دعوتی کوتاہی

چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت عیسائیوں کی سلطنت تھی۔ اس سلطنت کے دو بڑے حصے تھے۔ ایک مغربی حصہ اور دوسرا مشرقی حصہ مغربی حصہ (یورپ) کو رومن ایمپائر کہا جاتا تھا اور اس کا پایہ تخت روم (اٹلی) تھا۔ مشرقی حصہ ایشیا اور افریقہ کو بازنطینی ایمپائر کہا جاتا تھا اور اس کا پایہ تخت قسطنطنیہ (ترکی) تھا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں شام کی سرحد پر رومیوں سے مسلمانوں کا فوجی ٹکر اؤشروع ہوا۔ اس ٹکراؤ میں مسلمان کامیاب رہے۔ ایک صدی کے اندر اندر انھوں نے مسیحی سلطنت کے مشرقی حصہ کو تقریباً پورا کا پور افتح کر لیا ۔ جس میں ان کے مقدس مذہبی مقامات (شام اور فلسطین )بھی شامل تھے۔

اس کے بعد مسلمانوں نے ایک طرف سسلی اور اسپین کی جانب سے پیش قدمی شروع کی اور بڑھتے بڑھتے فرانس کے اندر داخل ہوگئے۔ دوسری طرف وہ ترکی کی جانب سے مشرقی یورپ میں داخل ہوئے۔ اور آگے بڑھتے ہوئے ویانا (آسٹریا ) تک جاپہنچے۔ اس طرح انھوں نے مسیحی ( رومی) سلطنت کے مشرقی بازو پر تقریباً پورا کا پورا قبضہ کرلیا۔ اور اسی کے ساتھ اس کے مغربی بازو کے بھی ایک حصہ کو کاٹ لیا۔

مشہور صلیبی لڑائیاں مغربی عیسائیوں کی طرف سے ان کی اسی شکست کا ردّ عمل تھیں۔ عیسائی دنیا ایک غیر قوم کے ہاتھ سے اپنی اس ذلت اور شکست کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ چنانچہ یورپ کی مسیحی سلطنتوں نے متحد ہو کر مسلم دنیا پر حملہ کر دیا۔

یہ صلیبی لڑائیاں (Crusades) وقفہ وقفہ سے تقریباً دو سو سال (۱۲۷۱ -  ۱۰۹۵ء) تک جاری رہیں۔ اس درمیان میں عیسائیوں کو وقتی اور جزئی کامیابی حاصل ہوئی ۔مگر سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں بالآخر مسلمانوں نے فتح پائی۔ اورمسیحیوں کو ان کی سابقہ دنیا سے با ہر نکال دیا گیا۔ پیرس سائیکلو پیڈیا (Pears Cyclopaedia) نے اس سلسلے میں بہت بامعنی تبصرہ کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

Millions of lives and an enormous amount of treasure were sacrificed in these enterprises, and when all was done Jeruselem remained in the possession of the "infidels"

لاکھوں جانیں اور بے شمار دولت ان مہموں میں قربان کر دی گئی ۔ اور جب سب کچھ ہو چکا تو یروشلم بدستور"بد دینوں" کے قبضہ میں پڑا ہوا تھا۔

 یہ واقعہ جو آٹھ سو سال پہلے عیسائیوں کے ساتھ پیش آیا تھا، ٹھیک یہی واقعہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں دوبارہ مسلمانوں کی"دو سو سالہ "قربانیوں کے باوجود "یروشلم"انھیں لوگوں کے قبضہ میں ہے جن کو مسلمان سب سے زیادہ غیر مستحق سمجھتے ہیں۔

مسیحی قو میں صلیبی جنگوں میں تو کامیاب نہیں ہوئی تھیں ۔ مگر موجودہ زمانہ کی استعماری جنگ میں انھوں نے پوری کامیابی حاصل کی ہے۔ پچھلی صدیوں میں انھوں نے مسلمانوں کی تمام سلطنتوں کو مغلوب کر لیا اور پھر ساری دنیا میں ان کے اوپر براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاسی اور تہذیبی غلبہ قائم کرلیا۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے پورے عالم اسلام میں مغربی قوموں کے خلاف لڑائی چھیڑ دی ۔ تاہم دو سو سال (تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری )کی لڑائیوں اور مقابلوں کے بعد بھی صورت حال یہ ہے کہ مسیحی اقوام کا غلبہ بدستور قائم ہے۔ "یروشلم" آپ بھی دشمنانِ اسلام کے قبضہ میں ہے۔

بے پناہ کوششوں کے باوجود اس ناکامی کی وجہ دعوت الی اللہ کے کام کو چھوڑنا ہے جو امت مسلمہ کا اصل منصبی  فریضہ ہے۔ یہی وہ فریضہ ہے جس کی ادائیگی پر مسلمان نصرت خداوندی کے مستحق ہوتے ہیں۔ مسلمان جب تک دعوت الی اللہ کے کام کے لیے    نہ کھڑے ہوں گے ان کی تمام کوششیں حبطِ اعمال کا شکار ہوتی ر ہیں گی ۔ ان کا وہ ہی حال ہو گا جو بائبل میں بنی اسرائیل کے لیے    بیان کیا گیا تھا :

زَرَعْتُمْ كَثِيرًا وَدَخَّلْتُمْ قَلِيلًا. تَأْكُلُونَ وَلَيْسَ إِلَى ٱلشَّبَعِ. تَشْرَبُونَ وَلَا تَرْوُونَ. تَكْتَسُونَ وَلَا تَدْفَأُونَ. وَٱلْآخِذُ أُجْرَةً يَأْخُذُ أُجْرَةً لِكِيسٍ مَنْقُوبٍ۔( حَجَّي 6:1)

 تم اپنی روش پر غور کرو۔ تم نے بہت سابو یا ، پر تھوڑا کاٹا ۔ تم کھاتے ہو ، پر آسودہ نہیں ہوتے۔ تم پیتے ہو ، پر پیاس نہیں بجھتی۔ تم کپڑے پہنتے ہو ، پر گرم نہیں ہوتے۔ اور مزدور اپنی مزدوری سوراخ دار تھیلی میں جمع کرتا ہے ۔ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ تم اپنی روش پر غور کر و (جحی، 6:1)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom