ایک لطیفہ
شیخ سعدی شیرازی (۱۲۹۲ - ۱۱۹۳) فارسی کے مشہور شاعر ہیں۔ ان کی کتابوں (گلستان، بوستان)کے ترجمے یورپ کی اکثر زبانوں میں ہوئے ہیں۔ ایک مستشرق ڈاکٹر ہرڈر (J.G.Herder) نے سعدی کی کتاب گلستان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ سلطان کے باغ میں اگنے والا بہترین پھول ہے:
... the finest flower that could blossom in
a Sultan's garden. (9/964)
شیخ سعدی کا ایک لطیفہ ہے۔ ایک بار وہ کا شغر میں تھے جو اس وقت چینی ترکستان کا صدر مقام تھا۔ یہ زمانہ وہ تھا جب کہ تاتاریوں اور خوارزمیوں میں جنگ کے بعد عارضی صلح ہوگئی تھی۔ شیخ سعدی نے ایک مسجد میں دیکھا کہ ایک طالب علم عربی قواعد کی کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے ہے اور ضرب زید عمرواً، ضرب زید عمرواً کا جملہ رٹ رہا ہے۔ انھوں نے طالب علم سے کہا کہ صاحبزادے، خوارزم اور خطا میں تو صلح ہوگئی، مگر زید و عمر کی لڑائی ابھی چلی جارہی ہے۔ طالب علم ہنس پڑا اور شیخ کا وطن پوچھا۔ شیخ کی زبان سے شیراز کا نام سنا تو فرمائش کی کہ سعدی کا کچھ کلام یاد ہو تو سناؤ۔ شیخ سعدی نے حسب موقع یہ شعر موزوں کر کے پڑھا:
اے دل عشاق بدامِ تو صید ما بتو مشغول و تو با عمر و وزید
اے وہ کہ عاشقوں کے دل تیرے دام میں گرفتار ہیں، ہم تجھ میں مشغول ہیں اور تو عمرو اور زید میں مشغول ہے۔
یہ لطیفہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جنگ کا طریقہ فرسودہ ثابت ہو چکا ہے۔ تمام ترقی یافتہ قو میں اپنے نزاعات کو گفت و شنید کے ذریعے طے کر رہی ہیں۔ حتی کہ روس اور امریکہ نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ہتھیاروں کو رکھ دیا ہے۔ مگر مسلمان ہر جگہ جہاد کے نام پر بے فائدہ لڑائی میں مشغول ہیں۔
موجودہ زمانے کا انسان تمام چیزوں سے اکتا کر دین حق کی طرف آرہا ہے۔ وہ اسلام کے سایۂ رحمت میں پناہ لینا چاہتا ہے۔ مگر مسلمان لڑائی جھگڑے کے کاموں میں اتنا زیادہ مشغول ہیں کہ ان کو نہ جدید انسان کی اس طلب کی خبر ہے اور نہ اس کو استعمال کرنے کی فرصت۔