مقصد ی کردار
۶ ستمبر ۱۹۹۰ کوٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ رسیور اٹھایا تو دوسری طرف ایک خاتون انیتا پر تاپ (Anita Pratap) بول رہی تھیں ۔ انھوں نے بتایا کہ نئی دہلی میں وہ ٹائم میگزین( نیو یارک) کی اسپشل کرسپانڈنٹ ہیں۔ اور مجھ سے ‘‘اسلام میں عورت کا مقام ’’کے مسئلہ پر معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ مقررہ وقت پر وہ دفتر میں آئیں۔ ان کے پاس انگریزی کا ایک ٹائپ کیا ہوا آرٹیکل تھا۔ یہ اسلام میں عورت کی حیثیت کے بارے میں تھا ، اور اس کا عنوان تھا –––––– پردہ کے پیچھے:
Behind the veil
گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ یہ آرٹیکل ہمارے پاس ٹائم کے صدر دفتر نیو یارک سے آیا ہے۔ ہمارا میگزین ایک مضمون چھاپنا چاہتا ہے جس میں عورت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات بتائی جائیں گی۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہمارے صدر دفتر نے کچھ مسلم ملکوں میں ٹائم کے نمائندوں کو لکھاکہ وہ موضوع سے متعلق ضروری معلومات حاصل کر کے بھیجیں ۔ ان معلومات کو سامنے رکھ کر نیو یارک کے اڈیٹر نے یہ آرٹیکل تیار کیا۔ اب اس آرٹیکل کو دوبارہ مختلف ملکوں میں ٹائم کے نمائندوں کے پاس بھیجا گیا ہے کہ وہ اپنے یہاں کے مستند علماء سے مل کر اس کے اندراجات کی جانچ کریں اور ان کی تصدیق یا تصحیح کر کے دوبارہ صدر دفتر (نیویارک )کو بھیجیں ۔ ہماری ان ترمیمات کو سامنے رکھ کر نیو یارک کا ایڈیٹر آرٹیکل کو دوبارہ لکھے گا اور اس کے بعد اُس کو ٹائم میں چھاپا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کی چیزوں میں ہمارا طریقہ "چیک اینڈری چیک"کا ہوتا ہے ۔
میں نے کہا کہ ایک مضمون کی تیاری میں آپ لوگ اتنازیادہ محنت کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں خاتون کرسپانڈنٹ نے کہا کہ ہمارا میگزین (ٹائم انٹرنیشنل) ساری دنیا میں جاتا ہے اور ہر ملک اور ہر قوم میں پڑھا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں ہم اس کا تحمل نہیں کر سکتے کہ ہم اس میں کوئی غلطی کریں:
We can't afford to make any mistakes.
ٹائم کے نمائندہ کا یہ جملہ بے حد سبق آموز ہے ۔ ٹائم کا مقصد یہ ہے کہ وہ ساری دنیا میں اپنے پرچہ کے لیے خریدار حاصل کرے۔ اسی لیے اس کا نام ٹائم انٹرنیشنل رکھا گیا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیےضروری ہے کہ اس کا ہر شمارہ لوگوں کو غلطیوں سے خالی دکھائی دے ۔ اگر لوگ محسوس کریں کہ اس کی رپورٹیں اور اس کی معلومات غلط ہوتی ہیں تو لوگ اس کی خریداری کی طرف مائل نہیں ہوں گے۔ ٹائم اپنے پرچہ کو ساری دنیا میں پھیلانے میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔
ٹائم اپنے پرچہ کی غیر مقبولیت کا تحمل نہیں کر سکتا ، اس لیے وہ اس کا تحمل بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے صفحات میں ایسی باتیں چھاپے جو غلط یا خلاف واقعہ ہوں ۔ اور نتیجۃ ً لوگوں کو اس سے دور کر دینے کا سبب بن جائیں ۔
یہی نفسیات زیادہ بڑے پیمانے پر دین کے داعی کی ہوتی ہے۔ داعی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کے دین کو خدا کے تمام بندوں کے لیے قابلِ قبول بنائے ۔ اس مقصد کے پیش نظر داعی ہر ممکن تدبیر کے ذریعہ اس کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کے اور مدعو کے درمیان ایسی کوئی بات پیش نہ آئے جو مد عو کو دین حق سے بیزار کر دے، جس کا نتیجہ اس صورت میں نکلے کہ خدا کا دین مدعو کو مشتبہ دکھائی دینے لگے، وہ مدعو کی نظر میں قابل قبول نہ رہے ۔
اس مقصد کے لیے داعی ہر قسم کی " غلطی "سے بچنے کا مکمل اہتمام کرتا ہے ۔ وہ مدعو کی پسندیدہ زبان (ابراہیم ۴ ) میں کلام کرتا ہے۔ وہ دین کو اس کے سامنے قول بلیغ (النساء ۶۳) کے اسلوب میں پیش کرتا ہے ۔ وہ مدعو کی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر (ابراہیم ۱۲) کرتا ہے۔ وہ تالیف قلب (التوبہ ۶۰) کے ذریعہ اس کے دل کو نرم کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو تمام اخلاقی کمزوریوں سے پاک (المدثر ۴ ) کرتا ہے۔ وہ آخری حد تک مدعو کا خیر خواہ (الاعراف ۷۹) بن جاتا ہے ۔ حتی کہ بعض اوقات وہ ایک صحیح اور جائز بات کے سلسلہ میں بھی مدعو کی ضد کو مان لیتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے حدیبیہ کے موقع پر مدعو کے اصرار پر لفظ"رسول اللہ "کو کاغذ سے مٹا دیا ۔
ٹائم میگزین کے نمائندہ نے کہا کہ ہم غلطیوں کا تحمل نہیں کر سکتے۔ یہی بات ایک داعی کو مزید شدت کے ساتھ کہنا ہے ۔ داعی کا احساس یہ ہونا چاہیے کہ میں ایسی کسی بات کا تحمل نہیں کر سکتا جو مد عو کو میرے پیغام سے دور کر دے۔ میں یک طرفہ طور پر یہ ذمہ داری لوں گا کہ مدعو کو اپنے پیغام ِحق کے بارے میں بدظن نہ ہونے دوں۔ میں ہر اس قول یا فعل سے بچوں گا جو مدعو کے اندر مخالفانہ نفسیات پیدا کرے اور میری بات کو اس کے لیے ناقابل قبول بنا دے ۔