صحابی کا عمل
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔یہاں ہم بخاری اور ترمذی کے الفاظ نقل کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: «لَقَدْ نَفَعَنِي اللهُ بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَيَّامَ الْجَمَلِ، بَعْدَمَا كِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَهُمْ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّكُوا عَلَيْهِمْ بِنْتَ كِسْرَى، قَالَ: لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً.» (صحيح بخاري: 4425)
عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: «عَصَمَنِي اللهُ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا هَلَكَ كِسْرَى،» قَالَ: مَنِ اسْتَخْلَفُوا؟ قَالُوا: ابْنَتَهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ يَعْنِي الْبَصْرَةَ، ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَصَمَنِي اللهُ بِهِ -(الترمذي: 2262)
حضرت ابو بکرہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک قول کے ذریعے مجھ کو جنگ جمل کے زمانے میں فائدہ پہونچایا۔ قریب تھاکہ میں اصحاب جمل سے مل جاؤں اور ان کے ساتھ جنگ کروں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ اہل فارس نے اپنے اوپر کسری کی لڑکی کو حاکم بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی جو عورت کو اپنے معاملہ کا حاکم بنائے۔ ترمذی کی روایت کے مطابق انھوں نے کہا کہ اللہ نے مجھے ایک چیز کے ذریعے بچا لیا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ جب کسریٰ کی موت ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ انھوں نے کس کو اس کا جانشین بنایا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کی لڑکی کو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی جو عورت کو اپنے معاملہ کا حاکم بنائے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب عائشہ بصرہ آئیں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو یاد کیا تو اللہ نے اس کے ذریعے سے مجھ کو بچالیا۔
حضرت عائشہ کی حیثیت ام المومنین کی تھی۔ اس کے باوجود جب عائشہ کی بات اور رسول کی بات میں ٹکراؤ ہوا تو صحابی نے عائشہ کو چھوڑ کر رسول کی بات کو پکڑ لیا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ہرحال میں اپنے "اکابر" کا ساتھ دیتے ہیں، خواہ ان کے اکابر کی روش قرآن وسنت کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہو۔