سفر نامہ-۳

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی یہ مشترک صفت ہے کہ وہ اپنے ملکوں کے شاکی رہتے ہیں۔ مگریہی لوگ باہر کے ملکوں میں جا کر نہایت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔ مثلاً پاکستان اور ہندستان کےلوگ اپنے اپنے ملکوں میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہاں ظلم اور فساد ہے ۔مگر یہی لوگ مغرب میں یا خلیج کے ملکوں میں پہنچتے ہی ایک کامیاب زندگی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح مصر اور شام کے اسلام پسند اپنے ملکوں میں اپنی حکومت سے ٹکراؤ کے سوا کوئی اور کام نہیں جانتے۔ مگر یہی لوگ سعودی عرب اور کویت میں آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کا راز ایک لفظ میں ایڈ جسٹمنٹ ہے۔ یہ لوگ اپنے ملکوں میں ایڈ جسٹمنٹ نہیں کرتے ،اس لیے    وہ اپنے ملک میں ناکام رہتے ہیں ۔ اور دوسرے ملک میں ، مجبور انہ طور پر نہ کہ شعوری طور پر، ایڈ جسٹمنٹ کر لیتے ہیں۔ اس لیے    وہ وہاں کا میاب رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ملکوں میں "مجاہد " ہیں اور دوسرے ملکوں میں "بزدل "۔ اگر وہ اپنے ملکوں میں اسی طرح "بزدل " بن جائیں جس طرح وہ باہر کے ملکوں میں بنے ہوئے ہیں تو وہ خود اپنے ملک میں بھی وہ ساری کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں جو وہ باہر کے ملک میں حاصل کر رہے ہیں ۔

 اس صورت حال کا اصل نقصان عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ باہر جانے والے ذہین لوگ اپنی زبان سے یہ اعلان نہیں کرتے کہ تجربہ کے بعد ہم نے اپنی پالیسی بدل لی ہے، اسی طرح تم بھی بدل لو۔ چنانچہ عملاً یہ ہورہا ہے کہ ان تمام نام نہاد مجاہدین کے لکھے یا بولے ہوئے الفاظ کی بنا پر ان کے ملکوں کے لوگ برابر مصیبتیں اٹھا رہے ہیں۔ اور وہ خود باہر کے ملک میں اپنے الفاظ کو عملاً ترک کر کے اپنا اور اپنے اہل وعیال کا مستقبل تعمیر کر رہے ہیں۔

یہ سب سے بڑی برائی ہے جو موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان جاری ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس برائی کو جاری کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کو بے خبر عوام نے برائی مٹانے کا کریڈٹ دے رکھا ہے۔ ایک صاحب کے سوال پر میں نے یہ بات کہی ۔

ایک صاحب نے گفتگو کے دوران کہا کہ اسلامی دنیا کو ہمارے دشمنوں نے پارہ پارہ کر دیا ہے(أِنَّ الْعَالَمَ الإسلا مِیُّ مَزّقَهُ أَعْدَاؤُنَا(

۱۰ مئی  کی شام کو مؤتمر ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد پریس کانفرنس ہوئی۔ اس میں سینیگال کےاخباری نمائندے جمع ہوئے اور سوال وجواب کے انداز میں گفتگو ہوئی۔

 مگر پریس کے نمائندوں نے جو سوالات کیے ، وہ زیادہ ترسطحی  نوعیت کے تھے۔ ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ کانفرنس نے سلمان رشدی کے بارے   میں کوئی تجویز پاس نہیں کی ۔ اس کی وجہ کیا ہے۔اس سوال و جواب کو سن کر مجھے احساس ہوا کہ اس وقت پوری ملت اسلام قول بلا فعل  کی سطح پر ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہر مسلمان اس بات کو ثابت کرنے پر اپنے آخری الفاظ خرچ کر دنیا چاہتا ہے کہ سلمان رشدی واجب القتل ہے۔ حتی کہ وہ اس قابل ہے کہ کوئی بھی شخص اس پرقا بو حاصل کر کے اس کو قتل کر دے۔

