عدالت کا سامنا
مسٹر منوہر جے پھیروانی گورنمنٹ آف انڈیا میں ایک افسر تھے۔ ترقی کرتے کرتے وہ یونٹ ٹرسٹ آف انڈیا اور نیشنل ہاوسنگ بینک کے چیرمین ہو گئے۔ یہ بہت بڑا مالی عہدہ تھا۔
رزرو بینک آف انڈیا نے ۱۹۹۱ میں سرکلر جاری کیا کہ بینکوں کا فنڈ اسٹاک مارکٹ میں منتقل نہ کیا جائے۔ مگر مسٹر پھیروانی نے اس کا لحاظ نہیں کیا۔ انھوں نے قانون اور ضابطےکے خلاف ایک بروکر کو تین ارب روپیہ سے زیادہ (Rs 3,078.63 crore) کی رقم چیک پر دیدی۔ یہ معاملہ پکڑ میں آگیا۔ گورنمنٹ کی طرف سے ان کی سخت باز پرس ہوئی۔ ۹ مئی ۱۹۹۲ کو انھوں نے اپنے عہدہ سے استعفا دے دیا (ہندوستان ٹائمس ۲۲ مئی ۱۹۹۲، ۳ جون ۱۹۹۲)
ان کا کیس سی بی آئی کو دے دیا گیا۔ سی بی آئی کی ایک ٹیم ان کی چھان بین کر نے لگی۔ یہ صورت حال ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ان کو سخت اندیشہ تھا کہ وہ عدالت میں اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت نہ کر سکیں گے۔ یہ احساس ان کے لیے اتنا اعصاب شکن ثابت ہوا کہ استعفا کے بارھویں دن ۲۱ مئی ۱۹۹۲ کو ان کے اوپر دل کا شدید دورہ پڑا اور صرف پانچ منٹ بعد ان کا خاتمہ ہو گیا۔ بوقت انتقال ان کی عمر ۵۸ سال تھی:
He complained of uneasiness around 2.25 a.m. and collapsed within five minutes. He was 58.
یہ انسان کی عدالت کا سامنا کر نے کا مسئلہ تھا جس نے مسٹر پھیر وانی کو اتنا زیادہ بد حواس کر دیا۔ مگر ایک اور مسئلہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ یہ خدا کی عدالت کا سامنا کرنے کا مسئلہ ہے۔ انسانی عدالت کے سامنے کھڑا ہونے کا احساس آدمی کو اس قدر گھبرا دیتا ہے۔ پھر اس وقت آدمی کا کیا حال ہو گا جب کہ وہ خدائی عدالت کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔
جو موت آدمی کو انسانی عدالت کی پکڑ سے بچالیتی ہے۔ وہی موت زیادہ شدید طور پر آدمی کو خدائی عدالت کی پکڑ میں دے دے گی۔ کتنا سنگین ہے یہ معاملہ - آدمی اگر اس کو سوچے تو اس کے اندر تمام زلزلوں سے زیادہ بڑا زلزلہ آ جائے۔