اسلام کی دعوت بدلتی ہوئی دنیا میں
خدا کے جن قوانین کے تحت موجودہ دنیا چلائی جارہی ہے ، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو قرآن میں قانون دفع کہا گیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے –––––– اور اگر خد الوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور عبادت خانے اور مسجدیں جن میں خدا کا نام کثرت سے لے لیا جاتا ہے، ڈھادیے جاتے۔ اور خد ا ضرور اس کی مدد کرے گا جو خدا کی مدد کرے ۔ بے شک خداز بر دست ہے، زور والا ہے (الحج: ۴۰)
خدا کے اس قانون کا اظہار انسانی زندگی میں مختلف صورتوں میں ہوتا رہا ہے۔ مثلاً اسلام کے ابتدائی زمانے میں اس کا ایک نمایاں اظہار اس طرح ہوا کہ وقت کی دو بڑی جا برانہ سلطنتوں رومی شہنشاہیت اور ساسانی شہنشاہیت کو توڑ دیا گیا۔ اس کے بعد اشاعتِ حق کے جو آزادانہ مواقع کھلے ، اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام اس وقت کی آباد دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں پھیل گیا۔
یورپ میں صنعتی دور آنے کے بعد نو آبادیاتی نظام (Colonialism) دنیا پر چھاگیا۔ اس نے دوباره، اگر چہ نسبتاً کم تر شدت کے ساتھ ، انسانی دنیا میں جبر کی صورت حال پیدا کر دی۔ اللہ تعالیٰ کا قانون حرکت میں آیا۔ دوسری عالمی جنگ (۴۵-۱۹۳۹) پیش آئی ۔ اس کے نتیجے میں یورپ کی نو آبادیاتی طاقتیں بے حد کمزور ہو گئیں اور آخر کار اس نظام کا خاتمہ ہو گیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قانونِ دفع کا ایک نمایاں اظہار حالیہ برسوں ( ۹۰ - ۱۹۸۹ ) میں ہوا ہے۔ اس بار اس قانون کا نشانہ کمیونسٹ ایمپائر تھی ۔ کمیونسٹ روس میں اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ بظاہر نا قابلِ شکست سوویت ایمپائر ٹوٹ گئی۔ اس طرح اشاعت حق کی آخری رکاوٹ کو بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ بظاہر اب اس قسم کا نظامِ جبر دوبارہ دنیا میں آنے والانہیں۔
مصلحت خداوندی
موجودہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے امتحان کی مصلحت کے تحت بنایا ہے۔ امتحان کی مصلحت کا لازمی تقاضا ہے کہ دنیا میں آزادی کا ماحول ہو ۔ یہاں ہر آدمی کے لیے فَمَن شَآءَ فَلۡيُؤۡمِن وَمَن شَآءَ فَلۡيَكۡفُرۡۚ [الكهف: 29] کا موقع باقی رہے۔
ایسی حالت میں دنیا کے اندر جبر کا نظام قائم کرنا براہ راست مصلحت خداوندی کے خلاف ہے۔ کوئی شخص جب کسی علاقے میں جبر کا نظام قائم کرتا ہے تو گویا وہ خدا کے قائم کئے ہوئے نظام میں مداخلت کرتا ہے۔ خدا ایسے شخص یا گروہ کو کبھی برداشت نہیں کرتا۔ وہ ایسے لوگوں سے طاقت چھین کر انھیں باہر پھینک دیتا ہے۔
کچھ لوگ جہاد (بمعنی قتال) کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اس کا مقصد موانعِ دعوت کوہٹانا ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ جہاد (بمعنی قتال ) صرف دفاع کے لیے ہوتا ہے۔ جہاں تک موانع دعوت کا تعلق ہے وہ خود خدا کی طرف سے ہٹائے جاتے ہیں۔ موانع دعوت خدا کا مسئلہ ہے، وہ ہمارامسئلہ نہیں ۔ ہمار امسئلہ دعوت پہنچانا ہے، اگر ہم دعوت پہنچانے کا کام کریں تو خدا کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ وہ ضرور موانع دعوت کا خاتمہ کر دے گا۔
بائبل کی پیشین گوئی
بائیل میں اسرائیلی پیغمبر کی زبان سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ –––––– وہ کھڑا ہوا اور زمین تھرا گئی۔ اس نے نگاہ کی اور قو میں پراگندہ ہو گئیں۔ از لی پہاڑ پارہ پارہ ہو گئے۔ قدیم ٹیلے جھک گئے۔اس کی را ہیں ازلی ہیں (حبقوق ۳ : ۶)
