تہذیب کی واپسی
جوائس بر درس (Dr Joyce Brothers) ایک امریکی خاتون ہیں۔ انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کیا۔ وہ نفسیاتی ڈاکٹر کی حیثیت سے پر کیٹس کرتی ہیں۔ ان کی تازہ کتاب کا نام کامیاب خاتون (The Successful Woman) ہے۔
جوائس بر درس کا ایک مضمون ماہنامہ ریڈرس ڈائجسٹ (اپریل ۱۹۹۰) میں چھپا ہے ۔ اس مضمون میں انھوں نے بہت سے مردوں اور عورتوں کے قصے لکھے ہیں جو ان سے شادی شدہ زندگی کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے ملے ۔ انھوں نے اپنے تجربات کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے : شادی شدہ جوڑے مجھ سے جو سوالات کرتے ہیں، ان میں حالیہ برسوں میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے ۔ دس سال پہلے یہ حال تھا کہ جب میاں بیوی میں تعلقات کشیدہ ہوتے تو پہلا سوال یہ کیا جاتا تھا کہ مجھے طلاق چاہیے۔ مگر آج جو مرد اور عورت مجھ سے ملتے ہیں وہ زیادہ تر اس بات کے خواہش مند رہتے ہیں کہ ازدواجی تعلق کو کس طرح برقرار رکھا جائے :
Many of the questions couples ask me have changed in recent years. A decade ago, the first reaction when a marriage hit rough times was, "I want a divorce." But today the men and women I talk to are more likely to want permanent relationships (p.61).
مغربی دنیا میں اس سے پہلے آزادی کو خیر مطلق سمجھ لیا گیا تھا۔ مرد اور عورت مکمل آزادی کو اپنا حق سمجھنے لگے ۔ مگر تجربہ نے بتایا کہ کامل آزادی آخر کار کامل خواہش پرستی تک پہنچتی ہے، اور کامل خواہش پرستی کی بنیاد پر کبھی کوئی اچھا سماج نہیں بنایا جا سکتا۔
اس تلخ تجربہ کے بعد اب کامل آزادی کے بجائے محدود آزادی کا نظریہ اختیار کیا جانے لگا ہے۔ اس کی ایک مثال اوپر کے جائزہ میں نظر آتی ہے۔ کامل آزادی نے گھروں کو اجاڑا اور زندگی کو سکون سے محروم کر دیا۔ اب انسان یہ ماننے پر مجبور ہورہا ہے کہ گھر کی آبادی اور پر سکون زندگی کو حاصل کرنے کے لیے محدود آزادی کے طریقہ کو اختیار کرنا پڑے گا۔
آدمی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ زیادہ دیر تک فطرت سے منحرف رہے ۔