موت کے آگے
ایم ایس اوبرائے ہندستان میں ہوٹل کے بزنس میں سب سے ممتاز شخص گنے جاتے ہیں۔ وہ ایک"ہوٹل ایمپائر"کے مالک ہیں اور نہ صرف ہندستان کے مختلف شہروں میں ان کے ہوٹل قائم ہیں ، بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ان کے بڑے بڑے ہوٹل چل رہے ہیں۔ مسٹر اوبرا ئے ۱۵ اگست ۱۹۰۰ ء کو پیدا ہوئے ۔ اب ۹۰ سال کی عمر کو پہنچ کر وہ دہلی کے قریب ایک فارم میں سادہ طور پر رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا فارم میری پناہ گاہ ہے ، وہ مجھ کو سکون دیتا ہے:
My farm is my refuge and gives me solace.
ٹائمس آف انڈیا کے سنڈے ایڈیشن (۱۲ اگست ۱۹۹۰ء) میں اپنی زندگی کی کہانی بتاتے ہوئے اس کو انھوں نے ان الفاظ پر ختم کیا ہے ––––– اپنی زندگی کی شام کو پہنچ کر مجھے کوئی افسوس نہیں ۔ یہ جان کر مجھے راحت ملتی ہے کہ اپنے طریقہ کے مطابق ، میں اس قابل ہو سکا کہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کروں، اور یہ کہ جو کچھ میں نے حاصل کیا وہ میرے ملک کی عزت میں اضافے کا سبب بھی بنا۔ اس سے زیادہ کوئی شخص اور کیا تمنّا کر سکتا ہے :
In the evening of life, I have few regrets and there is comfort in knowing that I have been able to, in my humble way, help people in need and that whatever I have achieved has also helped to raise the prestige of my country. What more could any man have wished for?
ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ایک شخص جو ملک کے لیے جیے ، وہ اپنی آخر عمر میں پہنچ کر یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ جس کے لیے جیا اس کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہے ۔ اس کے برعکس جو شخص خدا کے لیے جیے ، اس کا احساس آخر عمر میں یہ ہو گا کہ وہ جس ہستی کے لیے جیا ، وہ ہستی اس کے آگے ہے ۔ پہلے شخص کو موت کے آگے صرف خلا نظر آئے گا، اور دوسرے شخص کو موت کے آگے امید سے بھری ہوئی ایک پوری دنیا دکھائی دے گی ۔
پھر کیوں نہ آدمی خدا کے لیے ۔ کیوں وہ غیر خدا کے لیے جیے جس کا آخری انجام صرف مایوسی اور نا امیدی ہے ، اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