وَقَفَ وَقَاسَ الأَرْضَ. نَظَرَ فَرَجَفَ الأُمَمُ وَدُكَّتِ الْجِبَالُ الدَّهْرِيَّةُ وَخَسَفَتْ آكَامُ الْقِدَمِ. مَسَالِكُ الأَزَلِ لَهُ(حبقوق ۳ : ۶)
اس پیشین گوئی کا تعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اس میں "ازلی پہاڑ "اور " قدیم ٹیلہ" سے مراد رومی اور ساسانی سلطنتیں ہیں۔ یہ سلطنتیں جبر پر قائم تھیں ۔ انھوں نے قدیم زمانہ میں وہ چیز پیدا کر رکھی تھی جس کو قرآن میں فتنہ کہا گیا ہے۔ اور جس کو ہنری پرین (Henri Pirenne) نے شاہانہ مطلقیت (Imperial absolutism) سے تعبیر کیا ہے۔ اس شاہانہ مطلقیت نے قدیم زمانےمیں دعوتِ حق کے تمام مواقع ختم کر دیے تھے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اللہ تعالیٰ نے عرب طاقت کے ذریعہ ان شہنشاہیتوں کو توڑ دیا۔
اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار آزادانہ غور وفکر کا دور شروع ہوا۔ اس طرح وہ حالات پیداہوئے جب کہ اہل حق آزادانہ طور پر خدا کے دین کی تبلیغ کریں اور لوگ آزادانہ غور و فکر کے تحت اس کو قبول کر لیں۔
دور جدید کا نظامِ جبر
موجودہ زمانہ میں مذکورہ قسم کی شاہانہ مطلقیت دوبارہ نئی صورت میں قائم ہوگئی۔ یہ وہ نظام جبر ہے جو کمیونسٹ نظریہ کے تحت سوویت یونین میں ۱۹۱۷ میں قائم ہوا۔ یہ جابرانہ نظام دوبارہ شدید تر صورت میں دعوت حق کی راہ میں مانع بن گیا۔ بیسویں صدی کے اس نظام جبرمیں تاریخ کی سب سے بڑی طاقت کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی کہ خدا اور مذہب کو آخری حد تک انسانی زندگی سےمٹا دیا جائے۔
مگر دوباره خدا کا قانونِ دفع حرکت میں آیا ۔ خدا نے اپنی برتر مداخلت کے ذریعہ اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ سوویت یونین ، ٹائم میگزین ۱۲ مارچ ۱۹۹۰ کے لفظوں میں ، سوویت ڈس یونین (Soviet Disunion) بن گیا۔
مارکسزم کا خاتمہ
۱۹۵۸ میں راقم الحروف نے ایک کتاب لکھی تھی ، اس کا ٹائٹل تھا : مارکسزم ، تاریخ جس کو رد کر چکی ہے۔ اس وقت لوگوں کو یہ ٹائٹل بڑا عجیب معلوم ہو ا تھا ، مگر آج ۱۹۹۰ میں ساری دنیا کے اخبارات ورسائل میں ایسے مضامین چھپ رہے ہیں جن کی سرخی اس قسم کی ہوتی ہے :
The Collapse of Socialist system
Soviet Empire is Crumbling
The End of Communist History
Marxism is Over
Total Failure of Communism
Fragmented Empire of the U.S.S.R.
ہندستان ٹائمس (یکم جنوری ۱۹۹۰) نے کسی مغربی اخبار سے ایک کارٹون نقل کیا تھا۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک ویران قبرستان ہے۔ اس کے ایک طرف کارل مارکس کی قبر بنائی گئی ہے۔ قبر کے اور پر ایک پتھر لگا ہوا ہے ۔ اس پتھر پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے :
Marx: Finally buried 1989
اسی طرح ہندستان کے دوسرے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا(۳ امئی ۱۹۹۰) نے اپنے پہلے صفحہ پر ایک کارٹون چھاپا تھا۔ اس میں ایک گلوب ہے جس میں دنیا کا نقشہ بنا ہوا ہے۔ اس گلوب کے سامنے روسی لیڈر مسٹر گوربا چیف آتشیں شیشہ (magnifying glass) لیے ہوئے کھڑے ہیں اور اس کے نقشہ میں اپنا ملک تلاش کر رہے ہیں۔ آخر کار وہ اپنی بیوی سے کہہ اٹھتے ہیں کہ رئیسہ ، وہ یہاں ہے، میں نے اس کو پالیا ، سوویت یونین:
Raisa. It's here! I found it - the Soviet Union!