مگر کیسی عجیب بات ہے کہ ہر شخص قتل کی بات کرتا ہے مگر کوئی شخص قتل کرنے کے لیے    نہیں اٹھتا۔ حتی کہ ایران کی حکومت نے ایک سال پہلے اعلان کیا تھا کہ سلمان رشدی کے قتل کے لیے    ایک اسکویڈ روانہ کر دیا گیا ہے۔ مگر آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ وہ اسکو یڈ کہاں گیا۔ ہندستان پاکستان یا کسی بھی ملک کے کسی مسلم دانشور یا عالم نے ایسا نہیں کیا کہ وہ خود انگلینڈ جائے یا اپنے صاجزادہ کو وہاں بھیجے اور پھر وہ یا تو سلمان رشدی کو مارنے میں کامیاب ہو یا اسی راہ میں اپنی جان دےدے۔

حقیقت یہ ہے کہ سلمان رشدی کے واقعہ نے سلمان رشدی سے زیادہ خود موجودہ زمانہ کےلکھنے اور بولنے والے مسلمانوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سلمان رشدی کی کتاب نے اگر سلمان رشدی کو شتمِ رسول کا مجرم ثابت کیا ہے تو مسلم لکھنے اور بولنے والوں کو قول بلا فعل کا مجرم ثابت کیا ہے۔ اور دوسرا جرم یقیناً پہلے جرم سے کسی طرح کم نہیں۔

 اس سفر کے دوران مجھے ایک عرب ملک کی مطبوعہ رپورٹ (۱۹۸۹) دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں نام بنام دکھا یا گیا تھا کہ کس ملک کو کس مد میں کتنی رقم دی گئی ۔ ہندستان کے عنوان کے تحت اس رپورٹ میں حسب ذیل الفاظ درج تھے :

الهند : لجنة تعمير المساجد ، لإصلاح المساجد المتضررة من الزلازل 20,000$ اس اندراج کے مطابق، ہندستان میں تعمیر مساجد کے لیے    ایک ادارہ قائم ہے۔ اس نے ۲۰ ہزار ڈالر ان مساجد کی مرمت کے لیے    حاصل کیا ہے جن کو زلزلوں سے نقصان پہنچا ہے۔

یہ پڑھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی ۔ "لجنۃ تعمیر المساجد" کے نام سے کوئی معروف ادارہ ہندستان میں موجود نہیں۔ اور اگر بالفرض "اسٹیمپ اور لیٹر پیڈ "کی سطح پر ایساکوئی ادارہ کہیں موجودہو تو یہ یقینی ہے کہ ۱۹۸۹ میں یا اس سے پہلے کے قریبی سال میں ہندستان میں کوئی زلزلہ نہیں آیا جس میں مسجدوں کو نقصان پہنچا ہو اور اس کی ضرورت پیش آئی ہو کہ باہر سے رقم لا کر ان کی مرمت کرائی جائے۔

 یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندستان کا" باریش طبقہ "کتنے برےانداز میں عرب ملکوں کے جذبۂ انفاق کا استحصال کر رہا ہے۔

 عبد المغنی شمس الدین (عمر ۴۶ سال) کوالالمپور (مالیزیا ) سے آئے تھے۔ وہ اخوانی تحریک سے متاثر ہیں ۔ جامعہ ازہر کے پڑھے ہوئے ہیں، اس لیے    عربی روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔ گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی مشترک غلطی یہ ہے کہ وہ اختتام سے آغاز کرنا چاہتے ہیں ، وہ آغاز سے اپنے عمل کی ابتدا کرنا نہیں چاہتے ، یہی وجہ ہے کہ وہ لفظی شور و غل اور بے فائدہ ٹکراؤ کے سوا امت کو کوئی اور چیز نہیں دے سکے ۔ وہ ہر جگہ "نظام "کو توڑنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ لوگوں کے مزاج اور طرز ِفکر کو بدلا جائے۔

 انھوں نے کہا کہ مگر فکر بدلنے کے تمام بڑے بڑے ذرائع  (اسکول ، ریڈیو، ٹیلیویژین، اخبارات وغیرہ) سب حکومت کے قبضہ میں ہوتے ہیں ۔ پھر حکومت کو بدلے بغیر طرز فکر کو بدلنے کا کام کیسے کیا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ ایک زبر دست مغالطہ ہے جس میں موجود مسلم مفکرین پچھلی نصف صدی سے مبتلا ہیں۔ حالانکہ واقعات نے اس کا بے معنی ہو نا آخری طور پر ثابت کر دیا ہے۔

