تاریخ کا سبق
المامون (۲۱۸ - ۱۷۰ ھ، ۸۳۳ - ۷۸۶ ء)ساتواں عباسی خلیفہ ہے۔ وہ اپنے والد ہارون الرشید کی وفات کے بعد محرم ۱۹۸ھ میں بغداد کے تخت خلافت پر بیٹھا۔ وہ علم اور عمل دونوں اعتبار سے ممتاز صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اس کا زمانہ اگر چہ جنگوں اور شورشوں کا زمانہ ہے۔ اس کے باوجود اس کے زمانے میں علم وفن کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی۔ المامون ہی نے بغداد کے مشہور بیت الحکمت کو قائم کیا تھا۔ بیت الحکمت (۸۳۰ء) ایک عظیم علمی ادارہ تھا جو کتب خانہ،تحقیقی اکیڈمی اور دار الترجمہ وغیرہ کا مجموعہ تھا (ہسٹری آف دی عربس ۳۱۰)
مامون کی زندگی کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنے بعد ولی عہد مقرر کرنے کے لیے رشتہ کا لحاظ نہ کرتے ہوئے صحیح آدمی کی تلاش کی۔ ۲۰۰ ھ میں اس نے آل عباس کے قابل ذکر افراد کو مرو میں جمع کیا۔ کئی مہینے تک ان کی تواضع کی۔ وہ ان میں سے کسی لائق شخص کو اپنے بعد ولی عہد مقررکرنا چاہتا تھا مگر کوئی عباسی اس کو اپنے معیار کے مطابق نظر نہ آیا۔
آخر کار اپنے وزیر الفضل کے مشورہ (الکامل فی التاریخ ۱۹۷/۶) پر اس نے بنو ہاشم کی علوی شاخ سے مناسب آدمی لینے کا فیصلہ کیا۔ تلاش اور غور و فکر کے بعد اس نے اس منصب کے لیےعلی بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد بن الحسین بن علی بن ابی طالب کا انتخاب کیا۔
مامون نے ان کو الرضی کا خطاب دیا اور اپنے انتخاب کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ان سے اپنی لڑکی ام حبیب کا نکاح کر دیا۔ ہارون الرشید کی وصیت کے مطابق، مامون کے بعد اس کا بھائی مؤتمن ولی عہد تھا، مگر مامون نے مؤتمن کو معزول کر دیا۔ اور علی الرضی کو اپنے بعد ولی عہد مقرر کیا۔ابن کثیر لکھتے ہیں:
وذلك أن المامون رأى أن عليا الرضی خیر أهل البيت وليس في بني العباس مثله فی عمله ودينه فجعله ولى عهده من بعده (البدایہ و النهایہ ۲۴۷/۱۰)
اور ایسا اس لیے ہوا کہ مامون نے دیکھا کہ علی الرضی اہل بیت میں سب سے بہتر ہیں۔ اور بنو عباس کے اندر عملی اور دینی اعتبار سے ان کے جیسا کوئی نہیں۔ پس مامون نے اپنے بعد ان کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔
ابن اثیر نے یہی بات ان لفظوں میں لکھی ہے کہ: أنه نظرفی بني العباس و بنى علي فلم يجد أحداً أفضل ولا أورع ولا أعلم منه (الكامل في التاريخ ۳۲۶/۶)
یہ المامون کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ اس نے خلافت کے منصب کے لیے بنو عباس کا کوئی فرد نامزد کرنے کے بجائے علوی شاخ کا ایک فرد منتخب کیا۔ کیوں کہ اس کو نظر آیا کہ عباسی خاندان کے مقابلے میں علوی خاندان کے اندر زیادہ اہل افراد موجود ہیں۔ مگر المامون کے اہل خاندان (بنو عباس) اس پر راضی نہ ہوئے۔ انھوں نے مختلف قسم کی سازشیں شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق، انگور میں زہر ملاکر علی الرضی کو کھلا دیا۔ جس سے صفر ۲۰۳ ھ میں ان کی موت واقع ہو گئی۔