سوویت یونین میں ہونے والے اس انقلاب کا کریڈٹ ٹائم میگزین نے میخائیل گوربا چیف کو دیا ہے۔ اس نے اپنا شمارہ یکم جنوری ۱۹۹۰ استثنائی طور پر گور با چیف نمبر کے طور پر نکالا ہے اور گور با چیف کو دہے کی شخصیت (Man of the Decade) قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گوربا چیف نے دنیا کو بدل دیا !
Gorbachev has transformed the world (p. 14).
اس میں شک نہیں کہ سوویت یونین میں جو انقلابی واقعہ ہوا ، اس کو ظہور میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے گوربا چیف کو وسیلہ بنایا ہے۔ اس معاملہ میں زیادہ بڑے پیمانہ پر ان کا وہی درجہ ہے جو فرانس کے جنرل ڈیگال کا تھا۔ ڈیگال نے حالات کا اعتراف کرتے ہوئے فرانس کے افریقی مقبوضات کو آزاد کر دیا۔ اسی طرح میخائیل گوربا چیف نے اندرونی اور بیرونی حالات کا اعتراف کرتے ہوئے سوویت روس میں انقلاب کے بند دروازے کھول دیے۔ اس سلسلہ میں ٹائم کا یہ ریمارک بہت بامعنی ہے کہ گور با چیف ایک ماہر سیاست داں ہیں۔ وہ بہت سے ملکوں میں الیکشن جیت سکتے ہیں مگر غالباً خود اپنے ملک میں نہیں :
A master politician. Gorbachev could win election in many countries, but probably not his own.
سوویت روس میں لائے جانے والے اس انقلاب کے بہت سے پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک اہم پہلو وہ ہے جو مذہب سے تعلق رکھتا ہے کمیونسٹ حکومت کے قیام (۱۹۱۷ء )کے بعد پورے سوویت روس میں مذہب پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسی طرح اسلام بھی وہاں محبوس ہو کر رہ گیا تھا۔ہزاروں مسجدیں اور مدر سے بند کر دیے گئے۔ اسلامی لٹریچر کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ اسلامی تعلیم یا اسلامی سرگرمیاں جرم قرار پا گئیں ۔ مگر نئے انقلاب نے دوبارہ سوویت روس میں اسلامی سرگرمیوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔
اسلام کا دور
سوویت روس میں عبادت خانے بند کر دیے گئے تھے ۔ مذہب کو خلافِ قانون قرار دےدیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے ایک مستقل محکمہ قائم کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ سوویت روس سے مکمل طور پر مذہب کے خاتمہ کی تدبیریں اختیار کرے ۔ مگر آج یہ تمام چیزیں عملاً ختم ہو چکی ہیں ۔
سوویت روس میں اب ایک ہزار سے زیادہ مسجدیں مسلمانوں کے حوالے کر دی گئی ہیں۔اسلامی لٹریچر شائع کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ چنانچہ ۱۹۹۰ میں وہاں سے ایک اسلامی جریدہ "نور الاسلام"کے نام سے نکالا گیا ہے۔ روسی حکومت کی منظوری کے تحت خود روس کی ہوائی کمپنی ایر و فلاٹ نے قرآن کے ایک ملین نسخےجدہ سے ماسکو پہنچائے ہیں ، جب کہ اس سے پہلے قرآن کا ایک نسخہ بھی روس کے اندر لے جانا ممنوع تھا۔
کمیونسٹ انقلاب کے بعد سوویت روس میں حج کا سفر بند کر دیا گیا تھا۔ اب خود سوویت یونین کے صدر میخائیل گور با چیف نے روسی ائیر لائن ایروفلاٹ کو ہدایت کی ہے کہ وہ روسی حاجیوں کو عرب پہنچانے کا خصوصی انتظام کر ے اور اس مقصد کے لیے ماسکو ، تاشقند ، باکو ، تا تار ، قازان اور دوسرے بڑے روسی شہروں سے جدہ تک براہ راست پرواز یں جاری کرے۔ اسی کے ساتھ گوربا چیف نے روسی وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ سوویت روس سے جو مسلمان حج کے لیے جانا چاہیں ، ان کے لیے بسہولت ویزا جاری کیا جائے۔
سوویت روس میں اسلام کے لیے جو نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں ، ان کے سلسلے میں یہ چند باتیں بطور مثال ہیں نہ کہ بطور حصر۔ انھیں چند مثالوں سے بقیہ باتوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
کارل مارکس نے اپنی ایک تحریر میں مذہب کے خلاف نہایت سخت ریمارک دیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ مذہب عوام کی افیون ہے :
Religion is the opium of the people.