میں نے کہا کہ جنرل محمد ضیاء الحق کو پاکستان میں مکمل اقتدار ملا۔ اور سید ابو الاعلیٰ   ٰ مودودی سمیت تمام اسلام پسند لوگوں نے ان کی تائید کی۔ ضیاء الحق صاحب ساڑھے گیارہ سال تک ، آپ کے الفاظ میں ، فکر بنانے والے تمام اداروں پر مکمل قبضہ کر کے اس کو افکار بدلنے کے لیے    استعمال کرتے رہے حتی کہ انھوں نے جماعت اسلامی کے افراد کو ان شعبوں کا چارج دےدیا۔مگر ساڑھے گیارہ سال کی کوشش کے باوجود ادنی درجہ میں بھی لوگوں کی فکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔آج پاکستان کا ذہن پہلے سے بھی زیادہ بگڑا ہوا ہے ۔ مزید یہ کر ضیاء الحق صاحب کی موت کے فوراً بعد جو عوامی الکشن ہوا ، اس میں پاکستان کے عوام نے ضیاء الحق کے دور کے تمام افراد کے خلاف ووٹ دے کر انہیں ہرا دیا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دور اول کے مسلمانوں نے متفقہ طور پر حضرت ابو بکر صدیق کو خلیفہ بنایا۔ اس کا نام ذہن کی تبدیلی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایسا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدینہ کے لوگ عبد اللہ بن ابی جیسے کسی شخص کو اپنا حکمراں بنا لیتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی تحریک وہاں کے لوگوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی ۔ بدقسمتی سے یہی صورت ضیاء الحق صاحب کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیش آئی ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ تعمیرفکر کا کام ایک خالص غیر سیاسی کام ہے ۔ وہ حکومت واقتدار کے باہر انجام دیا جاتا ہے نہ کہ حکومت و اقتدار کے اندر ۔

۱۰ مئی کی صبح کو ہمارا قافلہ تو با (Touba) کے لیے    روانہ ہوا۔ وہاں سینیگال کے سب سے بڑے صوفی رہتے ہیں۔ ان کا نام شیخ عبد القادر مباقی (M,Backe) ہے۔ وہ طائفۂ مرید یہ کے پیر ہیں۔ اس حلقہ کو احمد با مبانے قائم کیا تھا۔ ان کی رہائش گاہ کے دروازہ پرمسکن الشیخ الخدیم لکھا ہوا تھا۔

بزرگ اپنے لباس اور حلیہ کے اعتبار سے اسی روایتی انداز میں تھے جو ہندستان کے بزرگوں کا انداز ہے۔ مگر ان کا وسیع مرکز پورے معنوں میں "ماڈرن " تھا۔ میز، قالین ، صوفہ سٹ، ٹیلیفون ، غرض ہر چیز موجود تھی۔ مجھے حمام (ٹائیلٹ)  میں جانے کا اتفاق ہوا۔ حمام خالص مغربی طرز کا بنا ہوا تھا۔ جتنی دیر ہم لوگ شیخ کے پاس رہے ، ٹیلی وژن کا عملہ مسلسل ہر چیز کو ریکار ڈ کرتا رہا۔

 وسیع کمرۂ ملاقات ٹیک لکڑی کا منقش انداز میں بنایا گیا تھا۔ ایک بڑی کرسی بزرگ کے لیے    تھی جن کو یہاں الشیخ الاکبر کہا جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ آئے۔ ایک بات نے خاص طور پر مجھے سوچنے کا موقع دیا۔ وہ یہ کہ شیخ اپنی شخصیت (پرسنالٹی) کے اعتبار سے نہایت غیر جاذب تھے۔

میں نے سوچا کہ اس کا راز کیا ہے کہ سینیگال کے لاکھوں لوگ ان پر فدا ہیں اور صدر ریاست ان کوخصوصی سلام بھجواتے ہیں۔ اس کا راز کئی سو سال کی تاریخ ہے۔

