عجیب فرق
جو لوگ قرآن کو مان کر قرآن کے دین کو اختیار کریں ، ان کے بارے میں قرآن میں ہے کہ ایسے لوگوں کا نام مسلم رکھا گیا ہے : هُوَ سَمَّىٰكُمُ ٱلۡمُسۡلِمِينَ [الحج: 78] یہ بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگرعجیب بات ہے کہ یہی سادہ سی چیز دوسرے مذہب والوں کو حاصل نہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین کو جو لوگ مانتے ہیں ، ان کو یہودی (Jews) کہا جاتا ہے۔ مگر ان کی مقدس کتاب بائبل میں کہیں بھی یہ درج نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ کہا تھا کہ میرے ماننے والوں کا نام یہودی ہو گا۔ اسی طرح مسیح علیہ السلام کے دین کو جو لوگ مانتے ہیں ان کو مسیحی (Christians) کہا جاتا ہے۔ مگر انجیل (نئے عہد نامہ) میں کہیں بھی یہ نہیں ملتا کہ مسیح علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کا نام مسیحی رکھا تھا۔
یہی حال ہندو ازم یا ہندو دھرم کے ماننے والوں کا ہے ۔ یہ حضرات اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں۔ مگر اپنی جن کتابوں کو وہ مقدس مانتے ہیں، ان میں کہیں بھی یہ لکھا ہوا نہیں ملتا کہ اس دھرم کو جو لوگ مانیں ، ان کا نام ہندو ہو گا اور انھیں ہندو کہا جائے گا۔
ٹائمس آف انڈیا(۲۰ اگست ۱۹۹۰) میں اندرا رو در منڈ (Indira Rothermund) کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اس کا عنوان ہے –––––– ہندو دھرم میں فنڈ منٹلزم کے لیے کوئی جواز نہیں :
Fundamentalism has no legitimacy in Hindu dharma
اس مضمون میں درج ہے کہ ایک ممتاز ہندو مؤرخ نے بتایا ہے کہ لفظ ہند و کسی بھی قدیم ہندستانی متن میں نہیں پایا جاتا۔ یہ لفظ عرب حملہ آوروں نے آٹھویں صدی عیسوی میں وضع کیا تھا۔ یہ لفظ جغرافی معنوں میں تھا اور وہ ان لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا جو دریائے سندھ کے ساحل پر یا اس کے اُس پار رہتے تھے :
An eminent historian has pointed out that the word Hindu is not found in many ancient Indian texts but was coined by the invading Arabs in the 8th century AD and was a geographical term applied to people who lived on or beyond the banks of the river Sindhu or Indus (p. 9).
نہ صرف نام بلکہ ہر بات جو اسلام میں دین کا جز ء سمجھی جاتی ہے ، اس کی ٹھوس بنیاد خود قرآن اورحدیث میں موجود ہے ۔ جب کہ دوسرے مذاہب میں بہت بڑے پیمانہ پر تبد یلیاں ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ آج جن چیزوں کو مانتے ہیں، ان کے لیے ان کے پاس ٹھوس تاریخی بنیا دموجود نہیں۔
اسلام ایک محفوظ مذہب ہے اور دوسرے تمام مذاہب غیر محفوظ مذہب۔ اسلام اپنے پیچھے مکمل تاریخی استنا درکھتا ہے ، جب کہ دوسرے مذاہب تاریخی استناد کی زمین سے محروم ہیں ۔ اسلام پورےمعنوں میں ایک سائنٹفک مذہب ہے ، اور دوسرے تمام مذاہب بے ثبوت عقیدہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان کو ، جدید علمی معنوں میں ، سائنٹفک مذہب کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام آج کا مذہب ہے،جب کہ دوسرے مذاہب دور قدیم کے مذہب کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مذاہب اصلاً غلط تھے ۔ اپنی ابتدائی اصل کے اعتبار سے تمام مذاہب سچے تھے ۔ مگر بعد کے زمانے میں وہ اپنی اصل صورت کو باقی نہ رکھ سکے ، اس لیے وہ علمی اور تاریخی اعتبار سے قابل اعتبار نہ رہے۔
اسلام کو یہ امتیازی صفت اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی تھی کہ اہل عالم کے درمیان اس کی تبلیغ کا کام آسان ہو جائے ۔ جب مذاہب کی لمبی فہرست میں ایک ہی مذہب مستند ہو اور بقیہ تمام مذاہب غیر مستند ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب طالبین ِمذہب کے لیے انتخاب کا معاملہ آسان ہوگیا۔ اب ان کے لیے تلاش و جستجو کا مسئلہ نہ رہا۔ اب تو میدان میں ایک ہی صداقت ہے جس کو انھیں بلا بحث اختیار کر لینا چاہیے ۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اس واحد سچائی کو دنیا کے سامنے تو پیش نہ کیا ، البتہ اس کے واحد سچائی ہونے پر فخر کر نے لگے ۔ انھوں نے اسلام کی امتیازی شان کو اس کی تبلیغ کےلیے استعمال نہیں کیا ، بلکہ اس کو اپنے لیے سرمایۂ فخر بنالیا۔
مسلمان اگر اسلام کی تبلیغ کرتے تو انہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا انعام ملتا۔ مگر اپنی دیواروں پر "ہم کو اسلام پر فخر ہے " لکھ کر وہ صرف اپنے آپ کو مجرم ثابت کر رہے ہیں۔