مگر آج خود کمیونسٹ روس میں ایسے اہل ِعلم پیدا ہو چکے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مارکسزم خود بدترین قسم کی ذہنی افیون تھی۔ مارکس خود اس افیون میں مبتلا ہوا اور دوسرے بہت سے لوگوں کو اس میں مبتلا کیا۔ اسٹالن نے روس کے ۲۵ ملین انسانوں کو یا تو ہلاک کر دیا یا انھیں سخت ترین سزائیں دیں۔ اس کے باوجودوہ کمیونسٹ نظام کو مستحکم نہ کر سکا۔
ٹائم میگزین نے اپنے شمارہ ۱۲ مارچ ۱۹۹۰ء میں سوویت روس کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ نئے انقلاب کے بعد اب روس میں مذہب کی حیثیت کیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کا بھی تفصیلی حال درج کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روس کے تقریباً ۵۵ ملین مسلمان نئی مذہبی رواداری کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں :
Some 55 million Soviet Muslims enjoy the fruits of new religious tolerance.
اس با تصویر رپورٹ کی سرخی نہایت با معنی ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں –––––– کارل مارکس محمد کے لیے جگہ خالی کرتا ہے:
Karl Marx makes room for Muhammad.
کیسا عجیب ہے یہ انقلاب جو تاریخ انسانی میں پیش آیا ہے۔
آزاد دنیا میں دورِ خاتمیت
یہ وہ صورت حال ہے جو دوسری دنیا (second world) میں پیش آئی۔ اسی طرح پہلی دنیا (first world) میں بھی ایک اور انداز سے دور رس تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اور یہ تبدیلیاں بھی عین اسلامی دعوت کے حق میں ہیں۔ ان تبدیلیوں نے مغربی دنیا میں موانع دعوت کا حصار توڑ کروہاں دعوت کے نئے وسیع تر امکانات کھول دیے ہیں۔
امریکہ کے دانشور طبقہ میں پچھلے چند برسوں میں ایک نیا فکر پیدا ہوا ہے۔ اس فکر کو خاتمیت (endism) کا نام دیا گیا ہے۔ "آزاد دنیا "نے حیرت انگیز طور پر اپنی تہذیب میں اپنے سابقہ یقین کو کھو دیا ہے۔
لا محد و د آزادی کا نظریہ حقائقِ فطرت سے ٹکرا گیا۔ صنعتی ترقی کے مسائل نے دنیا میں جنت تعمیر کرنے کے خواب کوبرباد کر دیا۔ جاپان کی غیر متوقع اقتصادی طاقت نے مغرب کی فوجی طاقت کو غیر مؤثر بنا دیا۔ انسانی ساخت کے تمام نظریات اپنے تجربہ میں غیر معتبر قرار پا گئے ۔ مادی ترقیاں انسان کی روح کو مطمئن کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ وغیرہ
ناکامیوں کی اس فہرست میں سب سے اہم اور دور رس نتائج والی نا کامی وہ ہے جو فکری سطح پر پیش آئی ہے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں اہل مغرب نے یہ یقین کر لیا تھا کہ ان کی سائنس ان کے لیے الہامی مذہب کا بدل ہے۔ سائنس فکری اعتبار سے انھیں وہ سب کچھ دے سکتی ہے جس کی امید مذہب سے کی جاتی ہے۔مگرموجودہ صدی کے آخر میں پہنچ کر اہل سائنس نے آخری طور پر اپنے اس یقین کو کھو دیا ہے۔ اب انسان دوبارہ وہاں کھڑا ہے جہاں اس کو فکری اعتقاد اور نظریاتی یقین کے لیے دوبارہ اسی چیز کی ضرورت ہے جس کو مذہب کہا جاتا ہے۔
سائنس کی اس ناکامی پر موجودہ زمانے میں کثیر تعداد میں کتا بیں چھپی ہیں۔ ان کتابوں کا مشترک خلاصہ یہ ہے کہ سائنس کی تمام تحقیقات نے اس کو اس مقام پر پہنچا یا ہے کہ انسان جو کچھ جاننا چاہتا ہے ، وہ اس کو سائنسی مطالعہ کے ذریعہ نہیں جان سکتا۔ موجودہ صدی کے آغاز میں انسان نے "انسائیکلو پیڈیا آف نالج "چھاپی تھی، اب موجودہ صدی کے خاتمہ پر وہ قاموس جہالت (Encyclopedia of Ignorance) چھاپ رہا ہے۔
یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دوں گا جو ۱۹۸۹ میں نیو یارک سے چھپی ہے۔ اس کتاب کے مصنف اسٹفن ہاکنگ (Stephen W Hawking) ہیں ۔ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں میتھمیٹکس کے پروفیسر ہیں۔ میتھمیٹکس کی یہ چیر نیوٹن کے نام پر قائم کی گئی ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آئن سٹائن کے بعد وہ نظریاتی طبیعیات میں سب سے زیادہ ممتاز سائنس داں ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب وقت کی مختصر تاریخ( (A Brief History of Time کو ان سطروں سے شروع کیا ہے:
ایک مشہور سائنس داں (کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ برٹرینڈ رسل )نے ایک بار فلکیات پر ایک عوامی لکچر دیا۔ اس نے بتایا کہ زمین کس طرح سورج کے گرد گھومتی ہے اور پھر سورج کس طرح کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتا ہے جو کہ بہت سے ستاروں کا ایک مجموعہ ہے۔ لکچر کے آخر میں ایک چھوٹی بوڑھی عورت کمرہ کے پچھلے حصہ سے اٹھی اور کہا۔ جو کچھ تم نے ہمیں بتا یا وہ لغو ہے۔ زمین در حقیقت ایک چپٹی پلیٹ کی طرح ہے اور وہ ایک بڑے کچھوے کی پشت پر تھمی ہوئی ہے۔ سائنس داں برتری کے احساس کے تحت مسکر ایا اور پھر کہا کہ یہ کچھواکس چیز کے اوپر ہے۔ خاتون نے کہا کہ نوجوان ، تم بہت چالاک ہو۔مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھوے کے نیچے کچھوا ہے، اور اس طرح یہ سلسلہ نیچے تک چلا گیا ہے۔
بہت سے لوگ دنیا کی اس تصویر کو مضحکہ خیز سمجھیں گے کہ یہاں کچھووں کا ایک لامتناہی کھمبا قائم ہے۔ مگر ہم کیوں یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا علم اس سے بہتر ہے۔ ہم دنیا کی بابت کیا جانتے ہیں اور کس طرح جانتے ہیں۔ دنیا کہاں سے آئی اور وہ کہاں جارہی ہے ۔ کیا دنیا کا ایک آغاز ہے، اور اگر ایسا ہے تو اس سے پہلے کیا پیش آیا ۔ وقت کی نوعیت کیا ہے۔ کیا وہ کبھی ختم ہو جائے گا۔ علم طبیعیات کے حالیہ انکشافات جو نئی ٹکنالوجی کے ذریعہ ممکن ہوئے ہیں، وہ ان میں سے بعض سوالات کا کچھ جواب دیتے ہیں۔ یہ جو اب آئندہ اتنے ہی بد یہی دکھائی دے سکتے ہیں جتنا کہ زمین کا سورج کے گرد گھومنا یا شاید وہ اتنے ہی مضحکہ خیز نظر آئیں جتنا کہ کچھووں کا کھمبا۔ صرف وقت ہی اس کے بارے میں کچھ بتا سکتا ہے:
A well-known scientist (Some say it was Bertrand Russell) once gave a public lecture on astronomy. He described how the earth orbits around the sun and how the sun, in turn, orbits around the center of a vast collection of stars called our galaxy. At the end of the lecture, a little old lady at the back of the room got up and said: "What you have told us is rubbish. The world is really a flat plate supported on the back of a giant tortoise." The scientist gave a superior smile before replying, "What is the tortoise standing on?" "You're very clever, young man, very clever," said the old lady. "But it's turtles all the way down!" Most people would find the picture of our universe as an infinite tower of tortoises rather ridiculous, but why do we think we know better? What do we know about the universe, and how do we know it? Where did the universe come from and where is it going? Did the universe have a beginning, and if so, what happened before then? What is the nature of time? Will it ever come to an end? Recent breakthroughs in physics, made possible in part by fantastic new technologies, suggest answers to some of these longstanding questions. Someday these answers may seem as obvious to us as the earth orbiting the sun or perhaps as ridiculous as a tower of tortoises. Only time (whatever that may be) will tell.