پہلے شیخ جو اپنے کو خادم رسول اللہ کہتے تھے ، وہ اس مقام (تو با ) میں آئے، انھوں نے خدمت اور تقدس کی تاریخ بنائی۔ اس کے بعد مختلف بزرگ اس تاریخ میں اضافہ کرتے رہے۔ اس طرح تقدس کی ایک لمبی تاریخ ہے جس کے اوپر موجودہ بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں۔

  ہندستان کے موجودہ تمام "شیوخ" کا حال بھی یہی ہے ۔ ہر ایک کسی قدیم ادارہ یا قدیم تحریک کی بنائی ہوئی تاریخی روایات کی زمین پر بیٹھا ہوا ہے۔ ایک ہے خود ایک تاریخ بنانا ، اور دوسری چیز ہے سابقہ تاریخ کو استعمال کرنا۔ بعد کو آنے والا زمین کے اوپر جگہ پاتا ہے ، مگر تاریخ  بنانے والے کے حصہ میں جو چیز آتی ہے ، وہ یہ کہ وہ زمین کے نیچے دفن ہو کر رہ جائے۔

طوبی میں ایک افریقی احمد بکی میرے قریب آئے ۔ انھوں نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں۔ میں نے بتا یا کہ ہند سے۔ وہ عربی میں کلام کر رہے تھے۔ انھوں نے الإسلام یتحدّیٰ کی تعریف کی ۔ پھر پوچھا کہ کیا آپ اس کتاب کے مصنف کو جانتے ہیں۔ کیا وہ زندہ ہیں (هَلْ تَعْرِفُ مُؤَلِّفُ هَذَا الْكِتَابِ ، أ هُوَحَيٌ .) میں خاموش رہا۔ انھوں نے کہا آپ عربی نہیں سمجھتے ہیں۔ آخر میں میں نے کہا کہ میں ہی اس کا مصنف ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے رہے۔

اس قسم کے واقعات میرے ساتھ ہر سفر میں پیش آتے ہیں۔ یہاں"مکتبۃ الشیخ "میں جانا ہوا۔ اس کے لائبریرین ہم لوگوں کو لائبریری کا ایک حصہ دکھا رہے تھے ۔ وہ ایک الماری کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ہمارے پاس ہر موضوع کی کتابیں ہیں ۔ یہ کہہ کہ انھوں نے چند کتا بیں نکال کر دکھائیں۔ پھر انھوں نے ایک کتاب نکالی اور دکھاتے ہوئے کہا : هَذَا الْإِسْلَام يَتَحَدَّى لِلْمُفَكِّرِ الْإِسْلَامِيّ الْكَبِير وَحِیْدُ الدین خَان۔ لائبریرین کے اس جملہ کو سن کر میرے ساتھی ہنس پڑے ۔ انھوں نے کہا کہ وہ مصنف یہ آپ کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔

 اس لائبریری کے ایک حصہ میں شیخ کی تالیفات مجلد کر کے رکھی ہوئی ہیں۔ کچھ مطبوعہ اور بیشتر قلمی۔ یہ تالیفات عقائد اور تصوف وغیرہ موضوعات پر ہیں ۔ ایک کتاب میں نے دیکھی ۔ اس میں تصوف اور صوفی پر بحث تھی۔ صوفی کی تعریف یہ کی گئی تھی کہ صوفی وہ ہے جو انسانوں سے منقطع ہوکر اللہ سے متصل ہو جائے۔(عربی الفاظ یاد نہیں )

 ۱۰ مئی کی شام کو کھانے کی میز پر دو افریقی نوجوان تھے ۔ ایک کا نام شیخ احمد تیجانی کو تا تھا۔ دوسرے کا نام میں نہ پوچھ سکا۔ دوسرے ساتھی سے میں نے پوچھا کہ آپ تیجا نیہ سے تعلق رکھتے ہیں یا مرید یہ سے انھوں نے مسکر اکر کہا کہ دونوں میں سے کسی سے بھی نہیں ۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ اس وقت سینیگال کے گھروں کا یہ حال ہے کہ ماں اور باپ تو ان دو میں سے کسی ایک طائفہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر سینیگال کی نئی نسل ان باتوں میں یقین نہیں رکھتی ۔ نوجوان نسل دونوں سے کٹتی جارہی ہے۔