فرانسیسی مستشرق پروفیسر ڈامینیک سور ڈیل (Dominique Sourdel) نے لکھا ہے کہ المامون کے وقت مسلم دنیا شیعہ گروہ اور سنی گروہ میں بٹ گئی تھی۔ ایک طرف پیغمبر اسلام کے چچا عباس کے اہل خاندان تھے اور دوسری طرف پیغمبر کے داماد علی سے وابستہ حضرات، پوری عباسی سلطنت کا خلیفہ بننے کے بعد المامون نے طے کیا کہ وہ مسلم امت کی اس تقسیم کو ختم کرے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ایک ایسا فیصلہ کیا جو اس کے معاصرین کے لیے سخت تعجب خیز تھا، حتی کہ وہ خود اس کی اپنی حیثیت کے لیے بھی نقصان دہ تھا۔ اس نے یہ کیا کہ اپنا ولی عہد مقرر کرنے کے لیے اپنے خاندان کے کسی فرد کو نہیں لیا۔ بلکہ اس نے علی الرضی کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کیا جو کہ علی بن ابی طالب کے خاندان سے تھے۔ بظاہر دو خاندانوں کے در میان رقابت کو ختم کرنے کے لیے المامون نے اپنی بیٹی کا نکاح بھی علی الرضی کے ساتھ کر دیا۔ دونوں کے درمیان مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کے لیے مزید اس نے یہ کیا کہ اس نے عباسیوں کے کالے جھنڈے کو چھوڑ کر علویوں کے ہرے جھنڈے کو سرکاری طور پر اختیار کر لیا۔
مگر المامون کی ان کوششوں کا متوقع نتیجہ نہیں نکلا۔ عباسی گروہ اتنا ناراض ہوا کہ بغداد میں باقاعدہ طور پر المامون کی خلافت سے معزولی کا اعلان کر دیا گیا۔ عباسیوں نے المامون کو تخت سے ہٹا کر عباسی خاندان کے ابراہیم کو اس کی جگہ خلیفہ مقرر کر دیا۔
اس وقت المامون بغداد سے دور مرو میں تھا۔ جب یہ خبریں پہنچیں تو وہ فوراً مرو سے چل کر بغداد کے لیے روانہ ہو گیا۔ اس لمبے سفر کے دوران یہ واقعہ ہوا کہ فروری ۸۱۸ء میں اس کے وزیر الفضل کو قتل کر دیا گیا۔ اور علی الرضی بھی زہر آلود انگور کھانے کے بعد اگست ۸۱۸ ءمیں اچانک مرگئے۔
علی الرضی اور ان کے حامی وزیر الفضل کی یہ اندوہناک موتیں کیوں کر ہو ئیں، اس کی تو جیہہ کے لیے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عباسیوں نے ان دونوں کو مروا دیا۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خود المامون نے اس وقت کے مخالفانہ حالات سے گھبرا کر انہیں ختم کر دیا اور حالات سے مصالحت کرتے ہوئے دوبارہ خلافت کا منصب عباسی خاندان کے حوالے کر دیا(11/417-18)
ابن خلدون نے اس تاریخی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی معاشرہ میں عمومی طور پر جب و ازع دینی ضعیف ہو جائے تو اس کے بعد ایک فرد، خواہ بذات خود وہ کتنا ہی صالح ہو، وہ معاشرہ میں صلاح و فلاح کا نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا (مقدمہ ابن خلدون ۲۱۱)
اس طرح کے واقعات کثرت سے تاریخ میں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی نظام سماجی حالات کے تابع ہے۔ جیسے سماجی حالات ویسا ہی سیاسی نظام۔
یہ تاریخی حقیقت بتاتی ہے کہ جو شخص صالح افراد کے ہاتھ میں حکومت کا نظام دینا چاہتا ہو اس کو پہلے سماجی نظام میں اس کے موافق تبدیلی لانا ہو گا۔ اس تبدیلی سے پہلے کبھی صالح افرادکی سیاسی قیادت کسی معاشرہ میں قائم نہیں ہو سکتی۔
اس واضح تاریخی شہادت کے باوجود جو لوگ ایسا کریں کہ ضروری سماجی تبدیلی کے بغیر صالح سیاسی قیادت کا نعرہ لگائیں، وہ یا تو غیر سنجیدہ ہیں یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