قابل ِعمل، نا قابلِ عمل
ایک دھوبی ایک روز اپنے گدھوں کو لے کر گھر سے گھاٹ کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں ایک محلہ تھا ۔ محلہ والوں نے کہا کہ تمہارے گدھوں کو ہم اس شرط پر اپنے محلہ سے گزرنے دیں گے کہ وہ آواز نہ نکالیں، کیوں کہ گدھے کی آواز ہم کو پسند نہیں۔ دھوبی نے جواب دیا : آپ لوگوں کی یہ شرط تو میں مان سکتا ہوں کہ میرے گدھے کسی کو لات نہ ماریں ، مگر یہ شرط میرے بس سے باہر ہے کہ میرے گدھے کوئی آوازنہ نکالیں ۔
یہ واقعہ فرقہ وارانہ فساد کے معاملہ کو بہت خوبی کے ساتھ بتا رہا ہے ۔ ہندستان کے بیشتر فسادات کی بنیاد یہ ہے کہ ایک فرقہ اپنا جلوس نکالتا ہے ۔ وہ چلتے ہوئے شہر کی ایسی سڑک سے گزرتا ہے جس کے کنارےدوسرے فرقہ کے مکانات ہیں۔ اس فرقہ کے لوگ مانگ کرتے ہیں کہ جلوس والے جلوس تو نکالیں مگر وہ اشتعال انگیز نعرہ نہ لگائیں ۔ جلوس اس شرط کو پورا نہیں کر پاتا ۔ جلوس کے کچھ افراد اشتعال انگیز نعرے لگا دیتےہیں ۔ اس پر دوسرا فرقہ بھڑک کر پتھر مارتا ہے۔ اس کے جواب میں فریق ثانی مزید مشتعل ہو کر گولیاں چلاتاہے، اور پھر وہ فساد بر پا ہوتا ہے جس میں ساری آبادی تہس نہس ہو کر رہ جاتی ہے ۔
جلو س نکالنا بلاشبہ ایک سطحی کام ہے ۔ اس میں سطحی قسم کے لوگ ہی حصہ لیتے ہیں۔ سنجیدہ اور پڑھے لکھے لوگ کبھی جلوس و غیرہ میں شریک نہیں ہوتے ۔ دوسرے لفظوں میں جلوس، انسانی گدھوں کی بھیڑ کا نام ہے ۔ ایسے لوگوں سے یہ مانگ کرنا کہ وہ نعرہ نہ لگائیں، سراسرنا قابلِ عمل ہے ۔ وہ لازمی طور پرنعرہ لگائیں گے، حتی کہ دل آزار نعر ے بھی ۔
ہم کو چاہیے کہ ہم قابل عمل اور ناقابل عمل کے فرق کو سمجھیں ۔ ہم قابل عمل کی مانگ کریں اور جو نا قابل عمل ہے اس کو نظر انداز کر دیں۔ ہم قول پر صبر کریں (المزمل ۱۰) اور عمل پر پابندی لگانے کی کوشش کریں ۔ ایسے مواقع پر ہم کو نعرہ کی بات سے اعراض کرنا چاہیے۔ ہم کو ایڈ منسٹریشن سے صرف یہ مانگ کرنا چاہیےکہ وہ جلوس کو تشدد کی کارروائی کرنے سے رو کے ۔ ہم اگر اس حکمت کو اختیار کر لیں تو ملک سے فرقہ وارانہ فسادات کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔
اس دنیا میں ممکن کی مانگ ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے ، اور ناممکن کی مانگ ہمیشہ نا کامیاب۔