میں طوبی کی مسجد کو دیکھ رہا تھاکہ ایک صاحب مجمع سے نکل کر میری طرف آئے ۔ وہ میرا نام وغیرہ پوچھنے لگے۔ میں نے کہا کیا آپ نے میری عربی کتا بیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے کہا نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر آپ کو میرے بارے   میں پوچھنے کا خیال کیوں آیا ۔ انھوں نے کہا کہ یہاں جب میں نے مجمع کو دیکھا تو میں نے آپ کے چہرہ کو منتخب کر لیا۔ کیوں کہ آپ کے چہرہ میں مجھے اسلامی عظمت دکھائی دی (لَمَّا  رَأَیْتُ الْوُجُوهَ فَقَدْ اخْتَرْتُ وَجْهَكُم لِمَا تُوْحِيْ مِنْ الْعَظَمَةِ الْإِسْلَامِيَّةِ)

۱۱ مئی کی صبح کو جزیرہ گورے (Goree) دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ یہ چھوٹا سا جزیرہ دکار سے پانچ کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ جدید طرز کی مشینی کشتی جب ہم لوگوں کو لے کر سمندر کی موجوں کے اوپر تیزی سے چلنے لگی تو بے اختیار میری زبان پر یہ آیت آگئی : وَلَقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِيٓ ءَادَمَ ‌وَحَمَلۡنَٰهُمۡ فِي ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ [الإسراء: 70]

جانور اپنے پیروں کے ذریعہ زمین پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گھوڑے کی پیٹھ پر سوار کر کے خشکی کا سفر کر ایا۔ مچھلیاں اپنی جسمانی محنت سے سمندر میں تیرتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو کشتیوں پر بٹھا کر سمندر کی سطح پر رواں دواں کیا۔ چڑیاں اپنے بازؤوں کے ذریعہ فضا میں اڑتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے    ہوائی جہاز پر بیٹھ کر فضا میں اڑنے کا انتظام کیا۔ یہ کیسا عجیب" کرّمنا " کا معاملہ ہے جو انسان کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ مگر انسانوں میں سب سے کم وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں کے لیے    حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوں ۔ شکریہ ہے کہ آلا ء اللہ کو سوچ کر آدمی کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں اور پھر زبان سے نکلے کہ خدا یا تیرا شکر ہے محض ش ک ر کو دہرانے کا نام شکر نہیں ۔

جزیرہ میں کار وغیرہ نہیں ہوتی ۔ یہاں لوگ پیدل چلتے ہیں۔ اس لیے    یہاں فضائی کثافت کا وجود نہیں ہے۔ پورا جزیرہ نہایت پرسکون اور خوش گوار ہے۔ اس جزیرہ کے تمام مکانات قدیم یو رپی طرز کے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں لوگوں نے سب سے پہلے اس جزیرہ کو آباد کیا تھا۔

سب سے پہلے ۱۴۴۴ء میں ہالینڈ کے لوگ اس جزیرہ میں آئے ۔ پھر پرتگالی اور فرانسیسی آئے۔ سب سے آخر میں انگریز آئے۔ انگریزوں نے جزیرہ گورے پر قبضہ کر لیا ۔ فرانس کا قبضہ گامبیا پر تھا۔ دونوں میں تبادلہ ہوا۔ گامبیا کو فرانس نے انگریزوں کے لیے    چھوڑ دیا۔ اور اس کے بدلے میں انگریزوں نے جزیرہ گورے کو فرانس کے حوالہ کر دیا۔ آجکل اس جزیرہ میں کل دو ہزار آدمی رہتے ہیں۔

 جزیرہ گورے میں جو چیزیں دیکھیں ، ان میں ایک وہ مکان (سلیو ہاؤس ) تھا جو غلاموں کے لیے    بنایا گیا تھا۔ اس میں نیچے کے حصہ میں نہایت تنگ قسم کی کو ٹھریاں تھیں جن میں غلام پکڑ کر بند رکھے جاتے تھے اور سمندر کے راستہ سے روانہ کیے جاتے تھے ۔ اور مکان کے اوپر کے حصہ میں کشادہ اور آرام دہ کمرے تھے ۔ یہاں یورپ کے سفید لوگ ٹھہرتے تھے جو غلاموں کی خرید و فروخت کے کاروبار کے لیے    یہاں آتے تھے۔

