللہ کی خاطر اس طرح لوگوں کے درمیان غیر مقبول ہو جائے، وہ اللہ کا مقبول بندہ بن جاتا ہے۔ اللہ کو اس سے غیرت آتی ہے کہ وہ ایسے بندے کی دعا کو پورا نہ کرے۔