ایک اور مثال
اسٹفن ہاکنگ نے اپنی کتاب میں مختلف پہلوؤں سے بحث کر کے دکھایا ہے کہ کائنات نے بے شمار امکانی ماڈلوں میں سے اسی ایک ماڈل کو اختیار کیا ہے جو انسان جیسی مخلوق کی زندگی اورترقی کے لیے ضروری تھا۔ "کائنات ویسی کیوں ہے جیسی ہم اسے دیکھتے ہیں "۔ ان کے الفاظ میں ، اس سوال کا جواب بالکل سادہ ہے۔ اگر کائنات کسی اور ڈھنگ کی ہوتی تو ہم یہاں موجود ہی نہ ہوتے :
"Why is the universe the way we see it?" The answer is then simple: If it had been different, we would not be here! (p. 131).
انھوں نے بگ بینگ (big bang) نظریہ کا حساب کر کے بتایا ہے کہ اس میں بے شمار ایسے پہلو ہیں جن کے متعلق ماننا پڑتا ہے کہ وہ کسی نا قابلِ توجیہہ سبب (unexplained reason) کی بنا پر ہوا۔ کیوں کہ معلوم مادی قو انین میں اس کی توجیہہ موجود نہیں۔
مثال کے طور پر انھوں نے بتایا ہے کہ بگ بینگ کے بعد کائنات کی جو توسیع شروع ہوئی اور جو اب تک مسلسل جاری ہے، اس کی توسیع کی شرح (rate of expansion) انتہائی حد تک حسابی (well-calculated) ہے۔ اس توسیع کی شرح رفتار میں اگر ایک سکنڈ کے جزء (fraction) کے بقدر بھی فرق ہوتا تو کائنات اب تک منہدم ہو چکی ہوتی۔
اس قسم کی مختلف تفصیلات دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ بتانا بے حد مشکل ہے کہ کائنات اس خاص طریقہ سے کیوں شروع ہوئی ، سوا اس کے کہ یہ مانا جائے کہ وہ ایک خدا کا عمل ہے جس نے چاہا کہ وہ ہمارے جیسی مخلوق پیدا کر کے یہاں رکھے :
It would be very difficult to explain why the universe should have begun in just this way, except as the act of a God who intended to create beings like us (p. 134).
کائنات کا سائنٹفک ماڈل تقاضا کرتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا مانا جائے۔ خدا کو نہ ماننے کی صورت میں یہ ماڈل نا قابل فہم بن کر رہ جاتا ہے۔
سائنس کی تصدیق
موجودہ زمانہ عقل (reason) کا زمانہ ہے۔ آج کا انسان ہر چیز کو عقل کے معیار پرپر کھ کر اختیار کرنا چاہتا ہے۔ مگر آج کے انسان نے جب موجودہ مذاہب کو عقل کے معیار پر پر کھا تو اس نے پایا کہ تمام مذاہب کی کتابیں غیر عقلی تعلیمات سے بھری ہوئی ہیں۔
مثال کے طور پر بائبل میں زمین پر انسان کے ظہور کی جو تاریخ دی گئی ہے، اس کے لحاظ سے حساب لگایا جائے تو ۱۹۹۱ میں زمین پر انسان کے ظہور کی مدت ۵۷۵۲ سال ہو گی۔ سائنسی نقطہ ٔنظر سے انسانی عمر کا یہ تعین مضحکہ خیز ہے۔ مگر اس قسم کی غیر علمی اور غیر تاریخی باتیں تمام مذہبی کتابوں میں پائی جاتی ہیں ۔
اس میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ قرآن کا ہے۔ قرآن میں اس قسم کی کوئی مثال مطلق طور پر موجود نہیں۔ اس موضوع پر مختلف کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ فرانس کے ڈاکٹر موریس بوکائی (Dr Maurice Bucaille) کی مشہور کتاب (The Bible, the Qur'an and Science) خاص اسی موضوع پر ہے جو پہلی بار فرانسیسی زبان میں ۱۹۷۶ میں شائع ہوئی تھی۔ اور اب تک ۱۰ زبانوں میں اس کے ترجمے کیے جاچکے ہیں۔
اس سلسلہ میں ڈاکٹر بوکائی کی دوسری کتاب ۱۹۸۴ میں پیرس سے شائع ہوئی ہے ۔ ۲۲۰ صفحہ پرمشتمل اس کتاب کے انگریزی اڈیشن کا نام یہ ہے :
What is the Origin of Man?