غلاموں کی کو ٹھری کو میں نے ناپ کر دیکھا تو کوئی تین قدم چوڑی اور چار قدم لمبی تھی  اور کوئی چارقدم چوڑی اور آٹھ قدم لمبی ۔ ان چھوٹی کو ٹھریوں میں ایک سو اور دوسو آدمی جانوروں سے بدتر اندازمیں بھر دیے جاتے تھے ۔ انھیں دن میں صرف ایک بار قضائے حاجت کے لیے    نکالا جاتا تھا۔ یہاں اس زمانے  کے بہت سے سامان اب بھی موجود ہیں۔ مثلاً لوہے کی وہ ہتھ کڑی جس میں انھیں باندھ دیا جاتا تھا۔ اس قسم کی بہت سی وحشیانہ چیزیں تھیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔

 غلاموں کا یہ گھر پندرھویں صدی میں بنایا گیا تھا ۔ اس میں امریکہ کی دریافت نے غلاموں کی تجارت (Slave trade) بہت بڑھا دی۔ امریکہ میں زرخیز زمین بہت تھی۔ مگر وہاں کام کے لیے    آدمی نہیں تھے ۔ چنانچہ یورپی قوموں نے افریقہ سے غلاموں کو پکڑ کر وہاں بھیجنا شروع کیا تا کہ وہ زرعی مزدور کے طور پر استعمال کیے جاسکیں۔ یہ لوگ کالے انسانوں کو ایک قسم کا حیوان سمجھتے تھے۔ اس لیے    وہ افریقہ  آکر  اس طرح ان کو پکڑتے تھے جیسے جنگلوں میں جانور پکڑے جاتے ہیں۔ اور پھر نہایت وحشیانہ اور بے دردانہ انداز میں ان کو سمندری جہازوں میں بھر کر امریکہ لے جا کر انہیں بیچتے تھے ۔ اس غیر انسانی تجارت میں ڈچ ، پرتگالی، فرانسیسی، انگریز سب شریک تھے۔

جزیرہ گورے میں قدیم طرز کی مگر صاف ستھری خوب صورت مسجد ہے ۔ اس میں کوئی گنبد نہیں ہے۔ مسجد کے ایک طرف پہاڑی ہے اور دوسری طرف سمندر۔ یہاں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھی ۔ اور پھر امام سے ملاقات کی ۔ امام صاحب نے بتا یا کہ یہ مسجد افریقہ کی چندقدیم مسجدوں میں سے ایک ہے۔

نئی دہلی میں سینیگال کے سفارت خانہ کی طرف سے کچھ تعارفی لٹر یچر دیا گیا تھا۔ ایک پمفلٹ میں جزیرہ گورے کے بارے میں بناتے ہوئے لکھا تھا کہ یہاں غلام گھر ہے جس کا دروازہ سمندر کی طرف کھلتا ہے۔ یہ انسان کے اوپر انسان کے ظلم کی ایک دہشت ناک یا ددہانی ہے:

The slaves house with its door opened on the ocean is a terrible reminder of the cruelty of men towards men.

ان الفاظ کو پڑھ کر صرف یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جزیرہ گورے میں کوئی عمارت ہے جس کو "غلام گھر "کہا جاتا ہے ۔ مگر جب میں نے وہاں جا کر غلام گھر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور زنجیریں اور دوسری چیزیں دیکھیں تو اندازہ ہوا کہ واقعی سیاہ فام لوگوں کے ساتھ کتنا زیادہ ظلم کیا جاتارہا ہے۔ تاہم یہ مشاہدہ بھی آخری نہیں ۔ اس سے زیادہ دہشت ناک مشاہدہ وہ ہو گا جب کہ آدمی اس وقت وہاں موجود ہو جب کہ یہ انسانیت سوز واقعہ ہو رہا تھا۔ وہ اپنی آنکھوں سے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ عملاً حیوانی سلوک ہوتے ہوئے دیکھے۔ موجودہ زمانہ میں اہل مغرب نے " نیگرو " اور دوسرے ناموں سے کچھ فلمیں بنائی ہیں ۔ ان میں ایکٹنگ کے ذریعہ وہ تمام قدیم مناظر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مگر یہ دیکھنا بھی آخری دیکھنا نہیں۔ اس سے بڑا اور آخری مشاہدہ وہ ہے جب کہ کوئی شخص دونوں کی اندرونی حالت کو دیکھ سکے۔ ایک طرف وہ سفید فام لوگوں کے اندرون کو دیکھے کہ کس شقاوت کے ساتھ وہ اس فعل کو انجام دے رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ سیاہ فام مظلوموں کے دلوں کی حالت جان سکے کہ کس طرح ذلت اور ظلم کی اس ناقا بل بر داشت صورت کو وہ برداشت کر رہے ہیں۔