ڈاکٹر موریس بوکائی نے اس کتاب میں خاص طور پر ان آیات کا مطالعہ کیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ رحم مادر کے اندر انسان کی ابتدائی تخلیق کس طرح ہوتی ہے۔ مثلاً : اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پید اکیا ۔ پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ پھر ہم نے پانی کی بوند کو ایک علقہ کی شکل دی۔ پھر علقہ کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا۔ پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بنا کر کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ ، بہترین پیدا کرنے والا (المؤمنون: ۱۲-۱۴)
ڈاکٹر بو کائی نے دکھایا ہے کہ پیغمبر اسلام کے الہام کا زمانہ ۶۱۰ سے ۶۳۲ تک ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مشرق و مغرب میں ہر طرف علمی تاریک خیالی (scientific obscurantism)کا ذہن چھایا ہوا تھا۔ چنانچہ اس دور کی تمام کتابوں میں اس زمانہ کے غیر علمی خیالات کا انعکاس پایا جاتا ہے۔
مگر قرآن حیرت انگیز طور پر اس عمومی تاثر سے مستثنیٰ ہے۔ قرآن میں اپنے زمانہ کی کوئی ایک بھی علمی غلطی راہ نہ پاسکی۔ حتی کہ قرآن اگر اس زمانہ کی کسی رواجی بات کو نقل کرتا ہے تو وہ صرف اس کے صحیح اجزاء کو نقل کرتا ہے ، اور اس کے غیر صحیح اجزاء کو حذف کرتا چلا جاتا ہے۔
ڈاکٹر موریس بوکائی نے اس سلسلہ میں ان آیتوں کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے جن کا تعلق انسان کی پیدائش اور رحم مادر میں اس کے ارتقاء سے ہے۔ انھوں نے تفصیل سے دکھایا ہے کہ انسان کی پیدائش کے بارے میں قرآن کے جو بیانات ہیں وہ حیرت انگیز طور پر جدید تحقیقات کے عین مطابق ہیں۔ وہ تحقیقی نتائج جو پہلی بار صرف بیسویں صدی کے نصف آخر میں سامنے آئے ہیں، وہ ۱۴ سو سال پہلے کی کتاب قرآن میں کیوں کرموجود ہیں، یہ ظاہرہ (phenomenon) انتہائی حد تک عجیب ہے۔
ڈاکٹر بوکائی اس قسم کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں علم کی تاریخ ہم کواس نتیجہ تک پہنچاتی ہے کہ قرآن میں اس قسم کی آیتوں کی موجودگی کی کوئی انسانی توجیہہ ممکن نہیں :
The history of science leads us to conclude that there can be no human explanation for the existence of these verses in the Qur'an (p. 188).
اس طرح کی کثیر مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ علم کا دریا (river of knowledge) جو لوگوں کو انیسویں صدی میں الحاد کی طرف جاتا ہوا نظر آرہا تھا، اب بیسویں صدی میں وہ اپنا رخ موڑ کر مذہب کی طرف جا رہا ہے۔ مذہبی عقائد عین سائنٹفک سطح پر ثابت شدہ حقائق بنتے جارہے ہیں۔ مذہب آج خالص سائنس کی روشنی میں، سب سے زیادہ قابلِ فہم اور قابل ِاعتبار آئیڈیالوجی بن گیا ہے۔
یہاں میں اضافہ کروں گا کہ مذہب کی صداقت کا ثابت ہونا اسلام کی صداقت کا ثابت ہونا ہے ۔ کیوں کہ اسلام کے سوا تمام مذاہب تبدیلی اور اضافہ کی بنا پر اپنا استناد کھو چکے ہیں۔ اب میدان میں صرف اسلام ہے جس کو مستند اور قابل ِقبول مذہب کا درجہ دیا جاسکے۔
سائنس کی طرف سے مایوسی
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ کی سائنسی دریافتوں نے انسان کو علم سے زیادہ بے علمی تک پہنچا یا ہے ۔ مثلاً بلیک ہول کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ ہماری کائنات کا صرف ۳ فی صد حصہ ہمارے لیے قابل مشاہدہ ہے ۔ بقیہ ۹۷ فی صد حصہ روشنی خارج نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے لیے قابل مشاہدہ ہی نہیں ۔
یہ سادہ طور پر مادہ (mass) کی بات ہے ۔ جہاں تک مادی مشاہدات کی توجیہہ کا سوال ہے تو اس معاملہ میں سائنس نے ہمیں کسی بھی یقینی جو اب تک نہیں پہنچایا ہے۔ ہر چیز جس کو آدمی جاننا چاہتا ہے ، بہت جلد وہ دیکھتا ہے کہ اس کی حد(limit) آگئی۔ اور اس کے آگے معاملہ کو جاننا یا سمجھنا آدمی کے لیے موجودہ حالت میں ناممکن ہے۔
ان تجربات کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ موجودہ زمانہ میں آدمی نے سائنس کے بارے میں اپنے یقین کو کھو دیا ہے ۔ کمیونسٹ دنیا کا مسئلہ اگر جبر تھا ، تو آزاد مغربی دنیا کا مسئلہ ذہنی گھمنڈ (intellectual arrogance) تھا ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو سائنس کی محدودیت(Limitations) بتا کر ان کے علمی گھمنڈ کو چور چور کر دیا۔
یہاں میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) کا ایک پیرا گراف نقل کروں گا۔ اس نے ‘‘ہسٹری آف سائنس’’ کے آرٹیکل کے تحت لکھا ہے کہ ابھی حال تک ، سائنس کی تاریخ کامیابی کی تاریخ تھی ۔ سائنس کی کامیابیاں بڑھتے ہوئے علم ، اور جہالت اور توہم پرستی پر فتح کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ سائنس سے ایجادات کا ایک سیلاب نکلا تھا جو انسانی زندگی کو ترقی دینے والا تھا۔ مگر حال میں یہ محسوس کیا گیا ہے کہ سائنس گہرے اخلاقی سوالات سے دوچار ہے ۔ لامحدود و ٹکنکل ترقیوں سے پیدا ہونے والے خطرات نے مورخین کو مجبور کیا ہے کہ وہ سائنس کے بارے میں اپنے ابتدائی سادہ خیالات کا دوبارہ تنقیدی جائزہ لیں :
Until recently, the history of science was a story of success. The triumphs of science represented a cumulative process of increasing knowledge and a sequence of victories over ignorance and superstition: and from science flowed a stream of inventions for the improvement of human life. The recent realization of deep moral problems within science, of external forces and constraints on its development, and of dangers in uncontrolled technological change has challenged historians to a critical reassessment of this earlier simple faith. (16/366)
خلاصۂ کلام
دوسری دنیا (کمیونسٹ دنیا )میں اسلامی دعوت کے لیے کام کرنے کے مواقع مسدود ہو گئےتھے۔ اب وہاں اسلامی دعوت کے مواقع دوبارہ کھل گئے ہیں۔ جہاں تک پہلی دنیا آزاد دنیا تعلق ہے، وہاں کام کے مواقع پہلے سے موجود تھے ۔ اب نئے حالات نے ان مواقع میں صرف مزید اضافہ کیا ہے۔
ان حالات میں ہماری ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اب ہمیں مزید طاقت اورسرگرمی کے ساتھ ان مواقع دعوت کو استعمال کرنے میں لگ جانا چاہیے ۔
اسلام کا احیاء اور مسلمانوں کی ترقی تمام تر دعوت کے عمل سے وابستہ ہے۔ اور موجودہ زمانہ میں دعوت کے مواقع آخری حد تک کھول دیے گئے ہیں۔ اب تاریخ منتظر ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں اور ان مواقع کو استعمال کر کے اسلام کی دعوت کو تمام بندگانِ خدا تک پہنچا دیں۔
موجودہ زمانہ میں ایک طرف ہر قسم کے دعوتی مواقع کے دروازے کھل گئے ہیں۔ دوسری طرف وسائل اعلام (communication) کے جدید ذرائع نے اس کو ممکن بنادیا ہے کہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ خدا کی دعوت سارے عالم میں پہنچائی جاسکے ، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشین گوئی پوری ہو جائے جس میں آپ نے فرمایا کہ زمین کے اوپر کوئی بھی مکان یا خیمہ نہیں بچے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہو جائے۔ تاریخ ہمیں یہ عظیم کریڈٹ دینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ ہم ان ضروری شرائط کو پورا کر دیں جس کے بعد کسی کو اس قسم کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔
تجویز
اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر آخر میں میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ خاص اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے۔ اس کمیٹی میں اہلِ علم اور با خبر افراد شریک ہوں۔ یہ لوگ جمع ہو کر با ہم مشورہ اور غور و فکر کریں۔ اور پھر دعوتی عمل کا ایک مکمل منصوبہ بنائیں ۔ اس کے بعد منظم انداز میں اس پر عمل شروع کر دیا جائے۔ مذکورہ نوعیت کی ایک کمیٹی کا قیام اس معاملہ میں صحیح اور موثر آغاز کی ضمانت ہوگا۔