یہ آخری حقیقت صرف خدا دیکھ سکتاہے ۔ یہی وجہ کہ خدا کے سواکسی کے لیے    یہ ممکن نہیں کہ وہ انسانوں کا عادلانہ حساب کر سکے۔

اا مئی کو جمعہ کا دن تھا۔ نماز کے لیے    ہم لوگ دکار کی جامع مسجد میں لے جائے گئے۔ یہ مسجد جامع قرویین کے طرز پر بنی ہوئی تھی، اس کا ہر جزء دہلی کی مساجد سے مختلف تھا۔ اندر داخل ہواتو وسیع مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ۔ گیٹ پر عمومی اعلان ہو رہا تھا کہ جوتا اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ میں بھی جوتا اپنے ہاتھ میں لے کر اندر داخل ہوا۔

 میزبانوں کی رہنمائی میں ہم لوگ آگے بڑھتے رہے۔ یہاں تک پہلی صف میں پہنچ گئے۔ اتنے میں ایک افریقی بزرگ نے جوتا میرے ہاتھ سے لے لیا۔ میں اس قسم کے تکلف سے گھبراتا ہوں ۔ کیوں کہ نماز کے بعد اگر وہ صاحب مجھے نہ ملیں تو دوسرے کے رکھے ہوئے سامان کو تلاش کرنا میرے لیے    سخت مشکل ہو جائے گا۔ مگر جب میں نماز سے فارغ ہو کر اٹھا تو مذکو رہ افریقی میرا جوتا لیے    ہوئے میرے پیچھے موجود تھے۔

 میں اگلی صف میں امام کے قریب تھا۔ سنت پڑھ کر میں بیٹھا ہو ا تھا کہ اچانک گڑگڑا ہٹ کی آواز ہوئی۔ میں نے سمجھا کہ مسجد کی چھت کے اوپر سے شاید کوئی ہیلی کاپٹر گزر رہا ہے۔ مگر دیکھا تو" دیوار" کے اندر سے ایک بہت بڑا لکڑی کا ڈھانچہ بر آمد ہو رہا تھا۔ یہ منبر تھا جو بھاری بھاری موٹی لکڑیوں سے منقش انداز میں بنایا گیا تھا۔ وہ ریل کے ڈبہ کی طرح لکڑی کے پہیہ پر ہوتا ہے۔ اس کو دیوار کے پیچھے ایک مخصوص کمرہ میں ڈال دیا جاتا ہے اور خطبہ کے وقت کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جس کو اس سے پہلے میں نے جامع قرویین میں دیکھا تھا۔

امام صاحب منبر پر بیٹھے تو حسبِ معمول مسجد کے اندر موذن نے کھڑے ہو کر دوسری اذان دی۔ اذان ختم ہوئی۔ میں آغاز ِخطبہ کا منتظر تھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ امام صاحب بدستور بیٹھے ہوئے ہیں۔ اتنے میں مسجد کے ایک گوشہ سے" اللہ اکبر اللہ اکبر "کی آواز بلند ہوئی۔ میں متحیر تھا کہ یہ کیا ہے میرے ساتھی نے اپنے ہاتھ کی تین انگلیاں اٹھا کر اشارہ کیا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں خطبہ سے پہلے تین اذانیں دی جاتی ہیں۔ چنانچہ ایک کے بعد ایک تین اذانیں ہوئیں۔ اس کے بعد امام۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom